جمیل الرحمٰن کی غزل:سنہ ۱۹۶۰ کی دہائی کی وراثت

یہ تحریر 2388 مرتبہ دیکھی گئی

                ایک زمانہ تھا جب اردو غزل کے ایوان میں، یا ایوان کے اندر نہ سہی، ایوان کے دروازے پر نئی نئی آوازوں کا ہجوم تھا۔آہستہ آہستہ کچھ آوازوں کو ایوان کے اندر بار مل گیا اور کچھ تھک تھک کر دروازے ہی پر پست ہو گئیں۔ کچھ بالکل ہی غائب بھی ہو گئیں۔لیکن تھوڑے ہی عرصے میں کئی آوازوں کو جدید شاعری میں اتنا وقار مل گیا کہ دوست دشمن سب کو قائل ہونا پڑا کہ یہ شاعری اب بہر حال اردو ادب کا معتبر حوالہ بن چکی ہے۔نئی اور معتبرآوازوں کی اس کثرت میں ہم لوگوں کو یہ خدشہ بھی لاحق ہونے لگا کہ اب آئندہ والے اپنی لے کے لئے بھلا کس ساز کا سہارا لیں گے، کون سی راہ نکالیں گے؟

                یہ خدشے ایک حد تک بے بنیاد ثابت ہوئے۔ ترقی پسند شاعری کے برخلاف،جدید شاعری میں نئی راہوں اور نئے امکانا ت کوقبول کرنے، بلکہ ان کی ہمت افزائی کرنے کی صلاحیت شروع ہی سے تھی۔جدید شاعری کی بنیاداس بات پر تھی کہ نئے خیالات کو، نئے ادبی تجربات کو، نئی طرزوں کو پھلنے پھولنے کا پورا موقع ہونا چاہیئے۔۱۹۸۰ کی دہائی میں کئی نئے شاعر سامنے آئے جن کاانداز ۱۹۶۰ والے جدید شعرا سے مختلف تھا، لیکن وہ انداز جدید شاعری کے باہر نہ تھے، اس کے خلاف ہونے کا تو خیر کوئی سوال ہی نہیں۔ان کے محسوسات بھی مختلف تھے لیکن وہ بھی جدید ہی محسوسات تھے، اس معنی میں کہ وہ پیشین گوئی پذیر نہ تھے، یعنی ایسے نہ تھے کہ نظم یاشعر شروع کرتے ہی پتہ لگ جائے کہ شاعر نے کیا کہا ہوگا۔ الیٹ کہتاتھا کہ جب تک میں نظم کومکمل نہ کر لوں میں کیا بتا سکتا ہوںکہ میں اس میں کیا کہنا چاہتا تھا؟یعنی شعر گوئی کا اصل طریقہ یہ ہے کہ خیال پوری طرح آزاد ہو،پھر وہ شاعر کو چاہے جہاں لے جائے۔شاعر کو کسی مکتب فکر، کسی نظریے، کسی خارجی دباﺅ کا پابند نہ ہو نا چاہیئے۔اسے کسی منصوبہ بند انداز میں شعر نہ کہنا چاہیئے۔ ترقی پسند نظریہ شعر کی رو سے یہی منصوبہ بندی شعر کی روح تھی۔سنہ ۱۹۶۰کے شعرا، اور پھر سنہ۱۹۸۰ کی نسل کے شعرا نے اسی منصوبہ بند اور پیشین گوئی پذیر شعر کو رد کیا۔

                 سنہ ۱۹۸۰ کی دہائی میں کچھ نئے شاعر ابھرے۔ ان میں سے بعض شعرا اپنی محنت، اور فن کے تئیں اپنے خلوص کے بل بوتے پر کامیاب ہوئے ، اس طر ح اور اس قدر،کہ دو دہائیاںگذرتے گذرتے انھوںنے اپنی جگہ قائم کر لی۔ یہ وہی شعرا تھے جن کے محسوسات نئے تھے لیکن جنھوں نے اپنے محسوسات اور تجربات کو کسی خارجی حوالے کا پابند نہ کیاتھا۔

جمیل الرحمٰن بے شک سنہ ۱۹۸۰ کی دہائی کے انھیں شعرا میں ہیں جن کا تجربہ حیات، غزل کے تئیں جن کا رویہ، اور جن کے مضامین شعر، سنہ ۱۹۶۰ کی دہائی کے شعرا سے مختلف ہیں۔ استعارہ، اور اس سے بڑھ کر پیکر، ان کی کشت زار شعر کے نمایاں پھول ہیں ۔ اور ان پھولوںکو ترک وطن، محبت کی تلاش،معاصر دنیا میں سکون کی امید اور نا امیدی کے اظہار کا پردہ ٹھہرایا گیا ہے۔دور نہ جا کر جمیل الرحمٰن کے اس تازہ مجموعے ہی کی سرسری ورق گردانی کریں تو ایسے اشعار نظر آتے ہیں جن میں محزونی کو ایک پیچیدہ تجربے کے طور پر بیان کیا گیا ہے، صرف ایک صورت حال کے طورپر نہیں۔مثال کے طور پر کتاب کے نام ہی کو لیں”کوے باز گشت“، جو اس کا سر نامہ بھی ہے

                ہم پر کھلا یہ راز بھی اس کوے باز گشت میں

                کوئی صدا نئی نہیں کوئی سخن نیا نہیں

                ”کوے باز گشت“ایک طرف تو تمام شاعری کا استعارہ ہے، کہ یہاں جو کچھ ہے وہ سب پہلے کہا جا چکا ہے، لیکن دوسری طرف یہ واپسی کا بھی استعارہ ہے، کہ متکلم جب دنیا گھوم کر اپنی گلی میں واپس آتا ہے تو اسے محسوس ہوتا ہے کہ درد کی صدائیں جنھیں سنتا ہوا وہ اپنی گلی سے باہر نکلا تھا وہی صدائیں باہر بھی تھیں۔ شعر میں ”صدا“ اور ”سخن“ الگ الگ معنی رکھتے ہیں۔ تیسرا پہلو یہ ہے کہ متکلم واپس توآجاتا ہے، اگرچہ وہ در اصل کسی چیز کی تلاش میں، یا کسی مجبوری کے باعث، اپنی گلی سے نکلا تھا اور اس کی بازگشت بظاہر ممکن نہ تھی۔ لیکن وہ واپس آیا، خواہ اس بنجر بصیرت کے ساتھ کہ ہر چیز ہر جگہ ایک سی ہے۔اسی غزل کا مقطع دیکھئے

                                ہم نے جمیل کاٹ دی اک عمر اس کے روبرو

                                اصرار ہے اسے مگر وہ ہم سے آشنا نہیں

                یہ محض عشقیہ شعر نہیں ہے، یا یوں کہیں کہ یہ عشقیہ شعر ہے لیکن غم ذات کے کئی او ر

پہلوﺅں کو محیط ہے۔ پہلے کے شعرا کا محبوب موضوع یہ تھا کہ محبوب کے روبرو یا اس کے قریب رہتے ہوئے بھی متکلم کو تنہائی یا محرومی کا احسا س ہوتا ہے۔ اس مضمون پر بیدل کا شعر زباں زد خاص وعام ہے

                                ہمہ عمر باتوقدح زدیم و نرفت رنج خمار ما

                                چہ قیامتی کہ نمی رسی زکنار ما بکنار ما

ہمارے زمانے میں خلیل الرحمٰن اعظمی نے اسے بڑے سادہ اور پرکار انداز میں کہا

                                ایسی راتےں بھی ہم پہ گذری ہیں

                                تیرے پہلو میں تیری یاد آئی

جمیل الرحمٰن کے شعر زیر بحث میں معشوق کے پہلومیں،یا معشوق کے آغوش میں ہوتے ہوئے بھی متکلم کے تنہاہونے کی بات نہیں۔یہاں اس سے بڑھ کر یہ کہا جارہا ہے کہ معشوق کومتکلم کی صورت آشنائی سے بھی انکار ہے۔اب معنی کا اگلا قدم یہ ہے کہ صورت آشنائی سے انکار کرنے والی یہ ہستی معشوق بھی ہو سکتا ہے یایہ کوئی بھی ایسی ہستی ہو سکتی ہے جس سے کسی بھی قسم کی توقع ہو۔اس طرح ،صورت آشنائی سے انکاری ہونے کا یہ کنایہ سیاسی بھی ہو سکتا ہے، فلسفیانہ بھی ہو سکتا ہے، یا زندگی کے کسی بھی شعبے پر اس کا اطلاق ہو سکتا ہے۔ ایک صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ معشوق کہہ رہا ہو، ہم نے تمھیںزندگی بھر یہاں پڑے ہوئے دیکھا تو ہے، لیکن اصلاً تم کیا ہو اور کون ہو، یہ ہمیں ابھی تک نہ معلوم ہو سکا۔

                 بھی ممکن ہے کہ صورت آشنا ئی ہونے سے انکار کرنے والی ہستی در حقیقت موجود ہی نہ ہو، یا موجود ہو لیکن متکلم نے اس سے کچھ کہنے کی ہمت نہ کی ہو، جیسا کہ جمیل الرحمٰن کے اس شعر میں ہے

                                دل کی پکار گنبد بے در میں رہ گئی

                                فریاد گونج بن کے مرے سر میں رہ گئی

اپنے وجود کے لئے ”گنبد بے در“ کا استعاراتی پیکرکس قدر مناسب ہے، یہ کہنے کی ضرورت نہیں۔”سر“ اور ”گنبد بے در“ کی مناسبت بھی خوب ہے۔

                ”سخن“ اور ”فریاد“ کے مضمون کو جمیل الرحمٰن نے کئی بار کھنگالا ہے، اور ہر بار نئے پہلو سے۔ میں اسے ان کے تجربہ حیات کے مرکزی شنا خت ناموں میں قرار دوں تو غلط نہ ہوگا

                                کرتا ہے ابروباد سے کیا کیا سخن عجب

                                اک سنگ آستاں ترے در پر پڑا ہوا

                                                ٭

                                نماز عشق ادا کی اگرچہ مہر بلب

                                جمیل سجدے میں باتےں ہزار کر آئے

                                                ٭

                                اب تک اسی کی گونج میں لپٹا ہوا ہوں میں

                                اک عمر ہو گئی ہے کسی کو صدا دیئے

گونج میں لپٹا ہوا رہ جانے کا پیکر بدیع بھی ہے اور معنی خیز بھی، کیونکہ گونج غیر مرئی ہونے کے باوجود طاقتور ہوتی ہے اور کسی چیز میں لپٹا ہوا شخص نقل و حرکت کی آزادی کھو دیتا ہے۔

                                اس گلی میں ایسے روئے حشر برپا کر دیا

                                کم نما ہے وہ تو اپنی بے کلی بھی کم نہیں

                یہ شعر میر کی سی خود نگری اور خود شناسی رکھتا ہے۔ اس شعر پر میر کچھ ا س لئے بھی یاد آتے ہیں کہ ”کم نما“کی ترکیب میر ہی کی ہے (دیوان سوم)

                                وہ کم نماو دل ہے شائق کمال اس کا

                                جو کوئی اس کو چاہے ظاہر ہے حال اس کا

میر کے شعر میں عشق کی نارسائی کو ہنس کر قبول کرنے، بلکہ اسے سہل بنانے کی ادا ہے (معشوق کم نما ہے لیکن اس کے چاہنے والے کا حال ظاہر ہے)، جمیل الرحمٰن کے شعر میں معشوق(یا دنیا)پر بازی لے جانے کی ادا ہے۔ذیل کے شعروں میں متکلم نے اپنی فریاد (یا صدا، یا سخن) کی نارسائی کے تجربے کو ڈرامے اور افسانے ، بلکہ ایک مسلسل گذرتی ہوئی فلم کے رنگ میں پیش کیا ہے

                                تو پھرتا ہے اک مستی میں آہوے دشت کے ساتھ کہیں

                                اور ترے مسافر دن بھر تجھے پکار کے سو جاتے ہیں

                                میں ساحل پر اتر کے ان کو دیتا ہوں آواز جمیل

                                لوگ جلا کر دئیے گھروں میں دریا پار کے سوجاتے ہیں

                ان دونوں شعروں میں تجربہ اور استعارہ دونوں نئے ہیں۔ ایسے ہی شعروں کی بدولت جمیل الرحمٰن دعویٰ کر سکتے ہیں کہ ہم لوگ سنہ ۱۹۶۰ کی دہائی والوں کے وارث بھی ہیں اور ان کی توسیع بھی ہیں۔

                نارسائی اور تلاش کے کئی استعارے جمیل الرحمٰن کی غزل میں ملتے ہیں۔ اور بعض شعروں میں خودیہ نارسائی ایک کائناتی حقیقت کا استعارہ بن جاتی ہے

                                ہم جمیل آسمان کے ڈر سے

                                اب زمیں کے بھی ہو نہیں سکتے

                                                ٭

                مکمل کر سکے جو سب کی دنیا

                وہ کیا ہے اور وہ آئے گا کہاں سے

                وہیں سے داستاں الجھی ہوئی ہے

                رہا ہوتی ہے شہزادی جہاں سے

دوسرے شعر میں وہی کائناتی حقیقت ہے کہ شہزادی (شاید The Sleeping Beauty)کو قید اور نیند سے آزاد کرانے والے پھر نارسائی یا تلاش کی کسی نئی بھول بھلیاں میں پھنس جاتے ہیں۔کہیں کہیں یہ بھی ہوتا ہے کہ شہزادی کو خطرات سے چھپائے رہنے کی کوشش میں ناکامی کا خدشہ روح فرسا ہونے لگتا ہے

                کہاں چھپائیں یہ جنگل پہاڑ دریا ہم

                زمیں ہے نرغہ دشمن میں اور تنہا ہم

اس شعر میں زمین اور زمین کی چیزیں دولت حسن کا استعارہ بھی ہیں، دولت عشق کا بھی، اور سیدھے سادے لفظوں میں ماحول کی آلودگی کے خلاف احتجاج کا وسیلہ بھی۔اور کبھی کبھی یوں بھی ہوسکتا ہے کہ منزل سے زیادہ وہ لوگ اہم ہوجاتے ہیں جو منزل کی تلاش میں کھو گئے

                                اب راحت منزل بھی درماں نہیں کلفت کا

                                کھوئے ہوئے مل جائیں تو رنج سفر جائے

لیکن یہ کھوئے ہوئے رہرو مل نہیں سکتے۔ اس کے لئے انتظار حسین کے افسانے بھی دلیل ہیں اور ظہوری اور نظیری کے یہ شعر بھی

                                استخواں ہاے سالکاں نگذاشت            

                                رہرواں را بہ راہبر محتاج

اب نظیری کو سنئے

                                ز استخوان شہیداں اگر نمی خیزد دود

                                دلیل راہرواں کس دریں بیاباں نیست

ظاہر ہے کہ ظہوری اور نظیری جیسا سرد، کائناتی ڈرامے سے بھر پور لہجہ اور مسافروں کے خشک یا جلتے ہوئے استخوانوں جیسا پیکر جمیل الرحمٰن کے یہاں نہیں، ٹی۔ایس۔الیٹ کے یہاں مل سکتا ہے:

    I think we are in rats’ alley

Where dead men lost their bones.

       (The Waste Land: A Game of Chess)

لیکن جس طرح غالب نے تفتہ کو مبارک باد دی تھی کہ تمھیں ایک مصرعے میں شوکت بخاری سے توارد ہوا اور یہ بات تمھارے لئے باعث فخر ہے کہ جہاں شوکت بخاری پہنچا وہاں تم پہنچے، اسی طرح ہم جمیل الرحمٰن سے بھی کہہ سکتے ہیں کہ ان کے پیشروﺅں میں ظہوری اور نظیری بھی ہیں اور ٹی۔ایس۔الیٹ بھی۔جمیل الرحمٰن ان سے بہت پیچھے ہیں لیکن راہ تینوں کی ایک ہے۔

                نارسائی کی ایک اور کیفیت جس میں سخن کی نارسائی بھی شامل ہے، حسب ذیل شعر میں دیکھئے

                                وہ آرزو ہی کبھی دل پہ منکشف نہ ہوئی

                                کہیں کا رکھا نہیں جس نے رنج و راحت میں

پھر اس کے ساتھ یہ دوشعر بھی رکھئے اوردیکھئے کہ ایک استعارہ کتنی دور تک جا سکتا ہے

                                عمر بھر رکھا مسافت میں تحیر نے ہمیں

                                اور عدم کی سمت بھی شوق نظارہ لے گیا

                                اپنی تنہائی سمیٹی پھر سواد شہر سے

                                رات ہوتے ہی اسے میں گھر دوبارہ لے گیا

                جانوروں اور رنگوں پر مبنی پیکروں سے شغف جمیل الرحمٰن کی غزل کو ایک اور طرح کی تازگی بخش دیتا ہے

                                ایڑی پہ سانپ کیسے ڈسے اس کی چال دیکھ

                                پاپوش میں ہے جس کی زمرد جڑا ہوا

                                                ٭

                                سفید پھول ہرے پتے قرمزی شاخیں

                                دھنک میں دھو کے شجر کو نہال کس نے کیا

                                                ٭

                                کبھی یاقوت و مرجاں سے بدل لینا زمرد کو

                                کبھی سلک گہر با دیدہ تر دیکھتے رہنا

                                                ٭

                                برف کی چھت موم کے در کانچ کی دیوار ہے

                                پھر بھی ایندھن بھر لیا ہے گھر کے آتش دان میں                           

                                                ٭

                                جہاں سے لائی تھی اک فاختہ زیتون کی ٹہنی

                                وہ جنگل تو کبھی کا راکھ ہو کر کھو گیا پیارے

                                                ٭

                کھول کے وہ اک دکھ کے در سناٹے میں جگنو تتلی مور کی چیخیں سنتا ہے

                                       ٭

                                جس عمر میں چرا کے ہوا خواب لے گئی

                                پھیلا رہی تھیں تتلیاں آنچل گلاب پر

                جمیل الرحمٰن کی غزل میں دو تقریباً متضاد مضامین، یا زندگی کے دو متضاد تجربے یکساں جاری وساری نظر آتے ہیں۔ ایک طرف تو محبت کی تلاش ہے اور محبت کے نہ ہونے پر تاسف اور تعجب ہے، اور دوسری طرف محبت کے رائیگاں ہونے، یعنی محبت کے ذریعہ کچھ کر نہ بننے کا رنج۔یہ بھی جدید شاعر کے المیے کا ایک پہلو ہے کہ وہ جس چیز کو مداوا سمجھتا ہے وہ خودایک نیا مرض لے کے آتی ہے

                                کس کس کی رگ جاں میں سرایت نہیں کرتے

                                یہ غم تو کسی سے بھی رعایت نہیں کرتے

                                کرتے ہیں وہ کس طرح حساب غم ہستی

                                کیا کرتے ہیںجولوگ محبت نہیں کرتے

                                ہم دائرہ پیماﺅں کی تقدیر ہے چلنا

                                ہم خیمے لگا کر بھی اقامت نہیں کرتے

                                                ٭

                                کھرے عاشق ہیں لیکن عشق کھوٹا

                                جنوں اپنا تماشا ہے انا کا

                                                ٭

                                پھر جینے میں وہ ڈھنگ کسی طور نہ آیا

                                صد حیف کسی سمت بھی لاہور نہ آیا

                                                ٭

                                مگر اسباب و خواب اپنے پرانے

                                سفر ہر بار کرتا ہوں نیا میں                 اس مجموعے میں اچھے اور تازہ کاری سے بھرے ہوئے اشعار اس کثرت سے ہیں کہ جی چاہتا ہے سارا مضمون اشعار ہی سے بھر دیا جائے۔ لیکن پھر آپ کے پڑھنے کے لئے کیا رہے گا؟ لہٰذا یہیں پر سخن تمام کرتا ہوں۔

٭٭٭