تکریم از پروفیسر رضاء اللہ حیدر

یہ تحریر 125 مرتبہ دیکھی گئی

مبصر :ڈاکٹر حسن رضا اقبالی

جناب رضاء اللہ حیدر نہ صرف اصناف سخن کی نازک ترین صنف غزل کے دامن رنگ و خوش صدا گرہ گیر اور زلف غزل کے اسیر ہیں بلکہ حمد اور نعت میں نہایت ذوق و شوق سے اپنے گہرے جذبات اور نازک احساسات کا اظہار کرتے ہیں۔ ان کی یہ کیفیت ان کے کلام میں محاسن کی خوشبوؤں اور مناقب کے رنگ آمیزیوں کا سامان بہم پہنچاتی ہے۔


حمدیہ اور نعتیہ کلام ہر شعر قابل احترام و تو قیر ہوتا ہے جبکہ اس کا علاقہ صرف فکر و سوچ کی گہرائی تک محدود نہیں ہوتا، بلکہ وہ خود شوق ، سوز و گداز اور عشق حقیقی کا حامل ہوتا ہے ۔ یہ وہ سر چشمہ فیض ہے کہ جس کے قلب میں جاری ہوا وہ بصیرو بینا ہو گیا۔
رضاصاحب ،صاحب عرفان ہیں اور کما حقہ وہ ان نعمتوں سے مالا مال ہیں۔ بلاشبہ وہ حمد اور نعت کے آداب اور تقاضوں سے باخبر ہیں جن کی اساس و بنیاد ارادت و عقیدت سے وابستہ ہے اس لیے وہ بھر پور عقیدت سے عمر رائیگاں میں نقوش بقا کا سامان مہیا کر رہے ہیں۔ ان کے ہاں والہانہ شیفتگی ، تغزل فنی رسائی کا استحسان لازم ہے ۔ نعت نگاری کا حسن بیان سیرت اور اظہار گیری
عقیدت کی وابستگی پر ہے اور رمز عشق جو طر بقت و معرفت کا منبع حقیقی ہے اس سے بھی رضا صاحب غافل نہیں ہیں۔ جب کہ ان کا ہر شعر بوئے وفا اور نالہ شوق سے لبریز ہے۔ ان کی غزل کے حسن کا تقاضا یہ ہے کہ ان کے شعر میں معانی اپنے ابلاغ کے ساتھ ساتھ مقصدیت سے بھر پور نظر آتے ہیں۔
تکریم رضا صاحب کی قابل احترام نعتوں کا حسین مجموعہ ہے ظاہری کیفیت کے حوالے سے نعتیہ مجموعہ کہنا ہو گا مگر باطنی کیفیت سے مترشح ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں انھوں نے نہایت ادب و احترام کے حامل سچے جذبوں اور والہانہ عقیدتوں کا اظہار گہر آبدار سے زیادہ حسین و منزہ الفاظ سے کیا ہے ۔ ان مقدس حرفوں اورگہر بار لفظوں کی حرمت شعور و وجدان کی لطافتوں اور شگفتہ پن سے قائم و دائم ہے ۔
تکریم میں شامل نعتوں کافنی اعتبار سے جائزہ لیا جائے تو قدیم اور جدید اسلوب کی دلکش اور دلکشا آمیزش لطف مطالعہ کو دوبالا کردیتی ہے۔
ان کی نعت جمالیاتی حسن واظہار کا اعلا نمونہ ہے جب کہ متغزلانہ لہجہ اس میں مزید نکھار پیدا کر دیتا ہے ۔ اس سے مترشح ہے کہ رضا صاحب کے قلب و ذہن بلکہ رگ رگ میں نعت کی عظمت اور اہمیت سرایت کر چکی ہے۔ جس طرح تسبیح و ثنا عبادت ہے میرے عقیدہ کے مطابق نعت و ثنا تسبیح ہے اور یہ عبادت کا مقام رکھتی ہے۔
تکریم کی ہر نعت اور ہر نعت کا شعر عقیدت کا گجرا ہے ۔ ہر لفظ تجلی پاش پیکر لیے جلوہ گر ہے۔ کیوں کہ ہر شاعر کی نعت کا حرف حرف نقطہ نقطہ کی خیرہ کن کرنیں ارض و سما میں نورو سرور کی کیفیات پیدا کر دیتی ہیں ، انسان تو انسان ان کی خوشبو قدسیوں کے مشام جاں کو بھی معطر کردیتی ہوگی ۔تکریم میں شامل نعتیں افکار کے اعتبارسے تنوع کی حامل ہیں اس لیے ان میں فنی اور معنوی محاسن و مناقب کا اظہار بھرپور طور پر ملتا ہے۔ان کے ہاں روایتی انداز کے با وصف جدید رنگ کی آمیزش حسن کلام میں اضافہ کردیتی ہے۔ فنی لحاظ سے مہارت اور چابکدستی کا عنصر بھی غالب ہے ۔جس سے ان کی شعوری توانائیاں اور شعری رعنائیاں نکھر کر سامنے آئی ہیں۔ تکریم میں لطیف احساسات، نجیب جذبوں ، مقدس خیالات، منزہ محسوسات ، گہری عقیدت و عقیدت و ارادت ، عاجزانہ مودت اور سوزو گداز نمایاں ہیں ۔یہ سب کچھ اللہ تعالی کی عطا ہے کہ وہ کسی بھی انسان سے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعریف و ستائش کا کام لے اور جوہر استعداد و قابلیت اور حسن بیان کا ایک ملکہ ودیعت کردے۔ رضا صاحب بھی اس نعمت مترقبہ سے مالامال اور ثروت مند ہے۔ تکریم ایسا سبد گل ہے جس سے ہرمسلمان فیوض وبرکات کی خوشبو حاصل کرنے کےلیے عقیدت واحترام سے اپنے پاس رکھے گا۔
رضا صاحب کے نعتیہ کلام سے مترشح ہے کہ چھوٹی بڑی بحروں اور مشکل زمینوں میں ان کی طبع آزمائی ان کی قادر الکلامی کی دلیل ہے۔ ان کی روانی طبع کا حسن ان کے کلام میں واضح طور پر جھلکتا ہے۔ ہر نعت وجد اور کیف آفریں ہے۔ بلا شبہ زبان و بیان کی لطافت سے قلب منور و خیرہ کرنے کی قوت موجود ہے۔ اکثر نعتوں سے آمد کا نور ظہور ہوتا ہے یہ وصف سچے جذبے کی عکاسی کرتا ہے اس سچے جذبے نے کلام میں صوری و معنوی حسن کو بڑھایا ہے۔ رضا صاحب کی نعتوں میں لفظی و معنوی صنعتوں کی خوبی بد رجہ اتم موجود ہے۔ رمزیت اور ایمایت کمال عمدگی سے در آئی ہے ۔ رعایت لفظی اور تراکیب کا استعمال غور طلب ہے۔ ان کے کلام میں جدت و ندرت کی چاشنی نے کلام میں تازگی اور اثر پذیری میں اضافہ کیا ہے۔ مضمون آفرینی اور انداز بیان کا حسن و جمال اپنی مثال آپ ہے۔ جامعیت کی خصوصیت بھی وافر ہے۔ فکر ونظر کی وارفتگی اپنے جوبن پر ہے ۔ قلبی واردات کے انجذاب و ارتکاز پر رضا صاحب کی توجہ اور سعی جمیلہ فنکارانہ پختگی کی حامل ہے۔ ان کے افکار میں تابانی ہے نور لافانی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے کرم سے جو باعث رنگ بزم امکانی ہے۔ ان کے احساس وادراک کی رسائی نے نعتوں میں نکھار اور شفتگی پیداکر دی ہے۔ جس سے دور رواں کے عصری تقاضوں کو سہارا ملتا ہے یعنی اخلاقی اور روحانی فیوض و برکات کا سبب ہیں ۔ رضا صاحب نے گراں قدر مقصدیت کو اپنی فکری و شعوری بالیدگی سے مجموعہ نعت میں سمیٹ لیا ہے۔ ان کے حسن تخیل کی تب و تاب جذبہ ایمانی کو توانائی اور رعنائی بخشتی ہے۔
ان کے عقیدہ و ارادت کی کیفیت اس نازک و سادہ شعر سے واضح اور مترشح ہے جس کے تسلیم ورضا کے لیے گہری بصیرت اور چشم بینا کی ضرورت ہے جو دلوں کو عطا ہوتی ہے۔
ہوں غلامان نبی کا بردا
یہ مرا پیشہء آبائی ہے
دست رحمت ہے شفا کا منبع
کیسا انداز مسیحائی ہے
جب ان ہحر شب رسیدہ کو وصال سحر کا مژدہ نصیب ہوتا ہے تو بے ساختہ کہ اٹھتے ہیں۔
کنار چشم میں اشکوں نے ڈال لی کٹیا
شب فراق محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے طول ایسے ہیں
نعت میں متنوع موضوعات حسن و جمال سے اشعار کے پیکر میں ڈھل جاتے ہیں اس عقیدہ و واردات اور جذب و عشق کی فراوانی کے با وصف فنی کمال اور قوت بیانیہ کو بھی دخل حاصل ہے کہ ایک مضمون کو نفاست اور عمدگی سے بیان کیا ہے۔ ہوشمندانہ سلیقہ فکر و خیال کی رعنائی اور رہوار فکر کی پرواز کے ساتھ اپچ اور شعوری کیفیت کی ندرت بھی شامل ہو تو اس طرح شعر ظہور پذیر ہوتا ہے۔
عصر حاضر کا قاری او نقاد اس امر کا متقاضی ہے کہ غزل کی طرح نعت میں بھی جدت طرازی کا عنصر در آنا چاہیے۔ رضا صاحب نے نعت کے معاملہ مں روایت کو جس شدت سے اپنایا ہے اس سے ہویدا ہے کہ وہ جدیدیت کی طرف مائل تو ہیں، مگر کم کم، روایت کی جانب ان کا رحجان قابل قدر ہے۔ ان کی یہ روش اور ڈگر ان کے تشخص اور شناخت کا ارفع حوالہ ہے ۔ ان کے روایتی انداز سمیت فنی محاسن پر کڑی نگاہ رکھنے کے اس مثبت عمل سے ان کے کام میں مناقب کا پایا جانا لازمی ہے جس کے کارن ان کا روایتی انداز جاذب نظر ہے کہ دلفریبی و دل کشی کا منظر بن گیا ہے۔ نعت گوئی ان کے تدریسی رحجانات اورسرکار دوعالم ختمی المرتبت صلی اللہ علیہ وسلم کے والہ و شیدا ہونے اور اس والہانہ عقیدت کا کامل ثبوت ہے۔ اس کے باوصف شاعرانہ دردمندی سے معمور قلب مہین جذبوں کی شاعری کرنے کا سلیقہ رکھتا ہے ان کے اسلوب اور منفرد انداز بیان میں وفاداری کا احساس غالب و نمایاں ہے ان کے شعر میں سادگی اور سہل ممتنع، سلاست روانی واضح ہے ۔سچائی کی تابناکی اور صداقت کی رعنائی بھی وافر ملتی ہے جس میں نرم روی اور گداختہ پن پایا جاتا ہے کلام میں تاثیر کی گہرائی گیرائی اور ابلا غ کی انفرادیت نے ان کو اعلا درجہ پر فائز کر دیا ہے ان کا کمال عجز اور نہایت انکسار ان کے لافانی شعور کا پتہ دیتا ہے۔ کلام میں پرشکوہ ترکیبیں لانے کا ہنر بھی کار فرما ہے ان کا اسلوب اور آہنگ بھرا ہوا لہجہ منزہ اور تیور عاجزانہ و سبک ہے۔ ان کے شعر میں نازک ترین عمیق ترین اور لطیف ترین جذبوں اور احساسات کی موجودگی شعر کو زندہ رکھنے اور جلا دینے کی خوبی سے متصف ہے۔
انسانیت کے ہادی رہبر کی
ہے خوب یہ مدح شہ، رضا حیدر کی
تکریم و تعظیم و الفت کے ساتھ
آداب سے لکھی ہے ثنا سرور کی