اقبال صلاح الدین(نبیرۂ اقبال)

یہ تحریر 1059 مرتبہ دیکھی گئی

معجز ِقلم، سحر ِرقم حسن رضا اقبالی
۲۰۱۲ء کی ایک سہانی شام جب ہوا کے جھونکے گلابی جاڑے کی تازگی اور کیفیت سے بس رہے تھے ہم اپنے دوست سمیع اللہ کے ساتھ خالد بن ولید ہاسٹل سے دبستان ِاقبال روانہ ہوئے۔ خزاں کا آغاز تھا، مگر موسم میں وہ جولانی تھی، جو لاہور کا فرحت بخش آسمان بھی کبھی کبھار ہی زمین والوں کو عطا کرتا ہے۔ ساڑھے چار بج چکے تھے، غروب آفتاب میں ابھی کچھ وقت باقی تھا۔ فضا اُجلی اجلی سی اور نکھری نکھری سی تھی، لیکن مغرب کی طرف ابر کی چند قرمزی اور نارنجی دھاریاں اُفق پر ایک لہر یا سا بنا رہی تھیں۔ ہم مال روڈ سے ہوتے ہوئے نہر کے کنارے اس سڑک پر چل رہے تھے جو صدیق سنٹر کی طرف جاتی ہے اور جسے مین بلیو وارڈ گلبرگ کہتے ہیں۔ پھر ہم ہوم اکنامکس کالج کے بائیں جانب مشتاق گرمانی روڈ پر گام زن ہوئے اور تھوڑی سی مسافت پر ہم نے دو کنال کی سفید کوٹھی پر نظر ڈالی، جہاں ’’دبستان اقبال‘‘ کے نام سےموسوم فکرِ اقبال کی ترویج و اشاعت پر مبنی ایک نجی ادارہ تھا، جب ہم اندر داخل ہوئے تو سڑک کے ساتھ صحن کی چھوٹی سی دیوار، اور اس کے پیچھے جامن اور شہتوت کے چار پودے جو ابھی اپنے پورے قدوقامت کو نہیں پہنچے اور کشادہ صحن جس میں دیوار کے ساتھ کیاریوں میں رنگا رنگ پھول کھِلے ہوئے تھے نظر آئے پھر سامنے دیوار پر نظر پڑی تو دبستان اقبال کا مونو گرام پتھر کی سلیٹ پر کندہ تھا، جس کے نیچے ’زبور عجم‘ کی غزل کے ایک شعر کا مصرع ثانی ؏’’جہان را دگرگوں کرد یک مردِ خود آگاہے‘‘ درج تھا،اس کمرے سے متصل میاں اقبال صلاح الدین کا دفتر تھا،جہاں میاں صاحب کرسی پر تشریف فرما تھے۔ مجھے وہ منظر اچھی طرح یاد ہےکہ میں ڈرتا ڈرتا کمرے میں داخل ہوا تھااور خاموشی سےایک طرف بیٹھ گیا۔ان کے پاس کچھ ماہرین اقبال بیٹھے ہوئے تھے۔مجھے اچھی طرح یاد نہیں کہ ان کی گفتگو کا موضوع کیا تھا، تاہم اس گھڑی میاں صاحب کا متبسم چہرہ اور شیریں کلامی ہمیشہ کے لیے میرے دل میں اُتر گئی ،جب میں اُن کے کمرے میں داخل ہوا تو میرا دل احساس سے بُری طرح لرز رہا تھا کہ جس ہستی سے شرفِ ملاقات کے لیے حاضر ہوا ہوں، وہ نواسۂ اقبال ہیں۔اس لیے مجھے اُن کے قریب بیٹھ کر زبان کھولنے کی ہمت نہ ہوئی مگر ان کی باتیں سن کر میرا سارا خوف دور ہوگیا بلکہ تھوڑی دیر بعد مجھے یہ احساس تک نہ رہا ہے کہ میں نواسہ ٔ اقبال کے سامنے بیٹھا ہوں۔اُن کی ذات کی یہ ایسی خوبی ہے ، جو آدمی کا دل موہ لیتی ہے۔ اُن کے سامنے بیٹھ کر آدمی مرعوب نہیں ہوتا اور نہ اسے اپنی بے بضاعتی اور کم مائیگی کا احساس باقی رہتا ہے۔ مختصر یوں سمجھ لیجیے کہ ان کی شخصیت اک ایسے سمندر کی سی ہے جس پر تیر کر آدمی فرحت محسوس کرتا ہے اور اسے اپنے سارے جسم میں ایک ایسی تازگی کااحساس ہوتا ہے جو اسے پہلے کبھی نصیب نہ ہوئی ہو۔بس اس دن سے میرا دل اُن کی مجلس میں رہنے لگا اور میں نے سمجھ لیا کہ مجھے جس اقبال شناس کی تلاش تھی، بالآ خر وہ مجھے مل گیا یے۔
جستجو جس گل کی تڑپاتی تھی اے بُلبل مجھے
خوبئ قسمت سے آخر مل گیا وہ گُل مجھے

یہ وہ لمحات تھے جب میں نے انھیں پہلے پہل دیکھا، اس کے کچھ عرصے بعد جب انھیں قریب سے دیکھنے کے متعدد مواقع میسر آئے تو میں نے محسوس کیا کہ اُن کے جسم میں بجلیوں کی تابانیاں سمٹی ہوئی ہیں۔ چوّن (۵۴)سال کی عمر کو پہنچنے کے باوجود ابھی تک پر عزم و جواں ہمت تھے ۔ اُن سے گویا ہر روز ملاقات ہونے لگی۔عموماًدبستانِ اقبال میں ہفتہ وار لیکچر کے بعد خوب محفل جمتی۔ دیر تک راقم اُن کے پاس بیٹھتا اور اُن کی باتیں سنتا، گفتگو کرتے وقت وہ عام طور پر پنجابی زبان استعمال کرتے۔میاں صاحب کی بذلہ سنجی اور شگفتہ بیانی کبھی کبھی محفل کو گھنٹوں کشت ِزعفران بنائے رکھتی۔
میاں صاحب کی ایک نمایاں خصوصیت اُن کی دردوسوزمندی کی کیفیت ہے جواُن کے ذاتی خصائل میں ایک امتیازی وصف ہے۔جو لوگ ان سے ملتے رہتے ہیں وہ خوب جانتے ہیں کہ اعلیٰ درجے کی ظرافت اور ہنسنے ہنسانے کی عادت کے ساتھ ان میں یہ عجیب وصف ہے کہ سنجیدگی اور متانت بیٹھے بیٹھے ظرافت پر غالب آجاتی ہے اور چہرے پر یکا یک غم آمیز اثرات نظر آتے ہیں۔ آنکھوں میں آنسو بھر آتے ہیں۔جیسے اقبال کی فکر کا کوئی گہرا پہلو دفعتاً اُن کے دل میں آگیا ہو۔ غالب کا یہ شعر اُن کی شخصیت کا عکاس ہے:
حسن فروغ شمع سخن دور ہے اسدؔ
پہلے دل گداختہ پیدا کرے کوئی

میری نگاہِ تخیل کے سامنے تو مصورِ فطرت کا ایک رنگین شاہکار ہے اور میں گویا اس کا ایک دھندلا سا خاکہ پیش کررہا ہوں۔ چاہتا ہوں کہ پہلے میں مختصر طور پر ان کے بزرگوں سے متعلق چند واقعات بیان کروں اور پھر اپنے ذاتی تاثرات جن میں ان کی شخصیت کی ہلکی سی جھلک نظر آجائے۔میاں صاحب کے آباؤ اجداد کا تعلق موضع دمحال ہانجی پورہ تحصیل کو لگام ضلع کشمیر سے ہے۔ٰیہ خاندان اپنی اسلام دوستی ، دین داری، پرہیز گاری، رواداری اور شرافت کی وجہ سے وادی بھر میں مشہور تھاجن کا سلسلۂ ارادت حضرت شیخ نور الدین رشی سے جا ملتا ہے۔ حضرت شیخ رشی ولی کا شمار بر صغیر کے ان عظیم صوفیاے کرام میں ہوتا ہے جنھوں نے کشمیر میں رشد و ہدایت کے چشمے جاری کیے۔ حضرت علامہ کے جداعلیٰ بابا لول حاج بھی رشی تھے جو نورالدین رشی ولی کے خلیفہ چہارم، نصرالدین کے مُرید تھے حضرت علامہ کے بزرگوں کا وطن بھی تحصیل کول گام ضلع کشمیر میں تھا، حکمران طبقہ کے مظالم سے تنگ آکر میاں صاحب کا خاندان ترک وطن کرنے پر مجبور ہوا اور سیالکوٹ میں اس زمانے میں آبساجب حضرت علامہ کے بزرگوں نے ترک وطن کیا،حضرت علامہ کے خاندان سے آپ کے آباؤاجداد کے تعلقات بہت دیرینہ تھے،یہ دونوں خاندان ایک ہی زمانے میں کشمیر سے ہجرت کر کے سیالکوٹ آئے ۔آپ کے جدّ امجد میاں کریم بخش کو لاہور میں حضرت علامہ کو متعارف کرانے کا شرف حاصل ہے۔میاں صاحب کے دادا میاں امیر الدین لاہور کے رئیس اعظم اور پرانے مسلم لیگی تھے۔ ۱۹۴۰ء میں قراردادِ لاہور ان کی موجودگی میں پاس ہوئی اور ۲۳ مارچ کے سالانہ جلسے میں انھوں نے نظامت کے فرائض سرانجام دیے۔جب ۱۹۴۶ء میں مسلم لیگ کا سالانہ جلسہ منعقد کرانے کے لیے یونینسٹ حکومت نے منٹو پارک دینے سے انکار کر دیا تو میاں امیر الدین نے اپنے کھیتوں کی کھڑی فصلوں پر ہل چلوادیا، اور وہاں جلسے کے خود انتظامات کیے۔ ۱۹۴۶ء میں آپ کے دادا مسلمانوں کے پہلے مئیر منتخب ہوئےتو بانی ٔپاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے خود فون کر کے انھیں مبارکباد دی ۔ وہ آل انڈیا کشمیر کانفرنس کے صدر، آل پاکستان مسلم کانفرنس کے سربراہ اور انجمن حمایت اسلام لاہور کے صدر بھی رہے، حقیقت یہ ہے کہ پنجاب اور کشمیر کی سیاسیات میں مسلمانوں کی ترقی و خوشحالی اور اتحادواشتراک کے لیے میاں صاحب کے خاندان کی خدمات کا اعتراف نہ کرنا کوتاہی فکر کی دلیل ہے۔پنجاب میں مسلم لیگ کی نشاۃ ثانیہ کا آغاز ہوا تو انھوں نے شب و روز کام کر کے مسلم لیگ کو ایک فعال و متحرک جماعت بنانے میں اہم کردار ادا کیا اوروہ قائد اعظم محمد علی جناح کے دست و بازو اور مسلم لیگ پنجاب کے سیکرٹری خزانہ بھی تھے۔میاں صاحب کے پردادا شیخ رسول بخش کے جس بیٹے نے پنجاب اور ہندوستان بھر میں اپنا نام پیدا کیا وہ کریم بخش رئیس اعظم ، میونسپل کمشنر لاہور تھےجن کے نام سے ایک خوبصورت مسجد منسوب ہے۔اُن کے ایک بھائی کا نام رحیم بخش تھا جن کے فرزند عبدالصمد نے اپنی جائیداد حضرت شاہ غوث کے مزار اور بادشاہی مسجد کو وقف کر دی۔میاں کریم بخش کا شمار ان دردمند مسلمانوں میں ہوتا ہے جنھوں نے انجمن ِحمایت اسلام کی بنیاد رکھی اور ۱۸۹۶ء میں میاں کریم بخش نے انجمن ِکشمیری مسلمانان پنجاب قائم کی جس میں حضرت علامہ سیکرٹری مقرر ہوئے۔حضرت علامہ کے مراسم اس خاندان سے بہت دیرینہ تھے۔ اس لیے میاں صاحب کے دادا نے اپنی اوائل عمر ی ہی میں علامہ اقبال کو اپنے گھر پر دیکھا۔یہ تعلق خاندانی نجابت کے باعث اس قدر قربت اختیار کر گیا کہ حضرت علامہ کی دختر نیک اختردختر ِ ملت بانو منیرہ اقبال کی شادی 1949ءمیں میاں امیر الدین کے بیٹے میاں صلاح الدین سے ہوئی ۔ دخترِ ملّت کے دو بیٹے اسداور یوسف حویلی بارود خانہ میں متولد ہوئے جبکہ جاوید منزل جہاں سے ۲۱اپریل ۱۹۳۸ء کو شاعر ِمشرق نے دنیائے فانی سے رحلت فرمائی، وہیں بیس سال بعد ۵اپریل ۱۹۵۸ء کودختر شاعر مشرق کے ہاں ان کے تیسرے فرزند نے آنکھ کھولی جن کا نام ان کے نانا کی نسبت سے اقبال رکھا گیا ،جو نجیب الطرفین کشمیری گھرانے کے چشم وچراغ اور شکل و شباہت میں اپنے نانا کے بہت قریب ہیں۔


صانعِ قدرت نے جنھیں صاحب ِکمال کرنا ہوتا ہے انھیں بہت سی صفات دیتا ہے جن میں وہ ابنائے جنس سے صاف الگ نظر آتے ہیں۔ چناں چہ ان کی تیزی ِ ذہن اور بَراقی ِ طبع کا حال تو ان کی گفتگو سے معلوم ہوتا ہی ہے مگر قوتِ حافظہ کے باب میں ایک ماجرا عالمِ شیر خواری کا انھوں نے مجھ سے بیان کیا،جو حالتِ بیداری میں پیش آیا جس کو پڑھ کر آپ تعجب کریں گے، کہتے ہیں “جاوید منزل میں جب میری پیدائش ہوئی تو میرے والد گرامی بتاتے ہیں کہ جب تمھاری پیدائش ہوئی تو میں نے بچشم خود دیکھا کہ حضرت علامہ نے آپ کو اپنے ہاتھوں میں اٹھایا ہوا ہے۔ میں نے اس حالت میں ان کو متبسم پایا ۔اس کے بعد معاً وہ نظروں سے اوجھل ہوگئے”۔دوسراحیرت انگیر واقعہ عالمِ رویا سے متعلق ہے کہ ڈاکٹر جاوید اقبال نے ایک مصاحبے میں بانوئے ملت، دختر ِحکیم الاُمت محترمہ منیرہ بانو سے پوچھا کہ آپ نے کبھی ابا کو اپنے خواب میں دیکھا تو فرمانے لگیں کہ بہت مدت ہوئی کہ میں نے انھیں تب دیکھا جب میرا بیٹا اقبال دس برس کا تھا میں نے دیکھا کہ ایک سبز رنگ کا بہت بڑا گنبد سا ہے جس کے دروازے پر سیاہ فام حبشی کھڑا پہرا دے رہا ہے میں اُسے کہتی ہوں کہ میں نے اپنے باپ سے ملنا ہے اور مجھے معلوم ہے وہ یہاں موجود ہیں، میرے ساتھ میرا دس سالہ بیٹا اقبال بھی ہے، حبشی پہرہ دار ہمیں ساتھ لے کر اندر داخل ہوتا ہےمیں دیکھتی ہوں کہ ابا جی سفید کپڑے پہنے ایک سادہ سی چار پائی پر لیٹے ہیں، بستر بھی سفید رنگ کا ہے، کمرا بہت بڑا اور روشن ہے مگر بغیر کسی سازو سامان کے، میں اقبال سمیت اُن کے قریب پہنچتی ہوں تو ابا جی میرا ہاتھ تھام کر چومتے ہیں، میں بھی جھک کر اُن کا ہاتھ چوم لیتی ہوں اور اقبال کوآگے بڑھاتے ہوئے کہتی ہوں: “ابا جی ! میں اپنے بیٹے اقبال کو ساتھ لائی ہوں”۔ وہ بڑی شفقت سے اقبال کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہیں ۔ پھر اسے اپنے پاس بٹھا لیتے ہیں، میں اُن سے اُوٹ پٹانگ سا سوال پوچھتی ہوں:” ابا جی ! ہم جو دعائیں مانگتے ہیں ، اُن کا اثر ہوتا ہے یا نہیں؟” وہ مسکراتے ہوئے فرماتے ہیں: “بیٹی! عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی”۔ اس کے بعد میری آنکھ کھل جاتی ہے۔ ان مذکورہ واقعات سے میاں صاحب کی شخصیت پر حضرت علامہ کے روحانی تصرف کی نشاندہی ہوتی ہے۔ انھوں نے قوم سے دردمندی، سوزمندی اور والہانہ عشق موروثی طور پر اپنے نانا سے پایا ، سحر خیز اور عبادت گزار ہیں اور راقم کی نظرمیں حضرت علامہ سے محبت و خلوص اور اقبال شناسی کے باب میں اُن کی مثل کوئی دوسرا معلوم نہیں ہوتا۔ ان میں اپنے نانا کی حقیقی روح موجود ہے۔اس لیے یہ بات مبنی بَر حقیقت ہے کہ اس وقت فکرِ اقبال کا کوئی حقیقی وارث ہے تو وہ بلا شبہ میاں صاحب ہی ہیں اور اس حق کو وہ بجا طور پر ثابت کر رہے ہیں۔وہ دن دُور نہیں کہ جب وہ فکر اقبال کو صحیح معنوں میں نوجوانوں میں منتقل کر دیں گے اور اقبال کو تحت اللفظ پڑھنے میں ان کا کوئی ثانی نہیں وہ اس طرح کلام اقبال پڑھتے ہیں جیسے پس پردہ حضرت علامہ خودپڑھ رہے ہوں ۔اقبال کے ساتھ ہمہ وقت اقبال رہتا ہے بعض دفعہ تو گماں گزرتا ہے کہ وہ اقبال کی صورت میں پھر سے دنیا میں آگئے ہوں میں نے کئی بار اس بات کا مشاہدہ کیا ہے ۔


اقبال صلاح الدین لاہور کی پرانی تہذیب اور رسم و روایات کا چلتا پھرتا پیکر ہیں۔ لاہوری تہذیب کی ثقافت اور روایات کا خمیر ان کے رگ و پے میں رچا بسا ہے۔ وہ اپنے اسلاف کی نرمی، نفاست، شائستگی، حسن ِاخلاق ، علم دوستی ، ادب نوازی، رواداری، وضع داری اور دل کشی کی جیتی جاگتی تصویر ہیں۔میاں صاحب ، دخترِ ملّت بانو منیرہ اقبال کے چھوٹے فرزند اور حضرت علامہ کے نواسے ہیں۔ بچپن ہی سے انھیں ایک ایسا ماحول ملا جو ان کی خدا داد قابلیتوں اور صلاحیتوں کے لیے خاص طور پر ساز گار تھا۔ انھوں نے وجاہت ظاہری اور دماغ اور سیرت کی بہت سی خوبیاں اپنے نانا سے وراثت میں پائی ہیں۔ ماحول کے اثر اور جوہر ذات نے ان کی خوبیوں کو چار چاند لگا دیے ہیں۔
میاں صاحب سے مل کر انسان نہ صرف ان کی دماغی قابلیت سے مسحور ہوتا ہے بل کہ ان کی پرکشش شخصیت سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ ان سے ایک ملاقات کا نقش بھی اس قدر گہرا ہوتا ہے کہ اس کو بھلانا ممکن نہیں ہوتا۔اس سراپا باغ و بہار شخصیت کی تصویر کشی کا حق ادا کرنا بہت مشکل ہے۔ جن لوگوں کو ان سے ملاقات اور دوستی اور صحبت کی نعمت میسر نہیں ہوئی انھیں شاید میرے الفاظ میں مبالغے کی جھلک نظر آئے۔ددھیال اور ننھیال کے بہت سے عادات و خصایل ان کی شخصیت سے ظاہرہیں، ان کا ننھیال فقر و درویشی اور ددھیال دولت و امارت کا حسین امتزاج ہے۔یہی دو خوبیاں ہیں جو ان میں بدرجہ اتم موجود ہیں ۔
میاں صاحب کی ظاہری وضع میں درویشی اور بے نیازی کا رنگ پایا جاتا ہے۔ جیسا ان کا ظاہر اجلا ہے ویسے ہی باطن بھی ستھرا ہے، باتیں بڑی مؤثر و دلکش کرتے ہیں، ان کے انداز ِ گفتگو سے شرافتِ نسبی ٹپکتی ہے۔ ان کی کوئی بات قرینے و سلیقے سے خالی نہیں ہوتی۔ میاں صاحب خالص مشرقی خیالات کے باوجود بعض باتوں میں مغرب سے متاثر ہیں اور کبھی کبھار انگریزی لباس بھی پہنتے ہیں۔ مشرقیت و مغربیت کا حسین امتزاج ہیں۔ بظاہر ان کے خیالات با لکل مغربیت کے سانچے میں ڈھلے ہوئے معلوم ہوتے ہیں لیکن بہت سی باتوں میں خالص مشرقی ہیں، نشست و برخاست کے طور طریقے میل جول کے ادب آداب میں مشرقیت کا اثر غالب نظر آتا ہے۔ خاص طور پر جب کسی پرانی صحبت یا اگلے وقتوں کے کسی بزرگ کا ذکر کرتے ہیں تو ان کی مشرقیت بالکل ہی بے نقاب ہو جاتی ہے۔ اس وقت وہ پرانے زمانے کے کوئی داستان گو،یا الف لیلیٰ کا کوئی کردار معلوم ہوتے ہیں۔ بعض ایسے مواقع پر میں نے انھیں آبدیدہ بھی دیکھا ہے۔ عام طور پر لاہوری پنجابی بولتے ہیں اور جوانی سے اب تک ان کا معمول یہی رہا ہے کہ صبح اُٹھ کر نماز پڑھتے پھر ورزش شروع کرتے ہیں، ڈنٹر پیلتے ہیں اس لمحے سارا جسم عرق عرق ہو جاتا ہے تو مگدر ہاتھ سے چھوٹنے لگتا ہے اور پھر سارا دن فکرِ اقبال میں مستغرق رہتے ہیں۔
ان کا آرزوئے شوق کا میل تلاطم خیز اور سبک روہے، جس طرح عہدِ شبا ب میں جذبات کے طوفان اٹھا کرتے تھے۔ ایسے ہی عالم ِشیب میں اب ’’مانند سحرِ رنگ شباب‘‘ کی کیفیت نمایاں ہے۔میانہ قد، سرخ وسفید چہرہ،رنگت گوری چٹی ،ڈاڑھی منڈی ہوئی، نانا کی طرح وجیہہ، خوش شکل اور تنومند ہیں اوروہ اپنے سر کے بال سنوارنے میں صرف یہ کرتے ہیں کہ ان کو کنگھی سے سلجھا کر پیچھے ہٹا دیتے ہیں۔ کم از کم راقم نے ان کے بالوں میں کبھی مانگ نہیں دیکھی۔ابرو بہت گھنے معلوم ہوتے ہیں، جن کے نیچے ان کی آنکھیں گہری بلکہ اندر کو دبی ہوئی معلوم ہوتی ہیں جن سے معصومیت اور حیا ٹپکتی ہے،جب گردش کرتی ہیں تو دانائی کروٹیں لینے لگتی ہے۔ان کی آنکھیں گو بڑی نہیں ہیں مگر گہری اور ذہین ضرور ہیں جن کے اوپر گھنے ابرو کے چھجے جُھکے ہوئے ہیں، پلکیں حیا سے جُھکی ہوئی ہیں، گفتگو کرتے وقت آنکھیں ایسے جَھپکتے ہیں جیسے سمندر میں حباب اُٹھتے ہوں، ان کی مونچھیں ذراچھدری اور خاموش ہیں،مگر خاموشی کے باوجود شاندار معلوم ہوتی ہیں۔تفکر کی حالت میں، ان کے بعض خیالات سے ایسا لگتا ہے جیسے ان کے حافظے کے دُور دراز افق پر، کسی پرندے کی موہوم پرواز کی مانند ،گم ہوتے جارہے ہوں،حسن فطرت کا ہر شاہکار اور جمال مشیتِ ازل کا ہر عکس اُن کے دل و دماغ پر گہرے نقو ش مرتسم کرتا ہے۔ کشادہ پیشانی پر فکر و تدبر کی سلوٹیں اُبھر اُبھر کر اس بات کا پتہ دیتی ہیں کہ جیسے دماغ کے سمندر میں شعورکی روئیں چل رہی ہیں، گویا وہ فکر اقبال کے متحرک پیکر ہیں۔فارسی اور تاریخ کا گہرا مطالعہ ہے جس سے ان کے خیالات کے چمنستان کھل گئے ہیں ۔فکر اقبال کے مطالعے نے پھولوں کے دامن پر شبنم کے موتی ٹانک دیے ہیں ،ملک کے سیاسی مسائل پر گہری نگاہ رکھتے ہیں اور ماہرین اقبالیات کی نفسیات سے بخوبی آگاہ ہیں اور چاہتے ہیں کہ ملک میں فکر اقبال کا ایسا نظام قائم ہوجو اُن کی امنگوں اور تصورات سے پوری طرح ہم آہنگ ہو ۔انھوں نے مشرقِ وسطیٰ کے اکثر ممالک کی سیاحت کی ہے جس نے ان کی نگاہِ بصیرت کو اور وسعت عطا کی ہے۔
میاں صاحب بہت ہی رقیق القلب انسان ہیں ،نام و نمود کی خواہش چھُو کر بھی نہیں گزری، ورنہ شہرت وہ بَد بَلا ہے کہ جہاں آتی ہے وہاں کچھ نہ کچھ شیخی بھی چلی ہی آتی ہے۔ میاں صاحب ہماری قدیم تہذیب کا بے مثال نمونہ ہیں۔ چہرے سے شرافت، ہمدردی اور شفقت ٹپکتی ہے۔ ہر دل کو ان کی طرف کشش ہوتی ہے۔ ان کے پاس بیٹھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ گویا کوئی چیز ہم پر اثر کر رہی ہے۔ میاں صاحب بڑے فیاض اور سیر چشم واقع ہوئے ہیں، غریبوں ،مستحقوں اور مفلوک الحال غربا کی ہمیشہ مددکرتے ہیں۔ اکثر اس طرح دیتے ہیں کہ جس پر قول صادق آتا ہے کہ “داہنے ہاتھ سے یوں دے کہ بائیں ہاتھ کو خبر نہ ہو”۔ نیکی اور ثواب کے کاموں میں ،مساجد کی تعمیر میں بھی انھوں نے بڑی فراخ دلی سے روپیہ صرف کیا ہے۔ وہ کم آمیز و دیر آشنا ہیں۔ جس سے جو تعلق ہوگیا اسے بطریق ِ احسن نبھایا اور دوستوں کے تو وہ عاشق ہیں، میاں صاحب کے آباؤ اجداد سنی العقیدہ تھے، میاں صاحب دراصل ایک کھلے ذہن کے انسان ہیں، انسانیت ان کا مذہب اور مسلک وفاداری ہے۔ رسول اللہ ﷺ سے سچّی محبت کو حاصلِ ایمان گردانتے ہیں اور اہلِ بیتِ اطہار کی مؤدت کوایمان کا جزو سمجھتے ہیں۔کسی بھی عقیدے سے نفرت نہیں رکھتے، جملہ مذاہب کو احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں اور ان کے دل میں یہ خیال جاگزیں ہے کہ ’’بنی آدم اعضائے یک دیگراند‘‘۔
یہ نومبر 2021ء کے آخری ایام تھے جب ہم فکرِ اقبال کے فروغ و اشاعت کے لیے ظفر سندھو کے ہمراہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور گئے، وہاں یونیورسٹی کے مہمان خانے میں ٹھہرے اور رات گیارہ بجے میاں صاحب اور راقم حضرت علامہ کے کلام پرکچھ گفتگو کررہے تھے کہ میاں صاحب کلیات اقبال اُردو میں سے کچھ کلام پڑھنے لگے۔ پھر میں نے بچشم خود دیکھا کہ میاں صاحب کی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک تھی، فضا کی وسعتوں میں کچھ دیکھنے لگیں، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جو کچھ وہ دیکھ رہی ہیں ہمیں نظر نہیں آتا، پھر اس طرح فضا میں نظریں گاڑے اپنی سوزو گداز میں ڈوبی ہوئی آواز میں جواُن کے آنسوؤں کے رُکے ہوئے طوفاں کو اپنے اندر جذب کرنے کی ناکام کوشش کررہی تھی ساقی نامہ کے چند اشعار پڑھنے لگے۔میاں صاحب کے جذب و شدت ِ احساس کی اس وقت یہ کیفیت تھی کہ میری آنکھوں میں بھی نمی آگئی اور میں اپنی ذمہ داری کے احساس سے کانپ اُٹھا۔ میری یہ کیفیت دیکھی توکہنے لگے : “تمھاری فطرت میں ایک ایسا جوہر ہے جو ابھی تربیت کا محتاج ہے، تمھارے جوش کی شراب ابھی ناپختہ ہے اسے ذرا دیر اور خُم میں رہنے دو۔ میرے ساتھ رہو میں تمھیں ان باتوں کو بھلا دینا سکھا دوں گا جو تم نے کتابوں میں پڑھی ہیں، میں مدت سے ایک نوجوان کی تلاش میں ہوں، شاید تمھارا جنون میری فطرت کے رموز سے آگاہ ہوجائے۔” میں نے یہ محبت بھرے الفاظ سنے تو سمجھ گیا کہ میاں صاحب کا دل آج بھی میرے ساتھ اس طرح شفقت سے لبریز ہے جس طرح دس سال پہلے تھا۔
ایک روز چند طلبہ میاں اقبال کے پاس آئے اور انھیں فکرِ اقبال کے حوالے سے منعقدہ سیمینار میں مدعو کرنا چاہتے تھے۔ طلبہ مُصِر تھے کہ وہ اس پروگرام میں تشریف لائیں۔میاں صاحب پروگرام کی نوعیت دیکھ کر ان سے کہنےلگے کہ مجھے ایسے پروگراموں سے سخت چڑ ہےجس میں لوگ اپنی وجاہت کے بھروسے پر مجھ سے علامہ کا کلام سننا چاہتے ہیں وہ میرے سامعین میں سے نہیں، راقم نے کہاکہ میاں صاحب !آپ نواسۂ اقبال ہیں ، طلباء کے دل میں آپ کا بہت عزّت واحترام ہے اور وہ اس غرض سے آپ کی شرکت کو ضروری سمجھتے ہیں۔میری طرف دیکھ کرایک بلند قہقہہ لگایا اور کہنے لگے: ’’ایس قوم نے تاں نبیؐ دے نواسے دی قدر نہیں کیتی تُوں ایتھے علامہ دے نواسے دیاں گلاں کردا پیاں ایں‘‘۔
وہ نوجوانوں سے بے حد محبت کرتے ہیں کیوں کہ وہ ان سے کئی امیدیں وابستہ کیے ہوئے ہیں اور ہمہ وقت اس فکر میں رہتے ہیں کہ ہماری نوجوان نسل ملک کی باگ ڈور سنبھالے، نوجوان ملک و قوم کی خدمت کے لیےکمر بستہ رہیں اور مُلک و ملت کی سر بلندی کے لیے کوشاں رہیں۔ قائد و اقبال کے خواب کی تعبیر بنیں، وہ ہمہ وقت فکر اقبال میں محو رہتے ہیں ۔ میں نے اکثر انھیں فکر مند پایا ہے ،ان کی صبحوں کا اضطراب اور شبوں کا پیچ و تاب اس بات کا غماز ہے کہ وہ نوجوانوں سے بے پناہ محبت کرتے ہیں اور انھیں نوجوانوں میں کچھ رمق نظر آتی ہے کہ وہ پاکستان کی سر بلندی اور وقار کے لیے کوشاں رہیں گے ۔فکر اقبال کی ترویج و اشاعت میں ہمہ وقت مصروف رہتے ہیں ۔آپ نے اپنے ماموں ڈاکٹر جاوید اقبال سے اقبال کو پڑھااور فکر اقبال پر جو نکتۂ نظر اُن کا تھا وہی میاں صاحب کا بھی ہے۔گویا آپ ڈاکٹر جاوید اقبال کی فکر کا تسلسل اور توسیع ہیں۔
راقم سمجھتا ہے کہ حضرت علامہ کی فکر کو صحیح معنوں میں اگر کوئی آج سمجھتا ہے تو وہ میاں صاحب ہی ہیں اس لیے ماہرینِ اقبال کو اُن کی متابعت کرنی چاہیے۔ قدیم لاہور میں میاں امیر الدین اور اُن کے اجداد نے انجمن حمایت اسلام کے ذریعے مسلمانوں کی بیداری کے لیے فکر اقبال کی ترویج کا بیڑا اٹھایا تھا اب دور جدید میں نوجوانوں میں اقبال کی روح پھونکنے کے لیے ان کے پوتے نے دبستان اقبال کا ادارہ قائم کیا ہے،انجمن حمایت اسلام کی صورت میں فکر اقبال کا جو تخم میاں امیر الدین اور ان کے بزرگوں نے بویا تھا وہ دبستان اقبال کی صورت میں اب تناور درخت بن گیا ہے ۔انجمن حمایت اسلام کے جلسوں، مشاعروں نے قوم کی بیداری کا سامان پیدا کیا، ماضی بعید میں افراد ملت نے انجمن حمایت اسلام کے پلیٹ فارم سے اپنے انفرادی و اجتماعی تشخص کے حصول کے لیے مسلمانوں کی سب سے بڑی سیاسی جماعت مسلم لیگ میں داخل ہو کر ایک منظم قوم کی شکل اختیار کی جو بالآخر ایک آزاد اسلامی ریاست’’ پاکستان‘‘ کے قیام کا سبب بنی۔راقم پُرامید ہے کہ مستقبل قریب میں شاید کوئی ایسی جماعت تیار ہو جائے جو پاکستان کے استحکام کے لیے وہی جذبہ ٔ حریت لے کر اُٹھے جو قیامِ پاکستان کے لیے اس وقت کے مسلمانوں میں تھا۔یہ جذبہ اور فکر یقیناًدبستانِ اقبال کی شاخ سے ہی پھوٹے گا۔
آخر میں میاں اقبال صلاح الدین کی بارگاہ محبت میں اپنا ’’نادم سکوت‘‘ پیش کرتا ہوں کہ سکوت بھی ’’تکلم ِ بلیغ‘‘ کی حیثیت رکھتا ہے۔ ’’ایسا سکوت جس پر تقریر بھی فدا ہو‘‘۔ چاہتا ہوں کہ میاں صاحب کی مشفقانہ نوازشوں کو کاغذی پیرہن میں سمیٹ دوں لیکن قلم بے اختیار اُن کی نوازشات کاممدوح بن کر کہہ اٹھتا ہے:
ہر آنچہ خواندہ ای فراموش کردہ ایم
اِلّا حدیثِ دوست کہ تکرار می کنیم