موضوع “آرزو” تفسیر شعر اقبال

یہ تحریر 3330 مرتبہ دیکھی گئی

شعر:

زندگی در جستجو پوشیدہ است

اصل او در آرزو پوشیدہ است

(جستجو ہی زندگی کا راز ہے؛ آرزو کے اندر ہی زندگی کی اصلیت کا راز چھپا ہوا ہے)

(مثنوی اسرار خودی)

تشریح:

زندگی مقصد میں اور مقصد آرزو میں پوشیدہ ہے. یعنی انسان پہلے اپنی زندگی کا مقصد متعین کرے پھر اس مقصد کے حصول کی آرزو پیدا کرے. اگر محض مقصد متعین کرلیں دل میں اس کے حصول کی تڑپ موجود نہ ہو تو مقصد حاصل نہیں ہو سکتا.آرزو حصول مقصد کا ذریعہ ہے. دل کی آرزو حرارت پر منحصر ہے اور آرزو جستجو کی محرک ہے. جستجو کی یہی سرگرمیاں جو ہر شخص کے قوائے فعالیہ کی استعداد پر منحصر ہوتی ہے. انسان کی زندگی کا تعین کرتی ہیں. پس ہر شخص اپنی زندگی کا تعین ایک ہی مدعا کی جستجو سے نہیں کر سکتا. انہی امور کا تعین ,تعین ذات ہے. اور انہی محسوسات کا احساس, احساس نفس ہے. انسان کے سامنے زندگی کا ایک متعین مقصد ہونا چاہیئے .اور پھر اس مقصد کے حصول کی تڑپ. ان کے نزدیک خودی کی زندگی کا دارومدار تخلیق مقاصد  پر ہے .جس قدر مقاصد ہمارے سامنے ہو ں گے .اسی نسبت سے  ہماری خودی زندہ و توانا  اور پائندہ ہو گی. مقصد کے حصول کی تڑپ کا نام ان کی اصلاح میں “آرزو” ہے. خودی کی زندگی کا راز مقاصد اور آرزوؤں  کے اندر ہے. اگر مقصد و مدعا نہ ہو تو انسانی زندگی میں کوئی حرکت پیدا نہ ہو. اور جب حرکت پیدا نہ ہو تو خود زندگی باقی نہ رہے گی. عشق بھی بجائے خود کوئی چیز نہیں, جب تک کوئی آرزو اس کی محرک نہ ہو , عشق کی بقا آرزو کہ بقا سے وابستہ ہے. جب تک آرزو سینے کے اندر زندہ ہے. جس قدر زندگی اور عمل کے لیے آرزو مفید ہے .اس سے کہیں زیادہ مایوسی کفر بھی ہے.نا امیدی اور اوہام سے قوت تخلیق فنا ہو جاتی ہے. پس آرزو کے ساتھ زندگی اور زندگی کے ساتھ آرزوکا ہونا لازمی ہے. جس شخص میں جستجو اور تلاش کا جذبہ نہیں ہے وہ ایک چوپائے سے بھی بدتر ہے.

شعر:

ضمیر لالہ میں روشن چراغ آرزو کردے

چمن کے ذرے ذرے کو شہید جستجو کر دے

(طلوع اسلام )

بانگ درا

تشریح:

اس شعر میں علامہ فرماتے ہیں کہ گل لالہ کے دل میں چراغ آرزو روشن کر دے. اقبال اس اجڑے ہوئے چمن میں مر جھائے ہوئے گل لالہ کے باطن میں وہ چراغ آرزو دوبارہ روشن کر نا  چاہتے ہیں جس چراغ آرزو کو روشن رکھنے کا اسے وارث بنایا گیا تھا. تو گل لالہ سے مراد یہاں مسلمان ہے. ” لالہ” کے لفظ سے  اقبال یہاں مسلمان مراد لیتے ہیں. جس کا باطن جس کی خلوت  اللہ کے تعلق سے جیسے اس کے سوز سے چل رہی ہے. جس کا ظاہر کائنات کو خوبصورت بنا رہا ہے. گل لالہ کے بیچ میں ایک سیاہ دھبا سا ہوتا ہے. وہ آتش سوز عشق الٰہی بخش کا نتیجہ ہے.خلوت میں  اگر اللہ سب کچھ نہیں ہے تو تمھاری جلوت کی تقریر یہ کسی کام کی نہیں ہے. تو اگر مصلی گیلا نہیں ہے تو تم صرف سڑکوں پہ آگ لگاؤں گے. تو کہتے ہیں کہ مسلمان کے دل میں آرزو کے دیے جو دوبارہ روشن کر کے دیکھو. اور  آپ نے دیکھا ہوگا کہ اقبال کی پوری شاعری ہمارے تخیل ہمارے جذبے اور ہمارے احساس کے نظام کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اللہ کی کتاب کے محور پر چلاتی ہے. ان کا کوئی جذبہ منقطع عین القرآن نہیں ہے. مہجور از رسول نہیں ہے. محروم از قرب الٰہی نہیں ہے. تو کہہ کر رہے ہیں کہ پس اس میں وی چراغ آرزوپیدا کر دے. جو اس کی بندگی کو مکمل کرتا رہے اور کائنات کی تزئین تکمیل کرتا رہے. اور آخرت میں اس کے مراتب قرب کو تعمیر کرتا رہے.

چمن کے ذرے ذرے کو شہید جستجو کر دے

چمن سے مراد یہاں کیا ہے؟چمن سے مراد ہے عالم اسلام. گل لالہ اس کا کردار ہے. تو عالم اسلام کے ذرے ذرے کو شہید جستجو بنا دے. آرزو اور جستجو یعنی مسلمان کے دل میں آرزو کا دیار روشن کردے.اور اس کے سینے میں اور اس کے ذہن میں جستجو کی ایک رو دوڑا دے. یعنی مسلم ذہن کو تکمیل کے سامان فراہم کر دے. یہ تیرا کام ہے. اور اقبال نے یہ کام اللہ کی توفیق سے بہت یکسوئی تسلسل اور خوبی کے ساتھ کیا کہ انھوں نے ایمانی ذہن کو درکار تخیل ,تصور معانی حقائق نظریات فراہم کیے. ذہن کی اعلیٰ ترین سطح پر اور قلب کو درکار بہترین احوال بھی فراہم کیے.  تو  چراغ آرزو قلب میں روشن ہے. اور شہید جستجو ہونے کا عمل ذہن میں ہوتا ہے. یعنی اس کو علم اور اخلاق عطا کر دے. اس کو علم اور بندگی میں یگانہ بنا تفسیر شعر اقبال ۔

تری دعا سے قضا تو بدل نہیں سکتی

مگر ہے اس سے یہ ممکن کہ تو بدل جاے

تیری دعا ہے کہ ہو تیری آرزو پوری

مری دعا ہےتری آرزو بدل جاے

(ضرب کلیم)

شرح :1-تیری دعا سے تیری تقدیر میں کوئ تبدیلی آنا ممکن نہیں،  ہاں یہ ممکن ہےکہ تو خود بدل جاے،یعنی تیرے قلب ونظر میں کوئ بڑی تبدیلی آجاے -مطلب یہ کہ صرف دعا سے بات نہیں بنتی، ضروری ہے کہ دعا کےساتھ ساتھ خدا کی رضا پر شاکر رہتے ہوے جہد وعمل سے بھی کام لیا جاے اور دعا بھی کی جاے.

تو علامہ فرماتے ہیں کہ یہ تو بیشک ممکن نہیں ہے کہ تیری دعاؤں سے اللہ تعالی اپنے فیصلوں کو بدل دے.یعنی ہوگا تو وہی جو وہ چاہتا ہے.مثلا حسن ایک شریف آدمی ہے,وہ حفضہ سے نکاح کا طالب ہے,اور اس لیے دعا کرتا ہےکہ اب اگر اس کی یہ آرزو,مشیت ایزدی کے مطابق نہیں ہےتو اس کی یہ دعا قبول نہیں ہوگی.لیکن دعا مواظبت کرنے سے,یہ ضرور ممکن ہے کہ تیرے اندرانقلاب پیدا ہو جائے.وہ یہ کہ تو اپنا رابطہ اللہ سے استوار کرے.اور یوں تیرے اندر اس کے قوانین کی اطاعت کا جذبہ پیدا ہو جا ئے.

اگر ایسا ہو جائے,اور ایسا ہو جانا ممکن ہے,تو یہ حقیقت ضرور تجھ پر منکشف ہو گی کہ اگر ایک طرف اللہ نے کائنات کا انتظام اپنے دست قدرت میں رکھا ہے تو دوسری طرف ہمیں جدوجہد کا حکم بھی دیا ہے.یعنی ہم سے اللہ نے صاف لفظوں میں فرما دیا ہے. (ان اللہ لا یغیر ما بقوم حتی یغیر ما با نفسھم,) یعنی اللہ نے یہ قانون بنا دیا ہے کہ وہ کسی قوم کی حالت میں کوئی تبدیلی نہیں کرتا جب تک وہ قوم پہلے خود اپنے ضمیر کی گہرائی میں تبدیلی نہ کرے.

جب ہم اس قانون پر غور کریں گے تو یقینا ہمارے اندر صحیح اسلامی شعور پیدا ہو گا .اور قرآن مجید میں جس قدر قوانین بیان کیے گیے ہیں,ان کا مقصد صحیح شعور پیدا کرنا ہی تو ہے.اور ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ انقلاب کا وقوع شعور پر موقوف ہے.

قرآن حکیم شعور میں انقلاب پیدا کر دیتا ہے.جب کسی فرد یا قوم کے شعور میں انقلاب پیدا ہو جاتا ہے.تو وہ قوم اپنی خودی میں انقلاب پیدا کر سکتی ہے.اور جب کسی قوم کی خودی میں انقلاب پیدا ہو جاتا ہے تو پھر وہ قوم دنیا میں انقلاب پیدا کر دیتی ہے.

شعر

تیری دعا ہے کہ ہو تیری آرزو پوری

مری دعا ہے تیری آرزو بدل جاے

2-پہلا مطلب یہ کہ تو عموما خدا سے دعا مانگتا ہے کہ اے اللہ! میری فلاں فلاں آرزویئں پوری ہو جائیں ،مثلا مجھے دولت عطا کر دے یا حکومت میں کوئ بڑا عہدہ عطا کر دے، یا مجھے شہرت اور دنیاوی جاہ و منزلت عطا کر دے وغیرہم ۔۔۔۔لیکن  علامہ فرماتے ہیں کہ میں تیرے حق میں  یہ دعا کرتا ہوں کہ خدا کرے  تیری یہ آرزوئیں بدل جایئں، اور تو خدا سے یہ دعا مانگا کر ے کہ  اے اللہ !مجھے دین کی خدمت کی توفیق عطا فرما، قرآن و حدیث کی اشاعت کی توفیق عطا فرما عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور سوز اہل بیت (رض )کا جذبہ عطا فرما

دوسرا مطلب یہ ہے کہ میری دعا یہ ہے کہ تواس طرح اللہ اور اس کے محبوب صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی محبت میں فنا پا کر بقا پا جاے کہ اپنی تمام آرزوؤں کو اس کی مرضی کے تا بع کر دے، یعنی آرزو باقی نہ رہے، صرف یہ آرزو رہ جاے کہ اے اللہ میں صرف تیری اور تیرے محبوب صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی رضا کا طالب ہوں اور جو کچھ تو میرے لیے پسند کرے، اسی کو اپنے لیے پسند کرتا ہوں، یہ وہ مقام ہے جس سے بلند تر اور کوئ مقام نہیں ہے، اسی کو مقام تسلیم و رضا کہتے ہیں، یہ وہ مقام ہے جہاں پہنچ کر بندہ ء مومن مشیت ایزدی سے کامل ہم آہنگی پیدا کر لیتا ہے علامہ نے اس مقام کو اپنے کلام میں کئ جگہ بڑی وضاحت سے بیان کیا ہے

ارشاد ہوتا ہے

چوں فنا اندر رضا ے حق شود

بندہ مومن قضاے حق شود

طالب مولیٰ اقبالی