علامہ محمد اقبال کی مثنوی سپاس جناب امیر علیہ السلام : تعارف و ترجمہ

یہ تحریر 3183 مرتبہ دیکھی گئی

لاہور کے زمانہ طالب علمی (۱۸۹۲ء) کے دور کے کلام اور بعض واقعات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اقبال اہل بیت رضوان اللہ علیہم اجمعین سے کافی عقیدت رکھتے تھے کیونکہ اقبال اپنے مخصوص خاندانی پس منظر اور مزید شمس العلماء مولوی سید میرحسن کی بدولت شروع ہی سے ذات رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، اہل بیت عظام اور اولیاء اللہ سے عقیدت ومحبت رکھتے تھے اوراس رجحان کی مزید تقویت اور فروغ کے لیے اپنے دوست میر نیرنگ کے ساتھ لاہور میں ان مجالس عزا میں ضرور شریک ہوتے ہوں گے جو قزلباش خاندان کے ممتاز رؤساء نواب فتح علی خاں اور نواب محمد علی خاں کے زیر اہتمام چوک متی میں منعقد ہوا کرتی تھیں۔ غالبا ان محفلوں سے بہت متاثر ہوئے۔ زمانہ طالب علمی میں ان مجالس سے وابستگی ان کی ذہنی پرداخت پر خاصی حد تک اثر انداز ہوئی ہو گی یہی وجہ ہے کہ نعتیہ مضامین ادا کرنے کے ساتھ ساتھ اہل بیت عظام سے وابستگی کا اظہار واضح طور پر ان کے یہاں دکھائی دیتا ہے۔ بقول ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی: ” اس دور میں متصوفانہ عقائد و روایات کے مطابق اقبال کا یہ بھی ایمان ہے کہ حضورﷺ کے دبستان عشق و معرفت سے جو سب سے زیادہ فیض یاب ہوا وہ حضرت علی کرم اللہ وجہ کی ذات اقدس ہے ۔ چنانچہ اس دور میں عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حب اہل بیت عظام اور خصوصا علی کرم اللہ وجہ کا مضمون بہ تکرار بیان ہوا ہے جسے ان کی ابتدائی غزلوں، نظموں میں دیکھا جاسکتا ہے۔” اس دور میں علامہ نے ۱۸۹۶ء میں ایک فارسی نظم ” سپاس جناب امیر ” کہی جو وظیفے کے طور پر معمول کے مطابق صبح کے وقت پڑھا کرتے تھے جس سے ان کی باقاعدہ فارسی شاعری کی ابتدا ہوتی ہے۔ یہ نظم بعد میں “مخزن”(۱۹۰۵ء) میں شائع ہوئی۔ جس پر ” مخزن“ کا ادارتی نوٹ شائع ہوا۔

“ذیل کی نظم درج کر کے آج ہم ان احباب کے تقاضوں سے سبکدوش ہوتے ہیں جو پر وفیسر اقبال صاحب کے فارسی کلام کے لیے اکثر دفعہ اشتیاق ظاہر کیا کرتے ہیں۔ یہی نظم به اعتبار عقیدت شیخ صاحب صبح کے وقت پڑھا کرتے ہیں۔”

اس تمہیدی نوٹ سے معلوم ہوتا ہے اس زمانے میں اہل ذوق مدیر “مخزن ” کو لکھا کرتے تھے کہ اقبال کا فارسی کلام بھی شائع کیجیے۔ احباب کے اصرار کا یہ نتیجہ نکلا کہ اقبال نے مندرجہ ذیل نظم اشاعت کے لیے عنایت فرمائی۔ فارسی نظمیں عموما “مخزن” میں شامل نہیں ہوتی تھیں اس سے ظاہر ہو تا ہے کہ وہ یہ نظم کافی عرصہ پہلے لکھ چکے تھے جسے احباب کے اصرار کے بعد مخزن’ میں اشاعت کے لیے دے دیا۔ نظم روحانی طور پر مجھ پر شعر وارد ہی فارسی میں ہوتا ہے “کے مصداق کشف و واردات کا نتیجہ ہے ۔ جیسے “اسرار خودی“ مولانا روم نے بحالت خواب لکھنے کی ہدایت فرمائی بقول خواجہ حسن نظامی:ڈاکٹر صاحب نے خواب میں دیکھا کہ مولاناروم فرماتے ہیں کہ”اقبال مثنوی لکھو۔۔۔” آنکھ کھولی تو زبان پر شعر تھے ۔ بعینہ اسی طرح جناب امیر علیہ السلام نے بحالت خواب ” سپاس جناب امیر علیہ السلام لکھوائی۔ اس بیان کی کہیں شہادت تو نہیں ملتی لیکن بعض بیانات سے اس امر کی تائید کی تصدیق کی جاسکتی ہے کہ جس طرح “رموز بے خودی” کے شعر “گل ز خاک راه او چیدم به خواب” میں مولانا سید سلیمان ندوی کے اعتراض پر جو ابا علامہ نے فرمایا: ” یہ واقعہ خواب کا ہے جو کچھ خواب میں دیکھا گیا بعینہ نظم کر دیا گیا۔ ” اس طرح یہ نظم بھی انھی روحانی اور فیضانی لمحات کا نتیجہ معلوم ہوتی ہے۔ بقول اقبال: ” جب مجھ پر شعر کہنے کی کیفیت طاری ہوتی ہے تو مجھ پر بنے بنائے اور ڈھلے ڈھلاۓ شعر اترنے لگتے ہیں اور میں انھیں بعینہ نقل کر لیتا ہوں۔ بار با ایسا ہوا کہ میں نے ان اشعار میں کوئی ترمیم کرنا چاہی لیکن میری ترمیم اصل اور ابتدائی نازل شدہ شعر کے مقابلے میں بالکل بیچ نظر آئی اور میں نے شعر کو جوں کا توں برقرار رکھا۔ ” اس طرح علامہ نے بھی اس نظم میں کوئی ترمیم یا اضافہ کیے بغیر اس کا دوسرا حصہ “عشق” کے عنوان سے ” پیام مشرق “(1924) میں شائع کیا۔ ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی بجاطور پر اس نظم کو اقبال کے فنی ارتقا میں سنگ میل سمجھتے ہیں اور واقعی اس نظم میں فکری اور فنی پختگی اس قدر تھی کہ بعد میں اس کو ” پیام مشرق” میں اشاعت کے قابل سمجھا۔

سپاس جناب امیر علیہ السلام

اے محو ثنائےتو زبانہا
اے یوسف کاروان جانہا

اے وہ جس کے لئے (مخلوق خدا کی زبانیں مصروف ثناء ہیں۔ اے کاروان حیات کے یوسف !

اے باب مدینۂ محبت
اے نوح سفینہ ء محبت

اے مدینہ محبت کے دروازے !
اے سفینہ محبت کے نوح !

اے ماحئ نقش باطل من
اے فاتح خیبر دل من

اے میرے دل کے باطل نقشس کو مٹانے والے! اے میرے دل کے خیبر (قلعہ باطل) کے فاتح !

اے سر خط و جوب و امکاں
تفسیر تو سورہ ہائے قرآں

اے وجوب و امکان (خالق ومخلوق) کے خط کی ابتداء ! ( STARTING POINT) قرآن کی ساری صورتیں آپ ہی کی تفسیر ہیں ۔

اے مذہب عشق را نمازے
اے سینہ ء تو امین رازے

اے وہ جو مذہب عشق کے لئے نماز ہے ۔ اے وہ جس کا سینہ راز خداوندی کا امانتدار ہے.

اے سر نبوت محمد
اے وصف تو مدحت محمد

اے نبوت محمدعربی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے راز ! اے وہ جس کی توصیف حقیقت میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کی مدحت ہے۔

گردوں کہ بہ رفعت ایستاداست
از بام بلند تو فتاد است

اے مولا علی علیہ السلام آسمان اپنی ساری بلندیوں کے باوجود آپ کے بام بلند کے سامنے جھکا ہوا ہے ۔

ہر ذرہ ء درگہت چو منصور
در جوش ترانه ء اناالطور

آپ کی درگاہ پاک کا ہر ذرہ خاک اناالحق کہنے والے منصور کی طرح جوش میں انا الطور (میں ہی طور ہوں) کا ترانہ (مستانہ) گاتا ہے۔ ( یاد رہے کہ طور پر تجلی الہی ہوئی تھی)

بے تو نتواں باو رسیدن
بے او نتواں بتو رسیدن

اے مولا علی علیہ السلام ! آپ کو چھوڑ کر اللہ تک کوئی نہیں پہنچ سکتا۔ نہ ہی خدا کے بغیر آپ تک کسی کی رسائی ہوسکتی ہے۔

فردوس ز توچمن در آغوش
از شان تو حیرت آئنہ پوش

اے مولا علی علیہ السلام !جنت آپ ہی کی وجہ سے چمن در آغوش یعنی جنت ہے۔ آپ کی شان کے پرتو سے آئینہ ورطۂ حیرت میں گم ہے ۔

جانم بغلامئ تو خوشتر
سر بر زددہ ام زجیب قنبر

میری جان آپ کی غلامی میں نہایت خوش و خرم ہے میں تو آپ کے غلام بے دام قنبر کا ہم گریباں ہوں.

ہشیارم و مست بادهء تو
چوں سایہ ز پا افتاده ء تو

( ہاں ! ہاں! ) میں ہوش میں ہوں اور آپ کی محبت کے نشہ میں مست ( مدہوش) ہوں سرمستی کے
عالم میں سایہ صفت آپ کے پاؤں تلے ہوں ۔

از ہوش شدم مگر بہ ہوشم
گوئی که نصیرئ خموشم

اے مولائے کائنات ) میں ہوش کھو بیٹھا ہوں ۔ میں اتنے ہوش میں ہوں کہ اگر آپ کہو کہ میں نصیری ہوگیا ہوں تو بھی میں خاموش رہوں گا۔

دانم که ادب به ضبط راز است
در پرده ء خامشی نیاز ا ست

میں جانتا ہوں کہ ضبط راز ہی ادب محبت ہے اور نیاز خاموشی ہی کے پردے میں ہے۔

ام چہ کنم مے تولا
تند است بروں فتد ز مینا

لیکن میں کیا کروں کہ مے تو لائے علی (کرم اللہ وجہ) اتنی تند ہے کہ مینا سے باہر ہو ئی جاتی ہے (چھپائے نہیں چھپتی لبوں پر آ جاتی ہے)

ز اندیشۂ عاقبت رہیدم
جنس غم آل تو خریدم

اب میں اندیشۂ عاقبت سے آزاد ہوں۔ کیونکہ میں نے آپ کی آل اطہار کے غم کو خرید لیا ہے ۔

فکرم چو بہ جستجو قدم زد
در دیر شد و در حرم زد

میری فکر نے جب جستجو کے لیے قدم اٹھائے تو جو قدم دیر میں تھا وہ حرم میں جا پڑا ( اس کی روداد کچھ یوں ہے )

در دشت طلب بسے دویدم
دامن چوں گرد باد چیدم

دشت طلب میں بہت بھاگا دوڑا اپنے دامن کو بگولے کی طرح سمیٹتا رہا

در آبلہ خار ہا خلیدہ
صد لالہ تہ قدم خمیدہ

میرے پائے جستجو کے چھالوں میں کتنے ہی کانٹے کھٹکے۔ اور میرے قدم کے نیچے سیکڑوں گل لالہ اگے۔ ( یعنی پرخار وادی میرے پاؤں کے خون سے رنگین ہوکر خار زار سے لالہ زار بن گئی ہے۔

افتادہ گرہ بروے کارم
شرمنده دامن غبار م

میری حاجتوں میں گرہ پڑی رہی ۔اپنے غبار کے دامن میں شرمسار رہا ۔

پویاں بے خضر سوئے منرل
بر دوش خیال بستہ محمل

منزل کی جانب خضر کی تلاش میں میں (دھن اور لگن سے) دوڑا پھرتارہا۔ دوش پر اپنی خیال کی محمل کو اٹھائے ہوئے۔

جو یائے مے وشکستہ جامے
چون صبح بباد چیدہ دامے

میں جو یائے مے (معرفت) رہا ۔ اپنے جام شکست کے ساتھ صبح بہار کے چنے ہوۓ چرندے کی مانند( گویا فضائے چراگاہ میں چرندے کی طرح پھرتا رہا اور چنا گیا ۔)

پیچیده بخود چو موج دریا
آواره چو گرد باد صحرا

سمندر کی موج کی طرح اپنے ہی آپ میں پیچ و تاب کھاتا رہا ۔ بیاباں کے بگولے کی طرح میں چکر کھاتا رہا ( زور دروں میں گھومتا بھی رہا اور بلندی کی طرف اٹھتا بھی رہا )

وا مانده ز درد نارسیدن
در آبله ء شکستہ دامن

منزل تک نارسائی کے صدمے اور اپنے پاؤں کے چھالوں کے پھٹ جانے سے میں شکستہ حال رہا۔

عشق تو دلم ربود ناگاه
از کار گره کشور ناگاه

اے مولا علی علیہ السلام آپ کے عشق نے یکاک میرے دل پر چھاپہ مارا اور ناگاہ میری عقدہ کشائی فرمائ۔

آگاه ز ہستی و عدم ساخت
بت خانه ء عقل را حرم ساخت

آپ کے عشق نے ہستی و عدم سے آگاہ کر دیا اور میری عقل و فکر کے بت خانہ کو حرم (الہی) بنا دیا۔

چوں برق بخر منم گذر کرد
از لذت سوختن خبر کرد

آپ کا عشق میرے خرمن ہستی پر سے بجلی کی طرح گزرا اور جلنے کی لذت سے مجھے آشنا کر ے گا۔

بر باد متاع هستیم داد
جامے ز مے حقیقیم داد

آپ کا عشق میری متاع ہستی کو مٹا گیا مگر مجھے مے حقیقت کے جام عطا کر گیا ( میں خود کو تو کھو بیٹھا مگر خدا کو پاگیا۔)

سر مست شدم ز پا فتادم
چوں عکس ز خود جدا فتادم

میں اس عشق سے سرمست ہو کر گر پڑا ہوں۔ گویا سایہ کی طرح پیکر سے الگ ہو کر زمین پہ جا پڑا ہوں۔

پیراہن ما و من دریدم
چوں اشک ز چشم خود چکیدم

پیراہن ماو من“ کو میں نے چاک کر ڈالا ہے (یعنی اپنی ہستی اور دوسروں کی ہستی کے امتیاز کو مٹا دیتا ہے۔ )آنسو کی مانند میں خود اپنی آنکھوں سے ٹپک پڑا ہوں ۔

خاکم بفراز عشق بردی
زاں راز که با دلم سپردی

آپ نے جو راز میرے دل کے سپرد کیا اسی نے میری خاک کو عرش کی بلندی تک پہنچا دیا ۔

واصل بکنارکشتیم شد
طوفان جمال زشتیم شد

میری کشتی کنارے لگ گئی اور میری بد صورتی طو فان حسن و جمال بن گئی۔

جز عشق تو حکایت ندارم
پروائے ملامتے ندارم

اے مولا علی علیہ السلام ! آپ کے عشق کی حکایت کے سوا میرے پاس اور ہے بھی کیا ؛ میں اس میں کسی ملامت کی کوئی پرواہ نہیں رکھتا ۔

از جلوه علم بے نیا زم
سوزم ،گریم ، تپم ،گدازم

میں جلوہ علم سے بے نیاز ہوں، میں جل رہا ہوں گریہ کناں ہوں، تب و تاب و اضطراب میں مبتلا ہوں اور گھل رہا ہوں ۔