حکیم مشرق علامہ محمد اقبال کے مزار پر انوار کی اجمالی تفصیل

یہ تحریر 1421 مرتبہ دیکھی گئی

مزار اقبال کا تخیلاتی نظارہ کیجیے
” ایک طرف شاہی مسجد ہے جو ہماری تاریخ میں” اذان سحر ” کی گلفشانیوں کا ایک دل نشین اظہار ہے دوسری طرف شاہی قلعہ ہے جو ہماری عظمت وسطوت کی بہار سامانیوں کا ایک دلآویز مرقع ہے تیسری طرف رنجیت سنگھ کی سمادھ ہے جو تاریخ کی الم ناک کیفیتوں کی دل گداز روداد ہے۔اور چوتھی طرف خود مزار اقبال ہے جو فکر و نظر کی رفعتوں کا ایک دل نواز نشان ہے ۔۔۔۔۔۔
مزار اقبال کی اپنی ایک تاریخ ،اپنی داستان اور اپنی روداد ہے ملاحظہ ہو

1931 ء کا سال علامہ اقبالؒ کی زندگی میں اس اعتبار سے اہم تھا کہ اس سال آپ نے لندن میں منعقدہ دوسری گول میز کانفرنس میں شرکت کی۔ وہاں سے فارغ ہوئے تو اٹلی، مصر اور فلسطین کا دورہ کیا۔ اور اس دوران کئی قد آور سیاسی و علمی شخصیات سے ملاقاتیں کیں، علمی و ادبی انجمنوں سے خطاب کیا اور متعدد تاریخی آثار و مقامات دیکھے۔ ان تاریخی مقامات میں سے ایک اٹلی کا کولوزیئم فورم (colosseum forum) بھی تھا، جہاں غیر رومیوں کو اہل روم کے ذوق نظارہ کی بھینٹ چڑھایا جاتا تھا۔ اقبالؒ جب یہاں پہنچے تو پکار اٹھے:
”ایک طر ف رومائے قدیم کے سلاطین تھے جنھوں نے ایک عظیم الشان عمارت اس لیے بنوائی کہ پچاس ہزار انسان اس میں بیٹھ کر درندوں اور انسانوں کی لڑائیوں کا تماشا دیکھیں۔ دوسری طرف ہمارے لاہور کی شاہی مسجد ہے جو اس غرض سے تعمیر کی گئی تھی کہ وہاں ایک لاکھ بندگان خدا جمع ہو کر مساوات، اخوت اور محبت کے سچے اور مخلصانہ جذبات کا مظاہرہ کریں۔“

شاہی مسجد کو مظہرِ اخوت قرار دینے والے اقبالؒ نے گدازِ دل سے قبولیت کے کسی لمحے میں دعا کی تھی ع ……”مرقدی را سایۂ دیوار بخش“…… (ترجمہ: مجھے دیوار کے زیرسایہ آسودہ خاک ہونا نصیب فرما) جو اسی شاہی مسجد (عالمگیری مسجد) کے حق میں قبول ہوئی۔ اسی مسجد میں آپ نے اپنی شہرۂ آفاق نظم ”حضورِ رسالت مآبؐ میں“ سنائی، جس نے ہزاروں کے مجمع کو بے خود کر دیا تھا۔
علامہ کے دیرینہ خدمت گار علی بخش کا بیان ہے کہ علامہ اقبالؒ نے اپنی جان، جان آفرین کے سپرد کرنے سے قبل سینہ پر ہاتھ رکھ کر فرمایا…… ”یہاں درد ہے۔“ پھر…… ”یااللہ“ …… کہا اور آپ کی روح پرواز کرگئی، آپ کی گردن ڈھلکی اور چہرہ از خود قبلہ رو ہوگیا، اور اسی کے ساتھ ہی فضا اذان سحر سے گونج اٹھی۔

21 اپریل 1938ءکا ریڈیو انڈیا مسلسل اس سانحہ ارتحال کی خبر نشر کر رہا تھا، اخبارات نے خصوصی ضمیمے شائع کیے، لاہور بھر کے اسکولز، کالجز، سرکاری دفاتر، عدالتیں بند کر دی گئیں، لاہور کے در و دیوار حسرت و یاس کی تصویر بنے ہوئے تھے۔ مولانا ظفرعلی خان کے الفاظ میں ؎

گھر گھر میں چرچا ہے کہ اقبال کا مرنا
اسلام کے سر سے ہے قیامت کا گزرنا

اقبال کے انتقال پر احباب کو جو فوری مسئلہ درپیش ہوا، وہ مقام تدفین سے متعلق تھا۔ اس موقع پر اقبال کے دیرینہ رفیق اور ’جاوید اور منیرہ‘ کے مجوزہ سرپرستوں میں سے ایک چوہدری محمد حسین کی نگاۂ انتخاب اولاً شاہی مسجد کے حجروں پر پڑی، تاہم جب انہوں نے دیگر احباب، جن میں سید محسن شاہ، خلیفہ شجاع الدین، نواب سعادت علی خان، میاں نظام الدین، میاں امیر الدین، مولانا غلام مرشد، عبدالمجید سالک اور غلام رسول مہر کے ساتھ اس مقام کا معائنہ کیا تو اسے حسب منشا نہ پایا، جس کے بعد ان حضرات نے مسجد کے صدر دروازے کے دائیں جانب شاہی مسجد و شاہی قلعے کے درمیان واقع حضوری باغ میں تدفین پر اتفاق کیا۔ چوں کہ یہ جگہ محکمہ آثارِ قدیمہ کی زیر نگرانی تھی، اس لیے سرکاری اجازت کے بغیر تدفین ممکن نہیں تھی۔ لہٰذا جگہ کے انتخاب کے بعد اگلا مرحلہ حکومت سے اجازت کا تھا۔
ان دنوں پنجاب میں یونینیسٹ پارٹی کی حکومت تھی جس کے رہنما سرسکندر حیات خان پنجاب کے آئینی سربراہ تھے۔ مسئلہ یہ تھا کہ وہ ان دنوں دورے پر کلکتہ گئے ہوئے تھے۔ میاں امیر الدین نے ان سے ٹیلیگراف کے ذریعے مذکورہ مقام پر تدفین کی اجازت چاہی تو انھوں نے علامہ کو مسجد کے پہلو میں دفن کرنے کی اجازت دینے سے انکار کرتے ہوئے اسلامیہ کالج کے میدان میں تدفین کا مشورہ دیا۔ مسلمان، ہندو وزراء اور بعض سکھ انجمنوں کے سربراہ بھی شاہی مسجد میں اقبال کی تدفین کے مخالف تھے۔ دوسری طرف چند لوگ علامہ کی تدفین آبی گنبد (نیلا گنبد) مسجد کے قریب قطعہ اراضی میں کرنے کے خواہاں تھے۔ بہر کیف چوہدری محمد حسین اور دیگر احباب نے سرسکندر حیات کی جانب سے عدم اجازت پر براۂ راست گورنر پنجاب سرہنری ڈی کریک سے رابطہ کیا، جنھوں نے دلی بات کی اور دوپہر 12 بجے سے پہلے پہلے خصوصی اجازت دلوا دی۔
علامہ اقبال کا جنازہ (غازی علم دین شہیدؒ کے بعد) لاہور کی تاریخ کا دوسرا بڑا جنازہ تھا، جس میں بلا تفریق مذہب و ملت مسلمان، ہندو، سکھ اور عیسائی بڑی تعداد میں شریک تھے۔ آپ کی نمازجنازہ شاہی مسجد میں مولانا غلام مرشد کی امامت میں ادا کی گئی۔ سیالکوٹ سے علامہ کے بڑے بھائی شیخ عطاء اللہ سمیت دیگر اعزہ کی آمد کے ساتھ ہی تدفین کا عمل ہزار ہا لوگوں کی موجودگی میں رات تقریباً پونے دس بجے مکمل ہوا۔
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے

علامہ اقبال کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے مرقد اقبال پر اُن کے شایان شان ایک مقبرہ تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور اس سلسلے میں 1938ء میں ہی جاوید منزل میں ایک اجتماع ہوا اورچوہدری محمد حسین کی زیرسرپرستی ”مزار کمیٹی“ کا قیام عمل میں آیا، جس کے دیگر اراکان میں میاں امیرالدین، خواجہ عبدالرحیم، راجا حسن اختر، شفا الملک حکیم قرشی، شیخ محبوب الہٰی، آغا شورش کاشمیری اور حمید نظامی شامل تھے۔ خواجہ عبدالرحیم کمیٹی کے سیکریٹری مقرر کیے گئے، بعد میں راجہ حسن اختر ”مزارکمیٹی“ کے صدر چنے گئے اور کچھ نئے ممبر بھی شامل کیے گئے۔ چوں کہ کمیٹی نے مزار کی تعمیر کے لیے سرکاری امداد نہ لینے اور صرف محبان اقبال کے مالی تعاون پر اکتفا کافیصلہ کیا تھا، اس لیے اس ضمن میں پیدا ہونے والی مالی تنگی اور بعض قانونی پیچیدگیوں کے سبب تقریباً آٹھ سال تک مزار کی تعمیر شروع نہیں کی جاسکی۔
آخرکار طویل عرصے کے بعد 1946ء کے اواخر میں جبکہ جب میاں امیر الدین لوکل سلف گورنمنٹ میں سیکریٹری ہوئے تو انہوں نے تعمیر مزار کی رکاوٹوں کو دور کر دیا اور درج ذیل شرائط کے ساتھ مزار اقبال کی تعمیر کی اجازت دی گئی:
٭…… مزار، مسجد کی سیڑھیوں سے مناسب فاصلے پر ہو۔
٭…… مزار کی چھت شاہی مسجد کے حجرے کے اوپر کی پہلی کارنس سے اونچی نہ ہو۔
٭…… مزار کا نقشہ شاہی مسجد اور شاہی قلعے سے مناسبت رکھتا ہو۔

مزار کمیٹی نے پہلے ہی سے یہ فیصلہ کر رکھا تھا کہ مزار کی تعمیر کے لیے عوام اور حکومت سے کوئی چندہ یا تعاون نہیں لیا جائے گا، یہی وجہ تھی کہ مزار کمیٹی نے ایک بڑے تاجر کی اس پیش کش کو رد کر دیا جس نے شرط رکھی تھی کہ وہ تمام تر مصارف برداشت کرنے کو تیار ہے لیکن اس کے نام کی تختی بھی مزار کے ساتھ نصب کی جائے۔ مزار کی تعمیر کے اخراجات اقبال کے عقیدت مندوں، دوستوں اور خیرخواہوں نے برداشت کیے۔
”مزار کمیٹی“ کے پیش نظر مزار کا ایک ایسا نقشہ تھا جو اقبال کے فکر و فلسفے کا عکاس ہو، چنانچہ اس غرض کے لیے متعدد ماہرین فن تعمیر سے رابطہ کیا گیا مگر حسبِ منشا کوئی نقشہ سامنے نہ آسکا۔ یہاں تک کہ افغان حکومت نے اٹلی کے ماہرین فن تعمیر سے مقبرے کا نقشہ بنوا کر مزار کمیٹی کے سپرد کیا جسے بوجوہ قبول نہیں کیا گیا کیوں کہ اس میں کیتھولک فن تعمیر شامل تھا اور اقبال کو دونوں ہاتھ سینے پر باندھے دکھایا گیا تھا۔
اس سلسلے میں کمیٹی نے دولت آصفیہ (ریاست حیدرآباد) کے وزیراعظم سر اکبر حیدری کے توسط سے ریاست کے صدر معمار (چیف آرکیٹیکٹ) نواب زین یار جنگ سے رابطہ کیا (اس رابطے کی ایک وجہ شاید یہ بھی تھی کہ قبل ازیں نواب زین یار جنگ اردو و فارسی کے قادر الکلام شاعر میرزا غالب کا مزار بھی ڈیزائن کرچکے تھے)۔ نواب زین یار جنگ نے جو نقشہ تیار کیا، اس میں مینار، دروازہ اور روشن دان وغیرہ سب بہت نازک اور نفیس تھے۔ جب نواب صاحب نے یہ نقشہ سر اکبر حیدری کو دکھایا تو انھوں نے نواب صاحب سے دریافت کیا کہ ”آپ علامہ کے پیغام اور ارشادات سے واقف ہیں یا نہیں؟“ جب نواب صاحب نے جواب نفی میں دیا تو سر اکبر حیدری نے فرمایا کہ ”علامہ کا پیغام طاقت و قوت کا پیغام ہے۔“ نواب زین یار جنگ کا تیار کردہ یہ پہلا نقشہ مزار کمیٹی کو بھی بھیجا گیا۔ تاہم کمیٹی نے بھی اس نقشے کو رد کر دیا۔ اس نقشے پر چوھدری محمد حسین کا تبصرہ تھا کہ ”یہ تو کسی بلبل کا پنجرہ لگتا ہے“۔

اس کے بعد چوھدری محمد حسین نے نواب صاحب کو لاہور مدعو کیا اور انہیں شاہی مسجد لے گئے۔ چوہدری صاحب کے ساتھ، خواجہ عبدالرحیم، راجہ حسن اختر، میاں امیر الدین اور سر سکندر حیات خان بھی تھے۔ شاہی مسجد کی سیڑھیوں پر کھڑے ہو کر چوھدری صاحب نے کہا ”نواب صاحب! مزار کے مغرب میں شاہی مسجد ہے، جس سے اسلام کی روحانی طاقت کی آئینہ داری ہوتی ہے، اس کے مقابل مشرق میں شاہی قلعہ ہے جو دنیاوی عظمت کا مظہر ہے، تیسری سمت رنجیت سنگھ کی مڑی ہے جو اسلام سے بغاوت کی یادگار ہے، چوتھی جانب حکیم الامت کا مزار ہے، جنھیں مجددِ ملت کہا جا سکتا ہے۔ مزار اقبال کا نقشہ کچھ ایسا ہونا چاہیے کہ سنگ وخشت کی خاموش زبانیں حقیقت کی ترجمانی کریں۔ اور ان کی ترتیب و تعمیر سے اس حقیقت کا انکشاف ہو کہ اقبال کا کلام اور اس کا پیام فقر و سلطنت، درویشی اور شاہی کا ایک حسین امتزاج تھا“۔
چوھدری صاحب کی گفتگو کے بعد نواب زین یار جنگ مسجد کی جنوبی سیڑھیوں پر بیٹھ گئے، مذکورہ گفتگو اور مرقدِ اقبال کے محل وقوع کو پیش نظر رکھتے ہوئے پینسل سے ایک سادہ سا خاکہ بنایا اور اسے اپنے ہمراہ لے گئے۔ کچھ عرصے بعد نواب زین یار جنگ نے مزار کے محل وقوع اور محکمانہ پابندیوں کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے جو ڈیزائن پیش کیا، وہ حقیقتاً علامہ اقبال کے فکر و فلسفے اور مزاج کا آئینہ دار تھا۔ گنبد و مینار سے مبرا یہ مزار عالم اسلام میں پائے جانے والے مختلف طرز ہائے تعمیر کی خوبیوں کا مظہر ہونے کے باوجود جداگانہ شان کا حامل تھا، جسے کمیٹی نے پسند اور منظور کر لیا۔

مزار کی تعمیر:
نقشے کی منظوری کے بعد اگلا مرحلہ مزار کی نقشے کے مطابق تعمیر تھا، اس سلسلے میں کمیٹی نے لاہور کی مشہور تعمیراتی فرم ”میسرز چوھدری محمد بخش، فتح محمد، لاہور“ کو ایک لاکھ کا ٹھیکہ دیا۔ فرم کے مالک فتح محمد، علامہ کے دوستوں میں سے تھے، جنہوں نے رقم میں معقول حد تک رعایت کر دی، اور کام شروع کر دیا۔ خان بہادر محمد سلیمان بحیثیت انجینئر رہنمائی کر رہے تھے۔ خان صاحب موصوف سینٹرل انڈین پبلک ورکس ڈیپارٹمنٹ میں چیف انجینئر تھے (بعد ازاں بانیٔ پاکستان قائد اعظمؒ کا شاندار مقبرہ بھی انہیں کی زیرنگرانی تعمیر ہوا)۔ کمیٹی کی درخواست پر خان صاحب نے اپنی خدمات بلامعاوضہ پیش کر دیں۔ میاں بشیر احمد جو ان دنوں اوورسیئر تھے، انھوں نے بھی مزار کمیٹی کے کہنے پر تعمیری کام میں حصہ لیا۔
سنگ سرخ اور سنگ مرمر کی درآمد:
مزار کو مسجد سے ہم آہنگ کرنے کے لیے سنگ سرخ کی ضرورت تھی جس کے لیے چوھدری فتح محمد ٹھیکیدار نے یہ پتھر برولی (باری) ریاست دھولپور (ہندوستان) سے منگوایا۔ مغل عہد میں تعمیر ہونے والی انگنت عمارات کے لیے سنگ سرخ اسی علاقے سے فراہم کیا جاتا رہا ہے۔ دھولپور سے لاہور تک سنگ سرخ بذریعہ ریل گاڑی امرتسر کے راستے لایا گیا تاہم بعد کے دنوں میں تقسیم کے ہنگاموں نے نہ صرف یہ سلسلہ منقطع کر دیا بلکہ اس شورش کے دوران کچھ لدا ہوا پتھر راستے میں رہ گیا جسے سکھوں نے لوٹ لیا۔ لوٹ کا یہی مال بعد میں سکھوں نے امرتسر کے رام باغ میں استعمال کیا۔ ماراماری کا بازار سرد پڑنے اور دونوں جانب انتقال آبادی مکمل ہونے پر تعمیری عمل دوبارہ شروع ہوا اور بقیہ سنگ سرخ ٹرکوں پر لاد کر لاہور لایا گیا۔
مزار اقبال سنگ سرخ اور سنگ مرمر کے امتزاج سے مزین ہے، چنانچہ سنگ سرخ کی طرح سنگ مرمر بھی ”مکرانا“ نزد جھیل سانبھر ریاست دھولپور (ہندوستان) سے منگوایا گیا۔ ”مکرانا“ سفید سنگ مرمر کی کانوں کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہے۔ یہاں کا سنگ مرمر نہ صرف اشوکا نے اپنی راجدھانی کے لیے منگوایا بلکہ عہد مغلیہ کی اعجوبہ روزگار عمارت ”تاج محل“ کی تعمیر میں بھی مکرانا سنگ مرمر ہی استعمال ہوا۔ اس نفیس سنگ مرمر کا کچھ حصہ کھوکھرا پار (سندھ) کی راہ سے منگوایا گیا۔ دہلی، آگرہ اور مکرانا کے کاریگروں نے اس پتھر کو تراشا۔
مزارِ اقبال ایک چھوٹی سی مستطیل عمارت ہے جو سنگ سرخ کے چبوترے پر ایستادہ ہے۔ شاہی مسجد سے مناسبت کے پیش نظر نہ صرف مزار کی بیرونی عمارت میں سنگ سرخ استعمال ہوا ہے بلکہ مسجد کے میناروں کی رعایت سے چبوترے کے چاروں کونے بھی ہشت پہلو بنائے گئے ہیں۔ مزار کے شمالی جانب یعنی مسجد کی سیڑھیوں کی طرف دروازے کے بجائے سنگ مرمر کی جالی لگائی گئی ہے، مغربی دیوار میں کوئی دروازہ نہیں البتہ تین خوشنما روشن دان ہیں۔
تعویذ اور لوح مزار:
ہندوستان میں افغان حکومت کے کونسل جنرل سردار صلاح الدین سلجوقی اقبال اور پیغام اقبال کے شیدائیوں میں سے تھے، چنانچہ ان کی خصوصی تحریک پر افغان حکومت نے مزار اقبال کے لیے سنگ لاجورد سے بنا تعویذ اور لوح تحفۃً ارسال کی۔ واضح رہے کہ کابل میں واقع مغل سلطنت کے بانی ظہیر الدین بابر کا مزار بھی سنگ لاجورد ہی سے آراستہ ہے۔ سنگ لاجورد کا شمار دنیا کے قیمتی پتھروں میں ہوتا ہے جو اس وقت تک صرف افغانستان اور وسط ایشیا میں ہی دستیاب تھا۔
بقول خلیفہ عبدالحکیم اور غلام رسول مہر سنگ لاجورد پر مبنی ان اشیاء کی قیمت اُس وقت تین لاکھ روپے تھی۔ افغان حکومت کے اس ہدیہ میں سنگ لاجورد ہی کی دو مشعلیں بھی تھیں جو قبر کے سرہانے نصب کی جانی تھیں، مگر وہ طویل نقل و حمل کے دوران ٹوٹ گئیں اور یہاں دوبارہ نہیں بن سکیں، یہ جگہ اب تک خالی ہے۔
قبر کا چبوترہ، تعویذ اور لوح مزار مختلف ٹکڑوں کی صورت میں ایک نقشے کے ساتھ افغانستان سے آئے تھے، ان ترشے ترشائے حجری اجزاء کو نقشے کے مطابق بہت خوبصورتی سے جوڑا گیا۔
مزار کا چبوترا خوبصورت اریگنائیٹ (ARAGONITE) کی سلوں کا ہے۔ یہ پتھر بھی افغان حکومت کا تحفہ ہے۔ تعویز چبوترے سے دو فٹ ایک انچ بلند ہے۔ عین بالائی حصہ مستطیل ہے جو بالکل صاف و شفاف ہے۔ تعویذ کا زیریں اور بالائی حاشیہ ماہرانہ منبت کاری سے مزین ہے جبکہ وسطی حصے میں سیاہ حاشیوں کے اندر نیلی پٹیاں افقی سمت میں نمایاں کی گئی ہیں۔
افغانوں کی محبت اس لوح مزار پر بصورت عقیدت ثبت ہے۔ اس لوح کو ایک نظر دیکھنے سے ہی اندازہ ہوتا ہے کہ افغانوں نے اقبال کے پیغام اور مقام دونوں کوکس قدر درست سمجھا ہے۔ چار فٹ بلند سنگ لاجورد کی اس لوح کے اوپری حصے پر منبت کاری کی گئی ہے۔ تعویذ کی جانب خط ثلث میں دو سطروں میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عالیشان درج ہے:

اِنَّ مِنَ الشِّعْرِ لَحِکْمَۃً
وَ اِنَّ مِنَ الْبَیَانِ لَسِحْراً
(بے شک بعض شعروں میں دانائی ہوتی ہے۔ اور بلاشبہ بعض بیان سحر انگیز ہوتے ہیں۔)

اس کے نیچے لوح کی اسی طرف علامہ اقبال کی فارسی رباعی کندہ ہے، جو ان کی فارسی کتاب ”پیام مشرق“ میں شامل ہے۔ یہ رباعی نہایت خوبصورت خط نستعلیق میں کندہ ہے۔

نہ افغانیم و نہ ترک و تتاریم
چمن زادیم و از یک شاخساریم
تمیز رنگ و بو بر ما حرام است
کہ ما پروردۂ یک نو بہاریم

(نہ ہم افغان ہیں، نہ ترک و تتار ہیں، باغ (ہستی) نے ہمیں جنم دیا اور ہم ایک ہی شاخ کے (برگ و بار) ہیں، ہم پر رنگ و بو کی تمیز حرام ہے، کیونکہ ہم ایک ہی نو بہار کے پروردہ ہیں۔)

لوحِ مزار کی دوسری جانب سب سے اوپر کی قرآنی آیات کا درج ذیل حصہ خطِ ثلث میں کندہ ہے:

ھوالغفور الرحیم……(وہ (اللہ) بہت بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔)

اس کے نیچے بزبان فارسی یہ عبارت درج ہے:
”شاعر و فیلسوفِ شرق داکتر محمد اقبالؒ کہ راہ سعی و عمل و روحِ اسلام را بہمکنان روشنساختہ و ازین رو مظہر قبول اعلیٰحضرت محمد نادر شاہ غازی و ملت افغان واقع شدہ ۱۲۹۴ھ تولد وبستہ۱۳۵۷ھ وفات یافت“

(مشرق کے شاعر اور فلسفی ڈاکٹر محمد اقبالؒ جنھوں نے کوشش، عمل اور روح اسلام کا راستہ سب کے لیے روشن کر دیا اور اسی وجہ سے وہ اعلیٰ حضرت محمد نادر شاہ غازی اور افغان قوم کے منظور نظر ہوئے۔ 1294ھ میں پیدا ہوئے اور 1357ھ میں وفات پائی۔)

لوحِ مزار کی عبارتیں افغانستان ہی سے کندہ شدہ آئی تھیں، قیاس ہے کہ یہ خطاطی افغان خوش نویس داؤد الحسینی نے کی تھی۔ لوحِ مزار کی تما م عبارتیں محض کندہ کی ہوئی ہیں جن میں سنگِ موسیٰ یا سکہ وغیرہ نہیں بھرا گیا۔
مزار کی چھت:
اندرون مزار چھت اشاریت کی حامل ہے۔ چھت کے وسط میں اسم ”محمد“ …… (صلی اللہ علیہ وسلم) کندہ ہے۔ چاروں کونوں میں اقبالؒ کا نام ہے اور اقبالؒ کا نام ”محمد“…… (صلی اللہ علیہ وسلم) کے نام سے ایک لہر کے ذریعے جڑا ہوا ہے۔ تمثیلی اشاریت سے یہ اظہار مقصود ہے کہ اقبال نے جس مرکز نور سے اکتساب کیا ہے وہ ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ذات بابرکت ہے۔
مزارکے لیے آیات قرآنی اور دیگراشعار کا انتخاب ایک خصوصی کمیٹی نے کیا جو چوہدری محمد حسین، راجا حسن اختر اور خواجہ عبدالرحیم پر مشتمل تھی۔یہ انتخاب کیا ہے، فکرِ اقبال کا خلاصہ ہے۔
مزار کے لیے منتخب کردہ آیات:
مزار کے اندر چاروں دیواروں پر چھت سے کچھ نیچے قرآن کی منتخب شدہ ایک پوری آیت اور تین آیات کے بعض حصے بڑی نفاست سے کندہ ہیں، جن میں سنگ موسیٰ بھرا ہوا ہے۔ یہ آیات الٰہی ملک کے نامور خطاط اور صاحبِ طرز خوشنویس حافظ محمد یوسف سدیدی (ولادت:1930ء) کے قلم کا کرشمہ ہیں۔
مشرقی دیوار پر سورۂ انبیا ء کی ایک پوری آیت(نمبر105) تزئینی خط ثلث میں لکھی ہوئی ہے: وَلَقَدْ کَتَبْنَا فی الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِالذَّکْرِأَنَّ الْأَرْضَ یَرِثُھَاعِبَادیَ الصَّالِحُونَ۔ َ (اور زبور میں ہم لکھ چکے ہیں کہ زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہوں گے)۔
شمالی دیوار میں اسی بلندی پرخط ثلث تزئینی ہی میں سورۂ ابراہیم کی چوبیسویں آیت کا ٹکڑا درج ہے جو علامہ اقبال کو بہت پسند تھا: کَلِمَۃً طَیِّبَۃً کَشَجَرَۃٍ طَیِبَۃٍ أَصْلُھَاثَابِتٌوَفَرْعُھَا فِی السَّمَاءِ (پاکیزہ بات کی مثال پاکیزہ درخت کی سی ہے جس کی جڑیں مضبوط اور ٹہنیاں آسمان میں ہوتی ہیں)۔
جنوبی دیوارمیں سورہ ابراہیمؑ ہی کی ستائیسویں آیت کا یہ حصہ خط ثلث تزئینی میں درج ہے: یُثَبِّتُ الَّلہُ الَّذِینَ آمَنُوبِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْآخِرَۃِ (ایمان لانے والوں کو اللہ ایک قول ثابت کی بنیاد پردنیا اور آخرت، دونوں میں ثبات عطا کرتا ہے)۔
جہاں تک مغربی دیوار کا تعلق ہے اس پرسورہ توبہ کی چالیسویں آیت کا یہ ٹکڑا خط کوفی تزئینی میں لکھا ہواہے:
کَلِمَۃُ الّٰلہِ ھِیَ الْعُلْیَا[/arabic] …… ترجمہ:اللہ کا بول تو اونچا ہی ہے۔
مزار کے لیے منتخب کردہ اشعار:
بیرون مزار شمالی جانب مرمریں جالی کے اوپر ایک تختی پر ”ارمغان حجاز“ سے ماخوذ درج ذیل فارسی رباعی کندہ ہے جس میں بے عمل مذہبی دعویداروں پر سخت تنقید کی گئی ہے :

بیا تا کار ایں امت بسازیم
قمار زندگی مردانہ بازیم
چناں نالیم اندر مسجد شہر
کہ دل در سینۂ ملا گدازیم

( آؤ اس امت کی کارسازی کریں،زندگی کی بازی جوان مردوں کی طرح کھیلیں۔شہرکی مسجد میں اس طرح سے روئیں کہ مُلا(کم علم پیشوائے دیں)کے سینے میں دل پگھلا کررکھ دیں۔)
اندرون مزار چھت پر حاشیائی حصے میں چاروں طرف علامہ اقبالؒ کی کتاب ”زبور عجم“ سے منتخب کی گئی چھ اشعار پر مشتمل مکمل غزل درج ہے۔ چھت کے مغربی حصے پر پہلے دو شعر، جنوبی حصے پر تیسرا شعر، مشرقی حصے پر چوتھا اور پانچواں جبکہ شمالی حصے پر مقطع کندہ ہے۔

دم مرا صفتِ بادِ فروردیں کردند
گیاہ را ز سرشکم چو یاسمیں کردند
نمود لالۂ صحرا نشیں ز خوننابم
چنانکہ بادۂ لعلے بساتگیں کردند
بلند بال چنانم کہ سپہر بریں
ہزار بار مرا نوریاں کمیں کردند
فروغ آدم خاکی ز تازہ کاری ہاست
مہ و ستارہ کنند آنچہ پیش ازیں کردند
چراغ خویش برا فروختم کہ دست کلیم
دریں زمانہ نہاں زیر آستیں کردند
در آ بسجدہ ویاری زخسرواں مطلب
کہ روز فقر نیاگان ماچنیں کردند

(میری سانس کو بادِ بہاراں کی سی صفت عطا ہوئی ہے اور گھاس کے تنکوں کو میرے اشکوں نے چنبیلی کی سی مہک عطا کی ہے۔
(2) صحرا نشین لالہ کی نمود میرے لہو سے ہوئی ہے اس طور پر کہ جیسے ایک بڑا پیالۂ یاقوت جسے سرخ رنگ کی شراب سے بھر دیا گیا ہو۔
(3)میں اس قدر بلند پرواز ہوں کہ آسمانوں میں فرشتوں نے مجھے ہزار بار زیر دام لانے کی کوشش کی ہے۔
(4) آدم خاکی کا فروغ نئے نئے کاموں سے ہے جب کہ چاند ستارے اپنی پرانی روش پر چل رہے ہیں۔
(5) اس زمانے میں دستِ کلیم آستینوں میں چھپا ہے،اس لیے میں نے اپنا چراغ جلایا ہے۔
(6) رب کے آگے سجدہ ریز ہو اور شاہان وقت سے سروکار نہ رکھو،کہ آزمائش میں ہمارے اسلاف یہی کرتے رہے ہیں۔)

یہ اشعار سنگ موسیٰ سے ہی پچی کیے گئے ہیں۔ مشہور خطاط ابن پروین رقم نے ان اشعار کو اس قدر حسن و زیبائی کے ساتھ رقم کیا کہ 1950ء میں جب رضا شاہ پہلوی شہنشاہ ایران مزار اقبال پر فاتحہ خوانی کے لیے آئے تو ان اشعار کو دیکھ کر بے ساختہ اُن کی زبان سے یہ فقرہ نکل گیا…… ”خوشخطی خوب است“۔

مزار تکمیل کے آخری مراحل میں تھا کہ 13جون1949ء کواسے محکمہ اوقاف کی تحویل میں لے لیا گیا اور اُس سے اگلے سال 1950ء میں (علامہ اقبال کے انتقال کے تقریباً 12 سال بعد) کوئی ساڑھے چار سال کے عرصے میں مزار کی تعمیر مکمل ہوئی۔ اور یوں ایک صبر آزما مرحلے کے بعد ”مزار کمیٹی“ کو سرخ روئی نصیب ہوئی۔
یہ اقبال کے فکر و فلسفے اور اخلاص نیت ہی کا ثمرہ ہے کہ ہر آنے والا دن پیغام اقبال کی معنویت میں اضافہ کر رہا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ دنیا کے مختلف گوشوں سے لوگ اقبال کو خراج تحسین پیش کرنے ان کے مزارپر حاضر ہوتے ہیں،جو اقبال کے اس دعویٰ کا بین ثبوت ہے ؎

زیارت گاۂ اہل عزم و ہمت ہے لحد میری
کہ خاکِ راہ کو میں نے بتایا رازِ الوندی