تعلیم الادب اور مذہبی اقدار

یہ تحریر 691 مرتبہ دیکھی گئی

اسلامی زاویہ ء نگاہ٭

پروفیسر سیّد علی اشرف (۱۹۲۴ء-۱۹۹۸ء) نے اپنی ابتدائی اور ثانوی تعلیم اپنی جائے پیدائش، ڈھاکہ ہی سے حاصل کی۔ بعد ازاں ڈھاکہ یونیورسٹی سے ایم اے انگریزی کرنے کے بعد وہ کیمبرج یونیورسٹی چلے گئے جہاں فٹز ولیم کالج سے انھوں نے آنرز اور پی ایچ۔ ڈی کی ڈگریاں حاصل کیں۔ وہ ۹۴۹۱ء میں ڈھاکہ یونیورسٹی میں لیکچرر اور پھر انگریزی کے ریڈر مقرر کیے گئے ۱۹۵۴ء-۱۹۵۶ء تک وہ راج شاہی یونیورسٹی کے صدر شعبہئ انگریزی رہے۔ ۱۹۵۷ء-۱۹۷۳ء تک وہ کراچی یونیورسٹی کے پروفیسر اور صدر شعبہئ انگریزی رہے۔ ۱۹۷۴ء-۱۹۷۷ء تک وہ کنگ عبدالعزیز یونیورسٹی مکہ مکرمہ میں رہے اور ۱۹۷۷ء- ۱۹۸۴ء تک کنگ عبدالعزیز یونیورسٹی جدّہ کے شعبہئ ادبیات میں بہ حیثیت پروفیسر اپنے فرائض تدریس سے عہدہ برآ ہوتے رہے۔ وہ ۱۹۷۱ء میں ہارورڈ یونیورسٹی اور نیوبرنسوِک یونیورسٹی (New Burnswick University) میں جُز وقتی پروفیسر بھی رہے۔

وہ انگریزی اور بنگالی دونوں زبانوں کے مصنف تھے۔ تعلیم کے موضوع پر ان کے اہم کارنامے یہ ہیں: اسلامک ایجوکیشن کے سلسلے کی چھے کتب کے جنرل ایڈیٹر، جن میں سے “Crisis in Muslim Education” (۱۹۷۸ء) کے وہ شریک مصنف تھے۔

ان کی کتابوں میں “The Concept of an Islamic University” (۱۹۸۴ء) اور New Horizons in Muslim Education (۱۹۸۴ء) بہت اہم ہیں۔ وہ کیمبرج سے نکلنے والے تعلیمی مجلے Muslim Education Quarterly (۱۹۸۳ء) کے بانی مرتب بھی رہے۔ وہ “Religion and Education: Islamic and Christian Approaches” کے شریک مرتب بھی رہے۔ وہ ’اسلام‘ نامی کتاب کے مصنف بھی تھے۔

ان تمام امتیازات کے علاوہ پروفیسر اشرف شاعر بھی تھے اور ادبی نقّاد بھی۔ ان کے اختصاص کے میدان تعلیم کی اسلام کاری (Islamization)، انگریزی زبان و ادب، اسلامی ثقافت اور اسلام اور مغرب کے مابین تعلقات ہیں۔

وہ اپنی شخصیت و کردار اور تحریروں، ہر دو کے اعتبار سے ایک سچے مسلمان تھے۔ وہ تعلیم کی اس شکل کے قائل تھے جو انسان کے خدا پر عقیدے کو مستحکم بناتی ہے اور روزمرہ کے افعال اور ابدی اقدار پر یقین کے سلسلے میں اس کی معاون ثابت ہوتی ہے۔ وہ اس بات کے بھی قائل تھے کہ مذہبی عقائد اور افعال کے فرق کے باوجود بہت سی مشترک اقدار بھی مذاہبِ عالم کے مابین موجود ہیں اور وہ عالم گیر تعلیمی منصوبوں کی ترویج میں معاون ثابت ہو سکتی ہیں۔ یہی سبب ہے کہ پروفیسر اشرف کی تحریریں مختلف مذاہب کے لوگوں کے لیے یکساں اہمیت کی حامل ہیں۔

زیرِ نظر مقالہ مرحوم سراج منیر کے ایما پر اردو میں ترجمہ کیا گیا تھا۔ پہلے یہ ادارہئ ثقافتِ اسلامیہ لاہور کے علمی مجلے المعارف (مارچ اپریل ۱۹۸۴ء) کے خصوصی شمارہ نمبر ۴ میں شایع ہوا اور بعد ازاں کتاب نما دہلی کے ستمبر ۱۹۸۶ء کے شمارے میں نقل ہوا۔

______________

تعلیم الادب اور مذہبی اقدار

اسلامی زاویہ ء نگاہ

ادبی تعلیم اور مذہبی اقدار کے باہمی رشتے کا مناسب جائزہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب ہم تعلیم کی مذہبی بنیاد کی ضرورت، دائرہ کار اور گہرائی کا اندازہ لگا لیں اور مذکورہ بنیاد کے تعلق سے تعلیم کے مقاصد کا تعین کرلیں اور اس کے ساتھ ہی ساتھ ادبی تعلیم کا مطالعہ، اس کی اس فرضیّت، معیار اور گیرائی کو بھی متعین کر سکیں جو مقاصد تعلیم کے حصول میں معاون ہو سکتی ہے۔ اس رشتے اور تعلق کی نوعیت اس صورت میں زیادہ واضح ہو جاتی ہے جب مقاصد تعلیم کے تعلق سے ادب کی نوعیت کو کھنگالا جائے اور ادبی نصابات کے مواد اور تدریسی طریق کار کو جانچا اور پرکھا جائے۔ میں نے اس بحث کے بعض پہلوؤں کے باب میں ابتدائی نوعیت کی تحقیق ۷۷۹۱ء میں کی تھی جس کا حوالہ مناسب موقع پر آئے گا۔(۱)

جہاں تک تعلیم کے اغراض و مقاصد اور اس کی مذہبی بنیاد کا تعلق ہے، اس ضمن میں مسلم تعلیم پر منعقد ہونے والی چار عالمی کانفرنسوں، اسلامک ایجوکیشن سیریز کی کتابوں اور کنگ عبدالعزیز یونیورسٹی کی جانب سے شایع کردہ بعض دوسری کتابوں میں، اسلامی زاویہ ء نگاہ زیر بحث آچکا ہے۔ جہاں تک اسلامی ریاستوں کا تعلق ہے، اب تک انھوں نے ”اعلان مکہ کے ذریعے“ جو ۱۹۸۱ء کی تیسری سربراہی کانفرنس کے موقع پر کیا گیا تھا نظری طور پر تعلیم کی تعریف اور توضیح کی اس معراج اور ان اغراض و مقاصد کو تسلیم کر لیا ہے جو ۱۹۷۷ء میں مکہ مکرمہ میں منعقد مسلم تعلیم پر پہلی عالمی کانفرنس کے موقع پر واضح کیے گئے تھے۔ جب ہم تعلیم کی اس تعریف کے دائرہ کار اور گیرائی کا تجزیہ اور اس کی اصل و بنیاد کا فہم حاصل کرتے ہیں تو ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ اس تعریف کا روئے التفات محض مسلمانوں ہی کی جانب نہیں بلکہ تمام نوع انسانی کی طرف ہے، اگرچہ اقوام کے مختلف گروہوں اور بعض طبقوں کی جانب سے متصورہ لوازمہء اقدار اور تعبیر و تاویل کے باعث اس کی تطبیق و ترویج میں اختلاف ممکن ہے۔

تعریف یہ ہے: تعلیم کا مقصد، انسان کی روح، نفس، شعور، احساسات اور جسمانی حسیات کی تربیت کے ذریعے اس کی شخصیتِ کلیّہ کی متوازن بالیدگی ہے۔ پس تعلیم کو انسان کی بالیدگی اور اس کے تمام پہلوؤں یعنی روحانی، عقلی، احساساتی، جسمانی، سائنسی اور لسانی سطح پر ترقی کے لیے انفرادی اور اجتماعی طور پر کفایت کرنی چاہیے اور ان تمام پہلوؤں کو خیر اور کاملیت کے حصول کی جانب مائل کرنا چاہیے۔(۲) اس بالیدگی کے مقصد کی وضاحت کرتے ہوئے یہ مزید بتاتی ہے کہ ”مسلم تعلیم“ کا منتہائے مقصود انفرادی، گروہی اور آفاقی سطح پر اللہ کی کامل حاکمیت کو تسلیم کرنا ہے۔(۳) ”مسلم تعلیم“ کا ایک واضح مفہوم تو ایک ایسی ملت کی تعلیم ہے جسے عام طور پر ”مسلم“ کہا جاتا ہے۔ لیکن اس ترکیب کا ایک اور مفہوم لفظ ”مسلم“ کی ضمنیات کے حوالے سے بھی ہے جس کا مطلب ہے ایسا شخص جو اپنی رضا کو رضاے الٰہی میں گم کر دے۔ ایسے شخص کے نزدیک تعلیم ایک ایسے عمل کا نام ہے جس کے ذریعے وہ ایک مخلص، پارسا اور دین دار فرد کے طور پر بالیدہ ہو سکے اور ایک ایسا ذریعہ ہے جس کی مدد سے اس کی تمام شاخوں کا علم حاصل کرنے کا گر سیکھا جا سکے اور اسے نوع انسانی کی فلاح و صلاح کے لیے استعمال کیا جا سکے۔ اس کے نزدیک یہ ایک ایسا منہاج ہے جو اس کی باطنی صلاحیتوں کے متوازن ارتقاء کے لیے معاون ہوتا ہے اور یوں وہ علم کو خیر کے لیے استعمال کرتا ہے اور صحت و یقین کی ترقی اور کائنات میں برسر کار سنت الٰہیہ کی تفہیم سے مسرت حاصل کرتا ہے۔ نتیجۃً وہ بتدریج خدا کے قریب ہوتا چلا جاتا ہے اور اگر اس میں اعلاترین باطنی صلاحیت موجود ہو تو بالآخر زمین پر اس کا سچا نمایندہ یعنی ”خلیفتہ اللہ“ بننے کا اعزاز حاصل کر لیتا ہے۔(۴)

مذہب تعلیم کو انسان کا ایک ایسا تصور عطا کرتا ہے جو زمین پر خلیفتہ اللہ ہونے کی حیثیت سے بے شک موزوں ترین اور شریف ترین تصور ہے۔ حضور اکرمؐ اپنے صحابہؓ کو اپنے اندر صفات الٰہیہ پیدا کرنے کی تلقین فرمایا کرتے تھے اور ان صفات سے مراد اسماے الٰہیہ ہیں۔ قرآن میں ارشاد ہے:

قُلِ ادْعُوا اللّٰہَ اَوِ ادْعُو الرَّحْمٰنط اَ یَّا مَا تَدْعُوْا فَ لَ ہُ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰیج

ترجمہ: اے نبیؐ ان سے کہو اللہ کہہ کر پکارو یا رحمن کہہ کر، جس نام سے بھی پکارو۔ اس کے لیے سب اچھے ہی نام ہیں۔(۵)

قرآن مجید کے رو سے پہلے تعلیم یافتہ انسان آدم تھے۔ جنھیں خدا نے تمام اسماء کی تعلیم دی۔ پس اسماء ہر شے کے جوہر کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور جوہر صفات الٰہیہ کا مظہر ہے جو مطلق ہیں۔ چناں چہ قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ انسان بالقوّہ ان صفات کا وارث ہے اور ان کو ترقی دے کر وہ اس دانش سے بہرہ ور ہو جاتا ہے جو اسے خدا کے سچے نمایندے کی حیثیت سے اس کی خدمت بجالانے میں معاون ہوتی ہے۔ خدا کو اس کے ناموں سے پکارنے کا مطلب یہ ہے کہ ”اس اصول مطلق“ کو اپنے پیش نظر رکھ کر انسان ان صفات کو حاصل کر سکے۔ مزید برآں اس کا مطلب ان موانعات کو دور کرنا ہے جو ہنگامی حالات انسانی وجود پر غالب کر دیتے ہیں __ یہ وہ رکاوٹیں ہیں جو اس کی آنکھوں کو اندھا اور کانوں کو بہرا کر ڈالتی ہیں اور اسے تنگ نظر اور خود غرض بنا ڈالتی ہیں۔ خواہ وہ اس کی انفرادی تنگ نظری ہو، خواہ اس کے خاندان، نسل، رنگ یا مسلک کی۔ چناں چہ اسماے الٰہیہ کی پکار اس کی انا کو وسعت سے ہمکنار کرتی ہے۔ اس کو ہمدردی کے قابل بناتی ہے اور اس کے جذبات کے سچے تزکیے میں معاون ہوتی ہے۔ انسان کی ”حادث“ اور موضوعی انا کے مطلق، آفاقی اور معروضی انا کی صورت میں مبدل ہونے کی یہی وہ صورت ہے جو حضور اکرمؐ کے اس ارشاد میں موجود ہے: خدا کا فرمان ہے کہ میرا بندہ اپنے آزاد ارادے سے عبادت کر کے میرے قریب آنے کی مسلسل کوشش کرتا ہے۔ حتیٰ کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں اور جب میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں تو میں اس کے کان بن جاتا ہوں جن سے وہ سنتا ہے اور آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ ضرب لگاتا ہے اور پاؤں بن جاتا ہوں جن سے وہ چلتا ہے۔(۶)

مذہب نہ صرف تعلیم کو اعلا اقدار کا معیار فراہم کرتا ہے بلکہ ان تک دست رس کے ذرائع سے بھی آگاہ کرتا ہے۔ وہ انسان کو اس یقین سے بہرہ ور کرتا ہے جو ایمان کا نتیجہ ہوتا ہے اور یہ ایمان دو سطحوں پر ہوتا ہے۔ یعنی خدا پر ایمان اور اپنی روح کے وجود پر ایمان اور یہ روح وہ روح ہے جو خود خدا نے اپنی روح سے بندے میں پھونکی (وَنَ فَخْتُ فِ یْہِ مِنْ رُّوْحِی) انسان کے اندر کی یہی وہ لامتناہیت اور دوام ہے جو اسے خدا کی لامتناہیت اور ابدیت کی تفہیم میں مدد دیتی ہے۔

یہی بات منہاج اور طریق کے بارے میں کہی جاسکتی ہے۔ مذہب ہمیں اس بات کا درس دیتا ہے کہ محبت ہی وہ منہاج ہے جو عرفان کامل کا ذریعہ ہے۔ محبت کا معنی ہے ایک کا دوسرے میں ضم ہو جانا۔ خواہ ان کے وجود ایک دوسرے سے کتنے ہی الگ ہوں۔ چناں چہ تعلیم محض چند افکار و نظریات یا خارجی حقیقت کے نظری علم کے حصول کا  نام نہیں۔ یہ نام ہے شخصیت کی قلب ماہیت کا۔ باالفاظ دیگر یہ ایک ایسے مسلسل عمل کا آغاز و افتتاح ہے جو زندگی کے بارے میں اس کے رویے کو تبدیل کر دیتا ہے اور اس میں ایک عظیم مقصد کے حصول کی آرزو پیدا کر دیتا ہے۔ آرزو کا مطلب آرزو کی جانے والی شے کا حصول ہے۔ اس کا مطلب وہ پوشیدہ علم بھی ہے جو انسان کے باطن میں دائمی اور لاشعوری طور پر موجود ہے اور جسے مذہب، عقائد، رسوم اور دیگر علائم کے ذریعے بیدار کرتا ہے اور اسلام کے معاملے میں حضور اکرمؐ سے محبت کے ذریعے بھی جو تاریخی طور پر مقصد عظمیٰ کی تجسیم فرماتے ہیں اور انسانی منزل کی علامت ٹھہرتے ہیں۔ ”حق“ تک رسائی کا یہ منہاج مذہب کا تجویز کردہ ہے کیوں کہ الوہی صداقتوں میں انسانی شرکت کا محض یہی ایک ممکن طریقہ ہے۔ جیسا کہ فرتھجوف شوآں (عیسیٰ نورالدین)نے بجا طور پر کہا ہے کہ ”علم کا عقلی منہاج عمومیات سے کسی صورت میں آگے نہیں بڑھتا اور اپنے طور پر کسی ماورائی صداقت تک نہیں پہنچ سکتا__ جب فلسفہ کسی شک کو دور کرنے کے لیے عقل کا سہارا لیتا ہے تو اس کا بدیہی مطلب یہی نکلتا ہے کہ یہ اپنے کام کا آغاز شک سے کر رہا ہے اور اس پر غالب آنے کی کوشش میں ہے جب کہ اس کے برعکس کسی ماوراء الطبیعی اصول کا آغاز کار ہمیشہ خالصتہً فکری طور پر واضح اور یقینی طریق پر ہوتا ہے۔(۷) وہ ”وسیلہ روحانی“ جسے مسلمان ”دل کی آنکھ“ کہتے ہیں انسان کو ثبوتوں اور عمومی اعتقادات کی دنیاوی اقلیم سے یقین کامل کے مذہب تک پہنچا دیتا ہے۔ محبت اس آنکھ کو کھولتی ہے کیوں کہ حضور اکرمؐ کی محبت خود بہ خود علوی صداقتوں اور الوہی سچائیوں اور روز افزوں جذب کے ذریعے انفرادی اور اجتماعی شخصیت کی قلب ماہیت کا باعث بنتا ہے۔“

یہ مشارکت بے حد مسرت کا سبب بنتی ہے کیوں کہ یہ زیادہ تر ذاتی انتخاب کا نتیجہ ہوتی ہے۔ انسان اس باب میں آزاد ہے کہ وہ اس وظیفے کو ترک یا اختیارکرے۔ علم کی داخلی جہت کا حصول ارادے کے اس فیصلے کے بغیر ممکن نہیں، جس کے تحت اس طریق کار کی پرجوش پیروی ضروری ہے جس کی بنیاد پیغمبروں کی روایت نے ہماری سہولت کے لیے رکھی ہے۔ آج افراد کی کثیر تعداد ان اقدار کو اپنے انفرادی اور اجتماعی زندگی میں مکمل طور پر اپنانے سے ڈرتی ہے اور یہ سب ان کے قصورِ فہم کے سبب ہے کیوں کہ انھیں یہ سبق دیا گیا ہے کہ اس طریق کار کا آغاز رسوم سے محبت کے ذریعے نہیں بلکہ شکوک کے ذریعے کرنا ہے اور اس سبق کا سبب ہے معلمین کا عمومیات اور ماورائی حقائق کے درمیان التباس۔ صداقت کے ضمن میں انفرادی ردعمل کی سچائی یا جھوٹ کا اندازہ لگانے کے لیے انفرادی تحقیق و ادراک پر تو بہت زور دیا جاتا ہے لیکن آفاقی اور علوی معیارِ قدر سے مطلق صرفِ نظر کر لیا جاتا ہے۔

یہی وہ موقع ہے جہاں ادبی تعلیم اپنا مثبت رول ادا کر سکتی ہے۔ ادب علم کی ایک شاخ ہے۔ اگرچہ خدا کی ذات عالم کل ہے اور اس اعتبار سے کل علم اسی کا ہے، علم کی ایک قسم وہ ہے جو براہ راست اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی کی جاتی ہے اور جس میں انسانی کاوشوں کو کوئی دخل نہیں۔ یہ علم بالوحی ہے جو انسان تک پیغمبران عظام کے ذریعے پہنچتا ہے اور جو قرآن حکیم کے مطابق اپنی آخری اور مکمل شکل میں حضور اکرم علیہ التحیات والصلوٰۃ کے ذریعے پہنچا۔ علم کی دیگر تمام قسمیں ایسی ہیں جن میں انسان کو ایک متعین مقصد سامنے رکھ کر جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم تعلیم پر منعقدہ پہلی عالمی کانفرنس میں علم کی تمام دوسری شاخوں کو ”اکتسابی“ علم کی ذیل میں رکھا گیا۔ ادب بھی اسی اکتسابی علم کی ایک شاخ ہے۔ (۸)

جاری ہے۔۔۔۔۔


Literary Education and Religious values __ An Islamic Approach ٭