تعریفوں کا تصادم

یہ تحریر 961 مرتبہ دیکھی گئی

(۲)
اپنی زندگی میں سعید کو بڑی پذیرائی ملی۔ وہ کولمبیا یونیورسٹی کے آٹھ پروفیسروں میں سے ایک تھا اور کولمبیا یونیورسٹی میں پروفیسر ہونا بڑے امتیاز کی بات ہے۔ اس کی بیس کتب شایع ہوئیں جن کا دنیا کی اکتیس زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ دو سو سے زیادہ یونیورسٹیوں نے اس کے لیکچر سنے۔ اس کے بی بی سی کے لیے ریتھ لیکچر، کیمبرج یونیورسٹی کے لیے ایمپسن لیکچر، کیلے فورنیا ارون یونیورسٹی میں رینے ویلک یادگاری لیکچر، پرنسٹن یونیورسٹی میں ہنری سٹیفورڈ لٹل لیکچر، کیپ ٹاؤن (جنوبی افریقہ) یونیورسٹی میں ٹی بی ڈیوی اکیڈیمک فریڈم لیکچر، کالج دے فرانس میں متعدد لیکچر اور کئی علمی اداروں میں بہت سے دیگر موضوعات پر لیکچر یاد گار ہیں۔ وہ امریکن اکیڈیمی آف آرٹ اینڈ سائنسز، دی رائل سوسائٹی آف لٹریچر کا رکن اور کنگز کالج کیمبرج کا اعزازی رکن رہا۔ اسے متعدد اعزازی ڈاکٹریٹ کی ڈگریوں سے بھی نوازا گیا۔ مثلاً شکاگو یونیورسٹی، جواہر لعل نہرو یونیورسٹی، مشیگن یونیورسٹی، بیرزیت یونیورسٹی (مغربی کنارہ)، قاہرہ کی امریکی یونیورسٹی اور قومی یونیورسٹی آئرلینڈ نے اسے پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگریاں دیں۔
ایڈورڈ سعید کے بعض خیالات سے اتفاق ممکن نہیں۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ کسی بڑے سے بڑے دانش ور کے تمام افکار و خیالات سے مکمل اتفاق نہیں کیا جا سکتا۔ سعید کے نزدیک سامراجی نظام کے تحت بعض ملکوں مثلاً برعظیم، قبرص اور آئرلینڈ کی تقسیم جبرو تشدد کے خاتمے کے بجائے اس کا منبع اور محرک بنی۔ برعظیم کے حوالے سے اس خیال کا اگر تو یہ مطلب ہے کہ اس کی تقسیم سے برطانوی سامراج کی سازش کی وجہ سے کشمیر کے پاکستان سے الحاق نہ ہونے کے نتیجے میں جبرو تشدد اور خون ریزی کا نامختتم سلسلہ شروع ہوا تو یہ یقینا درست ہے، لیکن اس سے اگر یہ سمجھا جائے کہ خود برعظیم کی تقسیم ہی کا کوئی جواز نہ تھا تو اس سے ہرگز اتفاق نہیں کیا جا سکتا۔ اس دوسرے قیاس کو اس امر سے تقویت ملتی ہے کہ سعید ملی جلی سرحدوں (Porous Borders) کے تصور کا زبردست علمبردار رہا۔ اسی طرح اس کا فلسطین کے ضمن میں دو ریاستی تصور بھی بہ حالتِ موجودہ قابلِ عمل نظر نہیں آتا۔
سعید کا موقف یہ تھا کہ تمام انسانی اختلافات کی بنیاد تاریخی ہے، نسلی یا مابعدالطبیعیاتی نہیں، چناں چہ کسی ایک بڑے گروہ سے بعض قدروں کو منسوب کر دینا اس کے نزدیک بہت حد تک مشکوک تھا۔ ”مشرق بمقابلہ مغرب“ کہہ دینا کوئی سادہ نہیں نہایت پیچیدہ بات ہے کیوں کہ اگر مثال کے طور پر ان اقدار کا گہرا تجزیہ کیا جائے جو مغربی کہلاتی ہیں مثلاً انسانی آزادی، ہم دردی، وقار _ تو حقیقت یہ ہے کہ یہ نوعِ انسانی کا مشترکہ ورثہ ہیں۔ انھیں محض مغربی اقدار کہنا صرف خطابت بازی ہے۔ پیشِ نظر مقالہ ”تعریفوں کا تصادم“ ایڈورڈ سعید کی کتاب “Reflections on Exile” سے لیا گیا ہے اور اپنے موضوع پر معاصر تہذیبی صورتِ حال کے حوالے سے حد درجہ اہم ہے۔ ایڈورڈ سعید کے بارے میں مندرجہ بالا معلومات کے مآخذ درج ذیل ہیں: ۱- مقدمہ ”ایڈورڈ سعید ریڈر“ (گرانٹابکس لندن، ۲۰۰۰ء)۔ ۲- ایڈورڈ سعید کے ساتھ ایک مصاحبہ، ۱۹۹۹ء مشمولہ کتاب مذکور۔ ۳- “Out of Place” _ از ایڈورڈ سعید۔
۴- Selves & Others (از عقیلہ اسماعیل) شایع شدہ ڈان، کراچی، ۵ اکتوبر ۲۰۰۳ء۔


تعریفوں کا تصادم
سموئیل پی ہنٹنگٹن کا مضمون ”تہذیبوں کا تصادم“۱۹۹۳ء کے گرما کے ”فارن افیئرز“ نامی شمارے میں شایع ہوا جس کے پہلے جملے میں اعلان کیا گیا تھا کہ عالمی سیاست ایک نئے عہد میں داخل ہو رہی ہے۔ اس جملے سے اس کا مطلب یہ تھا کہ ماضی قریب میں جہاں عالمی تصادم نظریاتی گروہوں کے مابین ہوتے تھے،جو پہلی دوسری اور تیسری دنیا کو برسر جنگ جماعتوں کی شکل میں منظم کرتے تھے، وہاں سیاست کا نیا اسلوب ایسے تصادموں کو جنم دے گا جو مختلف اور امکانی طور پر متعارض تہذیبوں کے مابین ہوں گے یعنی”نوعِ انسان کے مابین پائی جانے والی بڑی تقسیموں اور تصادم کا غالب منبع ثقافتی ہوگا_ تہذیبوں کا تصادم عالمی سیاست پر غالب رہے گا۔“ آگے چل کر ہنٹنگٹن وضاحت کرتا ہے کہ بڑا تصادم مغربی اور غیر مغربی تہذیبوں کے مابین ہوگا۔ مصنف اپنے وقت کا بیش تر حصہ اصلاً ایک جانب مغربی اور دوسری جانب اسلامی اور کنفیوشسی تہذیبوں کے بنیادی اختلافات پر، خواہ وہ حقیقی ہیں یا مخفی، صرف کرتا ہے۔ تفصیل میں جاتے ہوئے مصنف کسی بھی تہذیب کے مقابل، بشمول مغربی تہذیب کے، اسلام پر زیادہ توجہ صرف کرتا نظر آتا ہے۔ ہنٹنگٹن کے مضمون اور بعد ازاں ۱۹۹۵ء میں شایع ہونے والی اس کی بے لطف اور بے تاثیر کتاب(۱) میں لی جانے والی دل چسپی کا بڑا سبب میرے نزدیک اس کے حقیقی نقطۂ نظر سے زیادہ اس کا ایک مخصوص وقت پر ظہور میں آنا تھا۔ جیسا کہ ہنٹنگٹن نے خود لکھا ہے کہ سرد جنگ کے خاتمے سے لے کر اب تک نئی ظہور میں آنے والی عالمی صورتِ حال کے امکانی جائزے کے لیے بہت سی فکری اور سیاسی کوششیں کی گئی ہیں اِنھی میں فرانسس فوکو یاما کی تاریخ کے خاتمے کا نظریہ بھی شامل ہے اور بش انتظامیہ کے بعد کے زمانے میں اس کا پیش کیا جانے والا نئے عالمی نظام کا نام نہاد تصور۔ بالکل حال ہی میں پال کینیڈی، کونر کروئز، او برائن اور ایرک ہوبز بام جیسے دانش وروں نے، جنھوں نے نئی ہزاری کے امکانات پرنظر ڈالی ہے، مستقبل کے تصادمات کے امکانات پر خاصی توجہ صرف کی ہے اور اس کے نتیجے میں ان سب میں ایک تشویش پائی جاتی ہے۔ ہنٹنگٹن کی پیش قیاسی کا بنیادی نکتہ (جو کوئی نیا نقطۂ نظر نہیں ہے) ایک نامختتم تصادم سے عبارت ہے _ تصادم کا ایک ایسا تصور جو تقریباً سہولت کے ساتھ اسی سیاسی خلا میں جا پھسلتا ہے جو افکار و اقدار کی (بظاہر) نامختتم دو قطبی جنگ اور تأسف کو جنم نہ دینے والی سرد جنگ کے خاتمے کے نتیجے میں پید ا ہوا۔
چناں چہ اس امر کی نشاندہی کرنا غلط نہ ہوگا کہہنٹنگٹن اپنے اس مضمون میں، جس کا تخاطب واشنگٹن کے پالیسی سازوں اور آراء سازوں سے ہے جو ”فارن افیئرز“ جیسے رسائل کے تجزیوں سے، جو خارجہ پالیسی کے مباحث کے باب میں صف اول کا امریکی رسالہ ہے، اتفاق کرتے ہیں، جو تصور پیش کرتا ہے وہ اصلاً سرد جنگ کے نظریے ہی کا نقش ثانی ہے جس کی رو سے آج اور کل کی دنیا کے تصادم اپنی اصل میں نہ تو معاشی رہیں گے نہ سماجی بلکہ نظریاتی ہوں گے اور اگر ایسا ہی ہے تو ایک ہی آئیڈیالوجی _ یعنی مغربی آئیڈیالوجی ہی وہ نقطۂ ساکت یا متعین مقام ہے جس کی جانبہنٹنگٹن کے نزدیک باقی تمام قوموں کو اپنا رخ پھیرنا ہوگا۔ تو گویا دراصل سرد جنگ جاری ہے مگر اس دفعہ اس کے محاذ کئی ہیں اور افکار اور اقتدار کے زیادہ بنیادی اور سنجیدہ نظام (مثلاً اسلام اور کنفیوشنزم) متعدد ہیں جو مغرب پر برتری بلکہ غلبہ پانے کے لیے کوشاں ہیں۔ چناں چہ یہ بات تعجب خیز نہیں کہہنٹنگٹن اپنے مضمون کا خاتمہ اس مختصر جائزے پر کرتا ہے کہ مغرب خود کو مضبوط اور اپنے مفروضہ حریفوں کو کمزور اور منقسم رکھنے میں کیا کیا تدبیریں کرسکتا ہے (مثلاً یہ کہ ”مغرب کو کنفیوشسی اور اسلامی ملکوں کے مابین اختلافات اور تصادمات کو ہوا دینی چاہیے_ دوسری تہذیبوں کے ان گروہوں کی مدد کرنی چاہیے جو مغربی اقدار و مفادات سے ہم دردی رکھتے ہیں _ ان بین الاقوامی اداروں کو مضبوط بنانا چاہیے جو مغربی اقدارو مفادات کے عکاس اور ان کا دفاع کرتے ہیں اور غیر مغربی اقوام کی ان اداروں میں دل چسپی کو بڑھانا چاہیے۔“(ص۴۹) ہنٹنگٹن کا یہ خیال، کہ دیگر تہذیبیں لازماً مغرب سے متصادم ہیں، اس قدر پختہ اور اصرار آمیز ہے اور اس کا تجویز کردہ نسخہ، کہ مغرب کو اپنی مسلسل جیت کے لیے کیا کرناچاہیے، اس قدر بے تکان طور پر جارحانہ اور جنگ ُجویانہ ہے کہ ہم یہ نتیجہ نکالنے پر مجبور ہیں کہ وہ موجودہ عالمی منظر نامے کی تفہیم کے تصورات کو آگے بڑھانے اور مختلف ثقافتوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے کے اسباب کو ترقی دینے کے بجائے اصلاً سرد جنگ کے تسلسل اور پھیلاؤ کے ذرائع سے زیادہ دل چسپی رکھتا ہے۔ وہ جو کچھ کہتا ہے اس سے کہیں بھی اس کا ذرہ برابر شک یا بے اعتقادی ظاہر نہیں ہوتی۔ وہ پہلے ہی صفحے پر کہہ ڈالتا ہے کہ تصادم نہ صرف بڑھے گا بل کہ یہ کہ تہذیبوں کے مابین تصادم جدید دنیا میں تصادموں کا تازہ ترین مرحلہ ہوگا۔ ہنٹنگٹن کے اس مضمون کو امریکیوں اور دیگر اقوام کے ذہنوں میں جنگ کے خیال کو مسلسل تازہ رکھنے کے فن کے باب میں ایک نہایت مختصر اور کسی قدر کھردرے پن سے اظہار کردہ رہنما نسخہ تصور کرنا چاہیے۔ میں تو یہاں تک کہوں گا کہ یہ مضمون پینٹیگون کے منصوبہ سازوں اور دفاعی صنعت کے افسروں کے زاویہئ نگاہ سے لکھا گیا ہے جو سرد جنگ کے خاتمے کے نتیجے میں شاید عارضی طور پر اپنے مفوضہ پیشوں سے محروم ہوگئے ہوں اور جن پر اب اپنے لیے ایک نئی ”ذمہ داری“ کا انکشاف ہوا ہے۔ ہنٹنگٹن کم از کم مختلف ملکوں، روایتوں اور قوموں کے مابین ثقافتی عنصر کی اہمیت کو اجاگر کرنے کی صلاحیت ضرور رکھتا ہے۔ اس کا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ ”تہذیبوں کا تصادم“ مختلف سیاسی اور معاشی مسائل کو بڑھا چڑھا کر بیان کرنے اور انھیں ناقابل گرفت بنانے کا ایک مفید حربہ ہے۔ مثال کے طور پر مغرب میں جاپان پر مسلسل شدید تنقید کی روش کو جاپانی ثقافت کے بُرے اور خطرناک پہلوؤں کو نمایاں کرکے، جیسا کہ حکومت کے نمایندے کر رہے ہیں، جلتی پر تیل کا کام لیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح”زرد خطرے“ کے پرانے حربے کو کوریا اور چین کے ساتھ پیش آمدہ مسائل کے ضمن میں متحرک کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح کی صورت حال مغرب شناسی کے باب میں تمام ایشیا اور افریقہ میں ہے جہاں ”مغرب“ کو کسی اکڈال گروہ میں تبدیل کرکے غیر سفید، غیر یورپی اور غیر عیسائی لوگوں کو دشمن گردانا جاتا ہے۔ میری رائے میں ہنٹنگٹن جو کہتا ہے اور جس طرح معاملات کو پیش کرتا ہے بہت گمراہ کن ہے کیوں کہ لگتا ہے کہ وہ تاریخ یا ثقافتی تشکیلات کے محتاط تجزیے کے بجائے پالیسی سازی کے ضمن میں نسخے پیش کرنے میں زیادہ دل چسپی رکھتا ہے۔ اس کے دلائل کا بڑا حصہ اس دوسرے اور تیسرے درجے کی رائے پر انحصار کرتا ہے جو ثقافتوں کی نظری اور ٹھوس تفہیم کے سلسلے میں ظہور میں آنے والی اس عظیم پیش رفت سے سرسری طور پر گزر جاتی ہے جس کے تحت یہ دیکھا جاتا ہے کہ ثقافتیں کیا طریق کار اپناتی ہیں، کیسے بدلتی ہیں اور انھیں کس طرح بہترین انداز میں سمجھا اور گرفت میں لایا جاسکتا ہے۔ جن آراء اور افراد کے حوالے وہ دیتا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ علم اور نظری مباحث کے بجائے اس کے بڑے منابع صحافت اور مقبول عام جذباتی خطابت ہیں، کیوں کہ جب آپ چالس کروتھیمر، سرگائی سٹینکوچ اور برنارڈ لوئس جیسے خاص طرح کا میلان رکھنے والے تشہیر کاروں، عالموں اور صحافیوں سے حوالے دیں گے تو گویا آپ ابتدا ہی سے اپنے دلائل کو تعصب سے آلودہ کر کے سچی تفہیم اور ہمارے سیارے پر بسنے والی مخلوق کے باہمی تعاون کے بجائے اسے باہمی تصادم اور بحثا بحثی کی طرف جھکا دیں گے۔ ہنٹنگٹن کے اصل حوالے ثقافتیں نہیں بلکہ اس کے چنے ہوئے وہ مٹھی بھر لوگ ہیں جو کسی ثقافت کے بارے میں کسی ایک یا دوسرے نام نہاد نمایندے کے ایک یا دوسرے بیان میں مضمر تصادم پرزور دیتے ہیں۔ میرے لیے تو اس کے مضمون کا عنوان ”تہذیبوں کا تصادم“ ہی ایک اتفاقی افشائے راز کی حیثیت رکھتا ہے کیوں کہ یہ ہنٹنگٹن کی نہیں برنارڈ لوئس کی ساختہ ترکیب ہے۔ لوئس کے مضمون ”مسلم غیظ و غضب کے اسباب“ کے آخری صفحے پر، جو ”اٹلانٹک منتھلی“ کے ستمبر ۱۹۹۰ء کے شمارے میں شایع ہوا تھا_ یہ وہ پرچہ ہے جس نے بعض اوقات ایسے مضامین شایع کیے ہیں جن کا مقصد عربوں اور مسلمانوں کے ”خطرناک“، ”بیمار ذہن“، ان کے ”پاگل پن“ اور ”اختلال“ کو بیان کرنا رہا ہے_ لوئس مسلم دنیا کے حاضر مسئلے پر اظہار خیال کرتا ہے: ”اب تک یہ بات بالکل صاف ہو جانی چاہیے کہ ہمیں ایک ایسے رویے اور ایک ایسی صورت حال کا سامنا ہے جو مسائل اور پالیسیوں کی سطح سے اور ان حکومتوں سے، جو ان کی خبر رکھتی ہیں، کہیں بلند تر ہے_ یہ تہذیبوں کے تصادم سے کم تر کوئی چیز نہیں _ یہ شاید ایک قدیم حریف کا ہمارے یہودی۔ عیسائی ورثے، ہمارے سیکولر حال اور دونوں کے عالمی پھیلاؤ کے خلاف ایک نامعقول مگر بہرحال یقینی طور پر تاریخی ردعمل ہے۔ اب یہ حد درجہ ضروری ہے کہ اپنی طرف سے ہمیں اپنے حریف کے خلاف اُسی سطح کے تاریخی اور اتنے ہی نامعقول اشتعالی ردعمل کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔“(۲) میں لوئس کی لمبی تقریر کے افسوس ناک خصائص پر زیادہ وقت صرف کرنا نہیں چاہتا۔ میں نے کسی جگہ اس کے طریقہ ہاے کار کا ذکر کیا ہے_ ڈھیلی اور سست تعمیمات، تاریخ کی غیر محتاط تمسیخ، تہذیبوں کا نامعقول اور پراشتعال مقولات کی شکل میں تنزل وغیرہ وغیرہ۔ آج شاید تھوڑا سا شعور رکھنے والے لوگ بھی ایک ارب سے زیادہ مسلمانوں کے بارے میں، جو کم از کم پانچ براعظموں میں ہر جگہ پھیلے ہوئے ہیں، جو درجنوں مختلف زبانیں بولتے ہیں اور متعدد رنگا رنگ تواریخ و اقدار کے حامل ہیں، اس طرح کی جاروبی خصوصیات تجویز نہیں کرنا چاہیں گے۔ وہ ان کے بارے میں جو کچھ کہتا ہے وہ صرف یہ ہے کہ یہ سب کے سب مغربی جدت پسندی پر مشتمل ہیں گویا یہ ایک ارب افراد صرف ایک فرد ہیں اور مغربی تہذیب کوئی پیچیدہ مسئلہ ہونے کے بجائے محض ایک سادہ اعلانیہ جملہ! لیکن میں اولاً جس چیز پر زور دینا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہہنٹنگٹن نے لوئس سے یہ خیال کس طرح اخذ کیا ہے کہ تہذیبیں اکڈال اور متجانس ہوتی ہیں اور ثانیاً یہ کہ لوئس ہی کو اپنا ماخذ بناتے ہوئے وہ کیسے ”ہم“ اور ”وہ“ کے مابین ثنویت کا غیر متبدل کردار اپناتا ہے۔
بالفاظ دیگر اس بات پر زور دیناازبس ضروری ہے کہ برنارڈ لوئس کی طرح سموئیل ہنٹنگٹن غیر جانب دار، بیانیہ اور معروضی نثر نہیں لکھتا بلکہ وہ ایک مناظرہ باز ہے جس کی خطابت نہ صرف ’سب کی جنگ سب کے ساتھ‘ جیسے پہلے سے پیش کردہ دلائل کو کثرت سے برتتی ہے بل کہ نتیجۃً انھیں تسلسل عطا کرتی ہے۔ گویا تہذیبوں کے مابین ثالث بالخیر بننے کے بجائے ہنٹنگٹن ایک جانبدار شخص نظر آتا ہے جو باقی تہذیبوں کے مقابلے میں صرف ایک نام نہاد تہذیب کا وکیل نظر آتا ہے۔ لوئس کی طرح ہنٹنگٹن بھی مسلم تہذیب کو تحقیقی انداز میں متعارف کراتا ہے گویا اس تہذیب کے متعلق جو چیز سب سے اہم ہے وہ ہے اس کی مفروضہ مغرب دشمنی! لوئس اپنے مؤقف کی تائید میں کم از کم دلائل تو پیش کرتا ہے مثلاً یہ کہ اسلام کبھی جدت سے آشنا نہیں ہوا، یہ کہ اس میں دین و سیاست کبھی علاحدہ نہیں ہوئے یا یہ کہ یہ دوسری تہذیبوں کی تفہیم کا اہل نہیں لیکن ہنٹنگٹن اس طرح کے کسی خرخشے میں نہیں پڑتا۔ اس کے نزدیک اسلام، کنفیوشنزم اور دوسری پانچ تہذیبیں (ہندو، جاپانی، ”سلاوی۔ راسخ العقیدہ“(۳)، لاطینی امریکی اور افریقی) جو اب تک باقی ہیں ایک دوسرے سے مختلف ہیں اور نتیجۃً باطنی سطح پر ایک دوسرے سے تصادم کی صورت حال میں ہیں جسے دور کرنے کے بجائے ہنٹنگٹن اس کا اہتمام کرنا چاہتا ہے۔ وہ بحران کے ”مہتمم“ کے طور پر لکھتا ہے، تہذیبوں کے ایک طالب علم یا اُن کے مابین موافقت کار کے طور پر نہیں۔
مقالے کے مرکز میں کارفرما طریقِ کار مثلاً غیر ضروری تفصیل سے صرفِ نظر، علم و فضل کے ذخائر اور تجربے کے غیر معمولی سرمائے سے پہلوتہی اور انھیں ابال دے کر ایک دو آسان اور سہولت سے یاد رکھنے یا حوالہ دینے کے قابل خیالات میں مختصر کر دینے اور بعد ازاں انھیں نتیجہ خیز، عملی، معقول اور روشن تصورات کے طور پر پیش کرنے ہی کے باعث یہ مضمون سرد جنگ کے بعد کے پالیسی سازوں کی نگاہ میں بہت معتبر ٹھہرا لیکن کیا یہ اس دنیا کو، جس میں ہم رہتے ہیں، سمجھنے کا بہترین طریق کار ہے؟ کیا بہ حیثیت ایک دانش ور اور ماہر عالم کے یہ زیبا ہے کہ دنیا کا ایک سادہ اور سطحی سا نقشہ تیار کر کے اسے جرنیلوں اور غیر فوجی قانون سازوں کے ہاتھ میں ایک نسخے کے طور پر تھما دیا جائے تاکہ پہلے وہ اسے سمجھیں اور پھر اس پر عمل کریں؟ کیا یہ طریقِ کار درحقیقت تصادم کو طول دینے، اسے بدتر بنانے اور اسے گہرا بنانے کا باعث نہیں بنتا؟ یہ تہذیبوں کے تصادم کو کم کرنے میں کیا فرض بجا لاتا ہے؟ کیا ہم تہذیبوں کے تصادم کے آرزو مند ہیں؟ کیا مذکورہ طریقِ کار سے وطن پرستانہ جذبات کو اور نتیجۃً قوم پرستانہ قتل و غارت گری کوشہ نہیں ملتی؟ کیا ہم یہ پوچھنے میں حق بجانب نہیں: کوئی شخص ایسا کیوں کر رہا ہے؟ سمجھنے بوجھنے کے لیے یا عمل کے لیے؟ تصادم کے امکان کو کم کرنے کے لیے یا بڑھانے کے لیے؟
میں عالمی صورت حال کا جائزہ لیتے ہوئے اس رائے سے آغاز کروں گا کہ لوگوں میں اب مغرب یا جاپانی یا سلاوی ثقافت، اسلام یا کنفیوشنزم جیسی بڑی اور میری رائے میں غیر ضروری حد تک مبہم اور مہارت سے نپٹائے جانے کے لائق تجریدات پر گفتگو کرنے کی روش کس قدر عام ہو گئی ہے__ یہ وہ لیبل ہیں جو مذاہب، نسلوں اور گروہوں کو توڑ پھوڑ کر تصوریوں میں تبدیل کر دیتے ہیں۔ جو ایک سو پچاس برس پہلے کے گوبینو اور رینان کے نظریات سے کہیں زیادہ ناخوش گوار اور اشتعال انگیز ہوتے ہیں۔ گو بہ ظاہر یہ عجیب سا لگتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ گروہی نفسیات کے شدید طرز عمل کی یہ کوئی نئی مثالیں نہیں اور یہ ہرگز ہرگز مصلحانہ نہیں۔ ایسی مثالیں گہرے عدم تحفظ کے زمانوں میں سامنے آتی ہیں یعنی اس وقت جب قومیں توسیع، جنگ، استعمار یامہاجرت یا کسی اچانک یا معمول کے خلاف تبدیلی کے ظہور میں آنے کے نتیجے میں خاص طور پر ایک دوسرے کے قریب آتی ہیں یا ایک دوسرے پر مسلط کر دی جاتی ہیں۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔