تعریفوں کا تصادم

یہ تحریر 891 مرتبہ دیکھی گئی

(۵)

”سیاہ اثینا“ کے نہایت مؤثر حصے میں برنال یہ دکھاتا ہے کہ کس طرح یورپی اور بالخصوص جرمن قومیت کے پھیلاؤ کے ساتھ ایتھنز کے خصائص کے حامل یونان کے اصل امتزاجی خدوخال سے جو، اٹھارویں صدی تک موجود تھے، بتدریج اس کے غیر آریائی عناصر کھرچ ڈالے گئے بالکل اسی طرح جیسے کئی برس بعد نازیوں نے ان تمام کتابوں کو جلا دینے اور ان تمام مصنّفین پر پابندی لگانے کا فیصلہ کیا جو غیر جرمن یا غیر آریائی تھے۔ چناں چہ کلاسیکی یونان کو، جو اصل میں جنوب یعنی افریقہ کی جانب سے حملے کی پیداوار تھا، رفتہ رفتہ آریائی شمال کی جانب سے حملے کی پیداوار کے تصور سے بدل دیا گیا۔ اپنے پریشان کن غیر یورپی عناصر سے پاک کیے جانے کے بعد یونان، مغرب کی خود وضع کردہ تعریف کے نتیجے میں، جو یقینا اس کے مفید مطلب تھی، مغرب کا ”سرچشمہ و نقطہ آغاز“ اور مغرب کی روشنی و حلاوت کا منبع قرار پایا۔ برنال نے اس نکتے پر زور دیا ہے کہ کس طرح اور کس حد تک شجرے، خاندان اور آباؤ اجداد بعد کے زمانے کی سیاسی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے تبدیل کر دیے جاتے ہیں۔ اس صورت حال میں خود ساختہ سفیدآریائی یورپی تہذیب کے ظہور نے جو افسوس ناک نتائج پیدا کیے ان کے بارے میں کسی کو بھی کچھ باور کرانے کی ضرورت نہیں۔

تہذیبوں کے تصادم کے اعلانچیوں کے ضمن میں میرے لیے یہ بات زیادہ پریشان کن ہے کہ وہ ان تمام باتوں سے بے خبر ہیں جو بہ حیثیت مؤرخین اور ثقافت کے تجزیہ کاروں کے اب ہمارے علم میں ہیں یعنی یہ کہ ان تہذیبوں کی تعریفیں کتنی متنازعہ فیہ ہیں۔ اس ناقابل یقین حد تک سادہ اور سوچے سمجھے تخفیف کردہ خیال سے اتفاق کر لینے کے بجائے، کہ تہذیبیں اپنی ہی ذات کا پرتو ہوتی ہیں اور یہی سب کچھ ہے، ہمیں ہمیشہ یہ سوال اٹھانا چاہیے کہ کون سی تہذیبوں کا منصوبہ بنایا جاتا ہے، ان کی تخلیق کی جاتی ہے اور کون ان کی تعریف متعین کرتا ہے اور کس لیے۔ معاصر تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے جن میں یہودی، عیسائی اقدار کے دفاع کی ترغیب دی گئی ہے تاکہ اختلاف اور ناپسندیدہ آراء کو ٹھنڈا کیا جاسکے اور ہمیں بے سوچے سمجھے یہ باور کرایا جائے کہ ”ہر شخص“ کو علم ہے کہ یہ اقدار کیا ہیں، ان کی کیا تعبیریں ہونی چاہییں اور انھیں معاشرے میں کس طرح نافذ کرنا چاہیے اور کس طرح نہیں۔

بہت سے عرب یہ کہیں گے کہ ان کی تہذیب واقعی اسلام ہے۔ اس کے بالکل مقابل بعض اہل مغرب __ یعنی آسٹریلوی، کینیڈین اور امریکی یہ نہیں چاہیں گے کہ انھیں ایک وسیع اور مبہم انداز میں تعریف کردہ زمرے یعنی مغربی (Western) میں شامل کیا جائے اور جب ہنٹنگٹن کی طرح کا آدمی ”مشترک معروضی عناصر“ کی بات کرتا ہے جو مفروضاتی طور پر ثقافت میں شامل ہوتے ہیں تو وہ تاریخی اور تجزیاتی دنیا کو بالکل نظر انداز کر دیتا ہے اور اس کے برعکس وسیع اور آخرکار بے معنی مقولات میں پناہ لینے کو ترجیح دیتا ہے۔

جیسا کہ میں نے اپنی کئی کتابوں میں کہا ہے کہ آج کے یورپ اور ریاست ہاے متحدہ امریکہ میں جس شے کو ”اسلام“ کہا جاتاہے وہ اصلاً ”استشراق“ کے مباحث سے تعلق رکھتا ہے__ یہ وہ اصطلاح ہے جو دنیا کے ایک ایسے حصے کے خلاف، تعصب اور نفرت کے جذبات کو اُبھارنے کے لیے وضع کی گئی ہے جو اپنے تیل، عیسوی دنیا سے اپنی خوف انگیز جغرافیائی قربت و الحاق اور مغرب کے ساتھ مقابلے کی قابل لحاظ تاریخ کے باعث، بڑی عسکری اہمیت کا حامل ہے۔ لیکن اسلام کی یہ تصویر اس تصویر سے بالکل مختلف ہے جو ان مسلمانوں کے نزدیک ہے جو اس کی اقلیم میں زندہ ہیں۔ انڈونیشیا کے اسلام اور مصر کے اسلام میں زمین آسمان کا فرق ہے۔(۶) اسی لحاظ سے آج اسلام کے مفہوم و معانی پر مصر میں ہونے والی سرگرمی، جہاں معاشرے کی سیکولر قوتیں بعض اسلامی احتجاجی تحریکوں اور مصلحوں کے ساتھ اسلام کی نوعیت کے مسئلے پر متصادم ہیں، واضح طور پر دیکھی جاسکتی ہے۔ ان حالات میں جو سب سے آسان مگر مشکل ہی سے صحیح بات کہی جاسکتی ہے، یہ ہے: ”وہ ہے دنیاے اسلام اور دیکھیں یہ سب دہشت گردوں اور بنیاد پرستوں کی دنیا ہے اور یہ بھی ملاحظہ کریں کہ ”وہ“،”ہم“ سے کتنے مختلف ہیں!!“

لیکن تہذیبوں کے تصادم کا سب سے کمزور حصہ وہ غیر لچک دار علاحدگی ہے جو تہذیبوں کے مابین فرض کرلی گئی ہے اس زبردست ثبوت کے باوجود کہ آج کی دنیا درحقیقت باہمی ملاپ، مہاجرت اور ایک دوسرے کو جوڑنے والے پلوں کی دنیا ہے۔ ایک بڑا بحران، جس نے فرانس، برطانیہ اور امریکہ کو متاثر کیا ہے، اس احساس کے نتیجے میں اب ہر جگہ پیدا ہو رہا ہے کہ کوئی ثقافت یا معاشرہ بھی خالصتاً ایک شے نہیں ہوتا۔ اقلیتوں کا ایک قابل لحاظ حصہ مثلاً شمالی افریقیوں کا فرانس میں، افریقیوں، ہسپانویوں اور برعظیم کی آبادیوں کا برطانیہ میں ہونا اور ایشیائی اور افریقی عناصر کا امریکہ میں ہونا اس خیال کو متنازعہ بنا دیتا ہے کہ وہ تہذیبیں، جو وحدت اور یک رنگی پر نازاں تھیں، اسی ڈھرّے پر قائم رہ سکتی ہیں۔ محفوظ ثقافتیں اور تہذیبیں اب کہاں ہیں؟ ہنٹنگٹنکی طرح ان کو الگ الگ خانوں میں تقسیم کرنے کی کوئی بھی کوشش ان کے تنوع، ان کی کثیرالجہتی، ان کے عناصر کی کامل پیچیدگی اور ان کی سرتاپا مخلوط النسلی کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے۔ ہم ثقافتوں اور تہذیبوں کے الگ تھلگ ہونے پر جس قدر اصرار کریں گے اپنے اور دوسروں کے بارے میں اسی قدر غلطی پر ہوں گے۔ کسی الگ تھلگ تہذیب کا تصور میری نظر میں محالات میں سے ہے۔ چناں چہ اس مبحث کا آخری اور اصل سوال یہ ہے کہ کیا ہم تہذیبوں کے انفصال کے لیے کوشش کریں گے یا ایک زیادہ مربوط مگر شاید زیادہ مشکل طرز عمل کا انتخاب کر کے اس کوشش میں جت جائیں گے کہ ہم انھیں ایک وسیع کل میں ڈھال دیں __ ایک ایسا کل جس کی صحیح حدود کا احاطہ ایک فرد کے لیے تو ناممکن ہے مگر ہم اس کے یقینی وجود کا وجدانی سطح پر تصور کر سکتے ہیں اور اسے محسوس کر سکتے ہیں۔ سیاسی تجزیہ کاروں، ماہرین معاشیات اور ثقافتی تجزیہ کاروں کی ایک بڑی تعداد بہرحال چند برسوں سے ایک ایسے مربوط عالمی نظام کی، جو مانا کہ بیش تر معاشی نوعیت کا ہو گا، بات کر رہے ہیں۔ یہ نظام بلاشبہ آپس میں گندھا ہو گا اور یہ ان متعدد تصادموں پر حاوی ہو گا جن پر ہنٹنگٹن نے بڑی جلد بازی میں بے سوچے سمجھے گفتگو کی ہے۔

ہنٹنگٹن جس پہلو کو حیران کن حد تک نظر انداز کرتا ہے وہ ہے سرمایے کا عالمی نظام جس کی جانب ادب میں کثرت سے حوالے دیے جاتے ہیں۔ ۱۹۸۰ء میں ولی برانٹ اور اس کے کچھ ہم کاروں نے ”شمال __ جنوب__ بقا کا ایک منصوبہ“ کے زیر عنوان ایک تحریر شایع کی۔ اس میں مصنّفین نے اس امر کا اظہار کیا کہ دنیا اب دو وسیع اور ناہموار حصوں میں بٹ چکی ہے۔ ایک طرف صنعتی ترقی کا حامل رقبے کے لحاظ سے چھوٹا شمالی حصہ ہے جو بڑی یورپی، امریکی اور ایشیائی معاشی قوتوں پر مشتمل ہے اور دوسری طرف ایک وسیع جنوبی حصہ ہے جو سابقہ تیسری دنیا اور اس کے ساتھ ساتھ ایک بڑی تعداد پر مشتمل نئی مگر انتہائی مفلس قوموں پر مشتمل ہے۔ مستقبل کا سیاسی مسئلہ یہ ہو گا کہ شمال اور جنوب کا باہمی رشتہ کس طرح متصور ہو کیوں کہ شمالی حصہ امیر سے امیر تر ہوتا جائے گا اور جنوبی حصہ مفلس سے مفلس تر اور دنیا کو  بہ حیثیت مجموعی پہلے سے زیادہ باہمی طور پر ایک دوسرے پر انحصارکرنا پڑے گا۔ میں یہاں ڈیوک سیاسی تجزیہ کار ____ عارف درلک کے ایک مضمون کا حوالہ دوں گا جس میں اس سارے مبحث کو، جس کا احاطہ ہنٹنگٹن نے کیا ہے، زیادہ صحت اور قائل کن انداز میں سمیٹا گیا ہے:

”عالمی سرمایہ کاری کی پیدا کردہ صورتِ حال بعض ایسے واقعات کی توضیح میں مدد دیتی ہے جو پچھلی دو یا تین دہائیوں میں نمایاں ہوتے ہیں خاص طور پر اسّی کی دہائی میں: قوموں کا عالمی سطح پر تحرک (اور نتیجۃً ثقافتی تحرک و تبدیلی)، سرحدوں کی تضعیف (معاشروں میں بھی اور سماجی اکائیوں میں بھی)، معاشروں میں داخلی سطح پر عدم مساوات اور تناقضات کا پھر سے ظہور جسے کبھی نو آبادیاتی اختلافات سے منسوب کیا جاتا تھا، معاشروں کے اندر اور باہر بیک وقت باہمی یگانگت اور توڑ پھوڑ، مقامی اور عالمی عناصر کا باہمی اثر و نفوذ اور دنیاے واحد کا انتشار جسے تین دنیاؤں یا قومی ریاستوں کے روپ میں سوچا گیا تھا۔ ان میں سے بعض واقعات معاشروں کے اندر اور باہر اختلافات کو بظاہر برابر کی سطح پر لے آنے اورمعاشروں کے اندر اور مابین، فروغِ جمہوریت میں ممد ثابت ہوئے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اس عالمی صورت حال کو منظم کرنے والے خود تسلیم کرتے ہیں کہ وہ (یا ان کی تنظیمیں) اب مقامی کوعالمی سطح کے لیے مختص کرنے، مختلف ثقافتوں کو سرمایے کی اقلیم میں داخل کرنے (تاکہ انھیں پارہ پارہ کر کے پیداوار اور صرف کی ضروریات کے مطابق دوبارہ ڈھالا جاسکے) بل کہ انفرادی میلانات کو نئے سرے سے تشکیل دے کر قومی حدود سے آگے لے جا کر ایسے پیداکار اور صارفین تخلیق کرنے پر، جو سرمایے کے عمل کے لیے زیادہ موزوں ہوں، قادر ہیں۔ جو اس عمل میں دل چسپی نہیں لیتے یا وہ اپاہج جن کے ہاتھ مدد لینے کے لیے پھیلے رہتے ہیں اور جو اس قسم کے معاشی اعمال کے لیے ضروری نہیں ہوتے__ یعنی ”منتظمین“ کی گنتی کے مطابق عالمی آبادی کے ۵/۴ لوگ، اس کے اہل نہیں کہ انھیں اپنی نو آبادیاتی بنایا جاسکے، وہ تو فالتو لوگ ہیں۔ نئے لچک دار پیداواری نظام نے جس شے کو ممکن بنا دیا ہے یہ ہے کہ اب یہ ضروری نہیں رہا کہ مقامی طور پر یا غیر ملکی آبادیوں میں مزدوروں کے خلاف کھلے جبر کو استعمال میں لایا جائے۔ وہ لوگ یا مقامات، جو سرمایے کی ضروریات (یا مطالبات) کو پورا نہیں کرتے یا پھر ”مستعدی“ سے جواب دینے سے حد درجہ بعید ہیں، وہ سرمایے کے ان رستوں سے بارہ پتھر باہر ہیں۔ اب سامراجی نو آباد کاری یا نظریہ جدید کاری کے بھلے دنوں کی نسبت تیقن انگیزی کے ساتھ یہ کہنا بہت آسان ہے: ”یہ ان کی غلطی ہے“۔ (کریٹکل انکوائری، سرما ۱۹۹۴ء ۳۵۱)۔

ان مایوس کن بلکہ تشویش انگیز حقائق کی روشنی میں یہ تجویز دینا مجھے شترمرغ کے سے طرز عمل کے مماثل لگتا ہے کہ ہم اہل یورپ اور اہل امریکہ کو چاہیے کہ دوسروں کو دور رکھ کر اپنی تہذیب کو قائم رکھیں اور دوسری قوموں کے درمیان اختلافات کو ہوا دے کر اپنی بالا دستی کو طول دیں۔ ہنٹنگٹن کی بحث کا خلاصہ یہی ہے اور یہ بات آسانی سے سمجھی جاسکتی ہے کہ آخر اس کا مضمون ”فارن افیئرز“ نامی پرچے میں کیوں شایع ہوا اور کیوں بہت سے پالیسی ساز اس مضمون پر لپکے ہیں، امریکہ کو اشیرباد دیتے ہوئے، کہ وہ سرد جنگ کے سابقہ طرزعمل کو ایک مختلف نقطہ وقت میں نئے سامعین کے لیے توسیع دے۔ نیا عالمی ذہن ان خطرات کو، جن کا ہمیں سامنا ہے، پوری نسل انسانی کے نقطۂ نگاہ سے دیکھتا ہے اور اس اعتبار سے یہ کہیں زیادہ نتیجہ خیز اور مفید ہے۔ انھی میں عالمی آبادی کے بڑے حصے کی شدید غربت، زہریلے مقامی، قومی، نسلی اور مذہبی جذبے کا ظہور جیسا کہ بوسنیا، روانڈا، لبنان، چیچنیا اور بعض دیگر مقامات پر نظر آتا ہے، خواندگی کے زوال، الیکٹرانک ذرائع ابلاغ، ٹیلی ویژن اور نئی عالمی اطلاعاتی شاہراہ کی بنیاد پر پھیلنے والی نئی ناخواندگی، آزادی اور روشنی کے عظیم بیانیوں کی ٹوٹ پھوٹ اور اس کی گم شدگی کے امکانات جیسے خطرات شامل ہیں۔ روایت اور تاریخ کے اس شدید تحول کی صورت حال میں اجتماع، باہمی افہام و تفہیم، ہم دردی اور اُمید (جو ہنٹنگٹن کے مضمون سے پیدا ہونے والے جذبے کے بالکل برعکس ہے) جیسی مثبت قدروں کا ظہور ہمارا نہایت قیمتی اثاثہ ہے۔ میں یہاں عظیم ماریطینیقی شاعر ایمی سیزر کے چند مصرعے نقل کرنا چاہوں گا جنھیں میں نے اپنی حالیہ کتاب ”ثقافت اور استعمار“ میں برتا تھا:

لیکن انسان کے کام کا ابھی محض آغاز ہوا ہے

اور یہ اسی کے کرنے کا کام ہے کہ وہ

اس تمام تشدد کو، جو اس کے جذبات کے کونوں کھدروں میں چھپا ہے،

تسخیر کرلے

کوئی نسل حسن و جمال، ذہانت اور قوت کی

اجارہ دار نہیں

اور فتح کے متعین مقام پر سب کے لیے گنجائش ہے

ان اشعار کا مطلب یہ ہے کہ ان میں بیان کردہ جذبات ثقافتی حد بندیوں اور تہذیبی فخر کو ملیامیٹ کرنے کا رستہ ہموار کرتے ہیں کیوں کہ مذکورہ منفی رویے اس پر امن عالمی نظام کا راستہ روکتے ہیں جس کے خدوخال ہمیں مثال کے طور پر ماحولیاتی تحریک، سائنسی امور میں باہمی تعاون، حقوق انسانی پر عالمی تشویش، عالمی فکر کے تصورات جو اجتماع پر زور دیتے اور نسلی، جنسی یا گروہی بالا دستی ]کے مسائل[ میں حصہ داری میں نظر آتے ہیں۔ چناں چہ میرے خیال میں تہذیبوں کے اجتماع کو وحشیانہ دور کی نرگسی جدوجہد کی طرف لوٹانے کے عمل کو ان بیانات کے طور پر نہیں لینا چاہیے، کہ یہ تہذیبیں اصلاً کس طرزِ عمل کا مظاہرہ کرتی ہیں، بلکہ بیکار تصادم اور انہدامی شاوِ نزم کو ہوا دینے کے عمل کے طور پر سمجھنا چاہیے اور ٹھیک یہی وہ چیز ہے، یعنی تصادم اور شاوِ نزم، جس کی ہمیں ضرورت نہیں۔

حواشی (از مترجم):

۱۔            یہ کتاب “Clash of Civilizations and the Remaking of World Order” کے زیر عنوان شایع ہوئی۔

۲۔           یہی اقتباس سعید نے اپنی کتاب “Covering Islam” کے Vintage Edition (۱۹۹۷ء) کے دیباچے میں بھی نقل کیا ہے، ملاحظہ ہوں: xxxiii

۳۔           یعنی Slavic-Orthodox

۴۔           ڈاکٹر علی شریعنی کا تعلق ایران کے ان سیاسی فلاسفہ سے تھا جو روایتی فلسفہ اسلام کے برعکس اسلام کی انقلابی تعبیرات کا مؤید تھا۔ علی شریعتی نے اسلام کے عمرانی تصورات پر، حج کے موضوع پر اور اقبال پر فکر افروز کتابیں لکھیں۔ روایتی اسلامی فقہ کے بعض تصورات کا ناقد ہونے کی وجہ سے شریعتی کو ایران کی موجودہ ہیئت حاکمہ میں پسند نہیں کیا جاتا۔

۵۔           یونانی دیومالا میں دانش، عملی مہارتوں اور جنگ و جدال کی کنواری دیوی۔ روایت ہے کہ یہ زئیس کے سر سے کلیتہً مسلح صورت میں پیدا ہوئی۔

۶۔           یہ فرق تہذیبی مظاہر اور فروعات کا ہے، اصلی اور حقیقی نہیں۔