ترجمہ اور اظہار

یہ تحریر 2187 مرتبہ دیکھی گئی

            ایک معمولی سے جملے کو ایک زبان سے دوسری زبان تک لے جانے میں کتنی دشواری ہوتی ہے، اس کا اندازہ وہی کر سکتا ہے جسے زبان کی باریکیوں کا پورا شعور ہو اور جو اصل متن کے علاوہ ترجمے کے بھی ساتھ انصاف کرنا چاہتا ہو۔ایک معمولی سا نثری جملہ ہے، اردو کا:

            سنبھل کے چلیو، یہ غیر کی بستی ہے۔

آپ ہزار سر ماریں، لیکن ’چلیو‘، ’غیر‘ اور ’بستی‘ کا صحیح ترجمہ انگریزی میں نہ کر سکیں گے۔عسکری صاحب نے ترجمے کے بارے میں اپنے مضمون کا عنوان ’گر ترجمے سے فائدہ اخفاے حال ہے‘یوں ہی نہیں رکھا تھا۔ ترجمہ جتنا ظاہر کرتا ہے، کم سے کم اتنا ہی وہ پوشیدہ بھی کر جاتا ہے۔پھر مشکل یہ کہ ہر مترجم دوسرے کو احمق،یا احمق نہیں تو غلط ضرور سمجھتا ہے۔ معمولی سے معمولی بات کے ترجمے پر بھی اتفاق رائے بمشکل ہی ہو سکتا ہے۔عربی میں ’ترجمہ‘ ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے کا مفہوم رکھتا ہے۔اس لے جانے،اٹھانے، منزل تک پہنچانے میں اصل متن جیسی نازک شے کی کتنی توڑ پھوڑ ہو جاتی ہو گی، اس کا تصور آپ کر سکتے ہیں۔

            انگریزی نثر سے اسی طرح کی ایک مثال ڈان کی ہوٹے (یا ڈان کوئکزٹ) یعنی سروانٹیز کے مشہور ناول  Don Quixote سے دیکھئے۔یہاں بھی پہلا ہی جملہ زیر بحث ہے۔ اس کا سیدھا سادہ مطلب ہے کہ ’یہ قصہ ایک گاؤں کا ہے لیکن میں فی الحال اس کا نام ظاہرنہ کرنا پسند کروں گا۔‘ ملاحظہ ہو کہ انگریزی میں بعض بڑے ماہر مترجمین نے اس ایک جملے کو کس کس طرح انگریزی زبان میں منتقل کیاہے۔

            (۱)مائیکل وڈ (Michael Wood, 1995)نے حسب ذیل لفظی ترجمہ کیا ہے:

   In a place in Mancha whose name I do not want to recall.

            (۲) ولیم میٹیو(William Matteux, 1700-1712)کا ترجمہ حسب ذیل ہے، بالکل سادہ اور ہر طرح کے مضمرات سے بظاہر خالی۔لیکن وڈ کا لفظی ترجمہ بیان کنندہ کی ترجیح کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ اس گاؤں کا نام حافظے میں لانا بھی نہیں پسند کرتا۔ میٹیو کے ترجمے میں وہ ترجیح غائب ہو گئی:

At a certain village in Mancha, which I shall not name.

            (۳)جان شلٹن (John Shelton, 1612, 1620)نے اسے یوں ادا کیا ہے گویا بیان کنندہ کسی خاص وجہ سے گاؤں کا نام ظاہر نہیں کررہا ہے:

In a certain village of the Mancha, the name whereof  I purposely omit.

            (۴)ولیم آرمسبی (William Ormsby, 1885)نے تقریباًیہی لفظ رکھے ہیں، لیکن اس نے ایک لفظ بدل دیا۔ معنی وہی رہے لیکن عبارت کا نہج ذرا سا بدل گیا۔ اب لگتا ہے کہ گاؤں کا نام نہ ظاہر کرنے میں بیان کنندہ کی کوئی خاص مصلحت ہے:

In a village of La Mancha, which I prefer to leave unnamed.

            (۵)جارج پٹنم (George Putnam, 1949)کے جملے میں تھوڑی جھنجھلاہٹ یا خشکی جھلکتی ہے:

In a village of La Mancha, the name of which I have no desire to recall.

            برٹن ریفل (Burton Raffel, 1995)نے بیان کا انداز ہی بدل ڈالا۔ معلوم ہوتا ہے بیان کنندہ کی نظر میں گاؤں کے نام کی کوئی اہمیت نہیں، بلکہ نام بتانے میں سامع/قاری کو خواہ مخواہ کی الجھن ہو گی:

In a village of La Mancha (I don’t want to bother you with its name).

            آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ایک سادہ جملے کے ترجمے میں کتنے الجھاؤ پڑ گئے ہیں۔ میر کا مصرع ہیعاوصاف مو سے شعر میں الجھاؤ پڑگیا۔اور یہاں تو کوئی وصف نگاری نہیں، صرف کسی گاؤں کے نام کا معاملہ ہے، جو بظاہر کچھ خاص اہم نہیں۔ لیکن تقریباً چار سوبر س کی مزاولت کے باوجود کوئی مترجم دوسرے مترجم سے پوری طرح اتفاق نہیں کرسکا ہے۔ تو جب ایک معمولی سے بیانیہ جملے (اس طرح کا ایک جملہ ہم اوپر بھی دیکھ چکے ہیں) کے ترجمے میں اس قدر قباحتیں ممکن ہیں، تو بھلا شاعری کے ترجمے کا کیاحال ہو سکتا ہے۔

            ہمارے جن شعرا کا ترجمہ انگریزی میں سب سے زیادہ ہوا ہے،ان میں غالب سر فہرست ہیں۔ہر سال دو نہیں تو ایک سورما ضرور میدان میں اترتا ہے میں غالب کو پچھاڑ دوں گا۔لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ غالب کے تراجم نسبۃ ً  زیادہ کامیاب نہیں، خواہ وہ فرانسس پرچٹ  جیسی لائق اور محنتی خاتون کے ہوں، خواہ ایک بالکل تازہ مترجم محمدخورشید عالم کے ہوں۔عالم صاحب کے تراجم غالب امریکہ کے بعض نہایت موقر رسالوں میں شائع ہو کر خراج تحسین حاصل کر چکے ہوں۔ پڑھنے میں وہ جدید انگریزی میں، نک سکھ سے درست معاصر انگریزی نظمیں معلوم ہوتے ہیں۔جو چیز کم ہے وہ مرزا اسد اللہ خان غالب ہیں۔خیر، شاعری، اور خاص کر ہماری کلاسیکی شاعری کے معاملات تو اس قدر پیچیدہ ہیں کہ فارسی کے شعر کا اردو نثر میں بھی ترجمہ اکثر نا ممکن معلوم ہوتا ہے۔مثلاً گلستان سعدی کا یہ مشہور شعر اور اس کا محتاط ترجمہ ملاحظہ ہو    ؎

            قرص خورشید در سیاہی شد

            یونس اندر دہان ماہی شد

            اس کا ”درست“ترجمہ حسب ذیل ہوگا:

            سورج کی تھالی سیاہی میں چلی گئی۔]گویا[ یونس ؑمچھلی کے پیٹ میں داخل ہوگئے۔

            یہ ترجمہ بالکل صحیح ہے۔ لیکن اب اس ترجمے کی قباحتیں ملاحظہ ہوں:”قرص“  بمعنی ”ٹکیہ“  بھی ہے، بمعنی ”گول، موٹی روٹی“ بھی، اور بمعنی ”ڈھال“ بھی۔ اب اگر موخر الذکر معنی کو ملحوظ رکھیں تو یہ معنی بھی نکل سکتے ہیں کہ سورج ایک ڈھال تھا جو حضرت یونس کی حفاظت کررہا تھا۔ سورج ڈوبا اور حضرت یونس بلا مدافعت رہ گئے اور مچھلی نے انھیں نگل لیا۔دوسری بات یہ کہ ”سیاہی میں چلی گئی“ با محاورہ اردو نہیں ہے۔ ہمیں ”سیاہی میں ڈوب گئی“کہنا چاہیئے تھا۔ لیکن اصل شعر میں ڈوبنے کا کوئی قرینہ نہیں۔ تیسری بات یہ کہ”یونس اندر دہان ماہی شدن“ کو فارسی میں رات ہوجانے کا کنایہ قرار دیتے ہیں۔ یعنی فارسی میں ”یونس اندر دہان ماہی شد“کے معنی یہ نہیں ہیں کہ حضرت یونس ؑمچھلی کے پیٹ میں چلے گئے۔ اس کے معنی ہی ہیں کہ ”رات ہو گئی“۔ لیکن اگر ہم ترجمہ یوں کریں:

سورج کی تھالی سیاہی میں ڈوب گئی۔ رات ہو گئی۔

تو یہ ترجمہ درست ہو کر بھی درست نہ ہو گا، کیونکہ دوسرے مصرعے کے اصل معنی بالکل غائب ہوگئے، اور مصرع اولیٰ میں اردو محاورے کی پابندی کی خاطر اصل متن سے ہاتھ دھونا پڑا۔چوتھی بات یہ کہ ہمارا اصل ترجمہ ناقص اور نامکمل لگ رہا تھا، اس لئے ہمیں قلابین میں لفظ ’گویا‘ بڑھا کر ایک جملہ اور درج کرناپڑا۔

            یہاں پر لیوی اسٹراؤس (Claude Levi -Strauss)کی بات یاد آتی ہے کہ ہر زبان کا اپنا مزاج ہوتا ہے، اور یہ مزاج بسا اوقات دوسری زبان میں اس قدر ناممکن الحصول ہوتا ہے کہ کبھی کبھی انسان اپنی مادری زبان ہی ترک کرنے پر خود کو مجبور پاتا ہے۔ لیوی اسٹراؤس کی مادری زبان فرانسیسی تھی لیکن اس نے اپنا ایک اہم مضمون انگریزی میں لکھا۔ اس کی وجہ اس نے یہ بیان کی کہ جو بات وہ اس مضمون میں کہنا چاہتا تھا اس کے اظہار کے لئے انگریزی زیادہ بہتر تھی۔ اقبال نے جب فارسی کو بیش از بیش استعما ل کر نا شروع کیا تو کہا گیا کہ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ اپنا پیغام وسیع تر دنیا میں پھیلانا چاہتے تھے۔ لیکن فارسی کی بھی دنیا بس تین چھوٹے چھوٹے ملکوں تک محدود تھی اور ایران کے علاوہ کہیں بھی ذوق شعری بہت زیادہ ترقی یافتہ شاید نہ تھا۔  لہٰذایہ بھی ہو سکتا ہے کہ اقبال نے فارسی میں لکھنا اس لئے شروع کیا ہو کہ ان کی باتوں کو احاطہئ تحریر میں لانے کے لئے فارسی زیادہ مناسب تھی۔ مثلاً ”پیام مشرق“ کا ایک قطعہ ملاحظہ ہو۔ اس کی فارسی بہت آسان ہے   ؎

            ترا ازخویشتن بیگانہ سازد         

            من آں آبے طربناکے ندارم

            ببازارم مجو دیگر متاعے

            چو گل جزسینہئ چاکے ندارم

            اب اس کا ”درست“ ترجمہ دیکھیں:

            میرے پاس وہ خوشیوں بھری شراب نہیں ہے جو تجھے خود سے بیگانہ کردے۔میرے بازار میں کوئی اور مال تلاش نہ کر۔ گلاب کے پھول کی طرح میرے پاس ایک سینہ ہے، اور وہ چاک ہے۔اس کے سوا میرے پاس کچھ نہیں۔

            ترجمہ بالکل ٹھیک کہا جا سکتا ہے، لیکن”آب طربناک“ کا اردو روپ کچھ نامانوس لگتا ہے۔”خوشی آور شراب“بہتر ہوتا، لیکن وہ بھی اردو کے لئے ٹھیک نہیں معلوم ہوتا۔”مستی سے بھری شراب جو تیرے لئے غم ربا ہو“سب سے اچھا ہے، لیکن ترجمہ اصل سے دور بھی ہوگیا ہے۔اس میں اصل کے الفاظ سے زیادہ،اصل کے مفہوم کو بروے کار لایا گیا ہے۔ اردو سے انگریزی میں ترجمہ کرنے والے کے لئے یہ معاملہ اکثر مترجموں کو پیش آتا ہے کہ اصل عبارت انگریزی میں مبہم یا بے معنی معلوم ہوتی ہے اور اس کے ترجمے کو خفیہ تحریر کی طرح decode کرنا پڑتا ہے۔مگر اسے مترجم کی کامیابی نہیں کہہ سکتے۔ خیر، وہ معاملہ انگریزی کا ہے جس کی تہذیب ہی الگ ہے، روایات ہی الگ ہیں، رسومیات ہی الگ ہیں۔ لیکن اردو-فارسی-اردو کے ساتھ بھی ایسی صورت پیدا ہوجاتی ہے، جیسا کہ ہم نے ابھی دیکھا۔

            عسکری صاحب نے ایک اور بات بہت عمدہ کہی تھی کہ ترجمے میں اصل زبان کا شائبہ، یا جھلک ضرور ہونا چاہیئے۔ورنہ ہمارا ترجمہ اپنی زبان کا فن پارہ ہو کر رہ جائے گا۔ بیسویں صدی کے شروع میں ہمارے یہاں انگریزی شاعری کے منظوم تراجم کا دور شروع ہوا اور انگریزی سے منظوم تراجم بہت سے شعرا کا ا مشغلہ بن گئے۔اس وقت ترجمے کا اصول یہی رکھا گیا تھا کہ ’اردو‘ نظم کے تقاضے پورے ہوں۔ نتیجے میں بعض اچھی بری اردو نظمیں ضرور وجود میں آگئیں لیکن ان میں اصل کا بس ذرا سا شائبہ ہی تھا، اور اکثر تو یہ بھی نہ تھا۔ طباطبائی کے ترجمے ’گور غریباں‘کو بہت شہرت ملی، بلکہ بطور شاعر طباطبائی کی شہرت ہی اس ترجمے پر قائم ہے۔ لیکن یہ ترجمہ ھگہ ھگہ غلط ہونے کے علاوہ اصل کی روح سے بہت دور ہے۔ترجمے کانام پر جو فن پارہ وجود میں آیا وہ اردو کی اچھی نظم تھا، بس۔مثلاً گرے کا ایک بند ہے:

Save where from yonder  ivy-mantled tower

The moping owl doth to the moon complains                                 Of such as, wandering  near her secret bower,

Molest her ancient solitary reign.

طباطبائی نے اس بند کو اردو میں یوں منتقل کیا ہے    ؎

کبھی اک گنبد کہنہ پہ بوم خانماں ویراں

فلک کو دیکھ کر شکوؤں کا دفتر باز کرتا ہے

کہ دنیا سے الگ اک گوشہئ عزلت میں بیٹھا ہوں

کوئی پھر کیوں قدم اس کنج تنہائی میں دھرتا ہے

            طباطبائی نے اپنے بند کی ترتیب قوافی وہی رکھی ہے جو گرے کی ہے،لیکن اس کے علاوہ ان کے ترجمے میں انگریزی کا مزاج اور تاثرمفقود ہے۔ اس کو واضح کرنے کے لئے کسی تجزیے کی ضرورت نہیں،آپ خود دیکھ سکتے ہیں۔اثر لکھنوی نے ایک زما نے میں مغربی نظموں کے ترجمے بکثرت کئے تھے۔ان کا مجموعہ ’رنگ بست‘ اب بہت کمیاب ہے۔ لیکن اسے دیکھیں تو یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ اگر یہ یونانی نظم ہے جس کا ترجمہ ہم پڑھ رہے ہیں، تو اس میں یونان کہاں ہے؟ایک بند ملاحظہ ہو    ؎

آمصور مری ناہید کی تصویر بنا!

دور اس سے ہوں،تجھے شکل دکھاؤں کیوں کر!

وہ ہے مغرور نہ آئے گی بلاؤں کیونکر

سچ کہا حلیہ بیاں میں کروں تیرے آگے

مگر الفاظ میں گلدستہ سجاؤں کیونکر

صاف معلوم ہوتا ہے کہ کوئی مشرقی شاعر ہے اور اس کی خیالی محبوبہ کی تصویر بن رہی ہے۔اب ایک مثال اور دیکھ لیں۔ اصل نظم کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ انگریزی ہے۔اردو عنوان ہے ’مزدور‘۔ چند شعر    ؎

اے خواجگان خلق و خدوندگان دہر

یہ تحفہ لے چلے ہو خدا کے حضور تم!

یہ بگڑی شکل جو ہے ’عطش زار‘ جسم و روح

تم اس کے خم نکالوگے کس طرح، کچھ بتاؤ

وغیرہ۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ اس طرح کے تراجم سے اردو ادب کا کیا بھلا ہوا۔ شاید اتنا تو ہوا ہو کہ ہم لوگوں کو معلوم ہو گیا کہ باہر کے ملکوں میں بھی اردو ہی کی طرح کی شاعری ہوتی ہے۔

٭٭٭