تخلیقی زبان کا مسئلہ

یہ تحریر 2473 مرتبہ دیکھی گئی

تخلیقی زبان سے ہم وہ زبان مراد لیتے ہیں جس میں کسی موجود کے ذریعہ کسی غیر موجود کی طرف اشارہ کیا جائے۔ مثال کے طور پر سردی کی صبح کو بیان کرنے کے لئے قائم چاند پوری کا مصرع ہے ؎

صبح نکلے ہے کانپتا خورشید

تو یہاں لفظ ’سردی‘ موجود نہیں ہے لیکن سرکی دی صفت ’یعنی لرزہ پیدا کرنا‘ کا ذکر موجود ہے۔ دوسری بات یہ موجود نہیں ہے کہ سورج گرم ہوتا ہے، اور اس کے بدلے یہ بات موجود ہے کہ سورج کانپ رہا ہے گویا وہ ٹھنڈا ہو۔ اس طرح ہم نے کئی باتیں کہیں جن کے ذریعہ معنی ایسی بات کے نکلے جو مصرعے میں موجود نہیں تھے، کہ سردی بہت سخت پڑ رہی ہے تخلیقی زبان کا سب سے بڑا فائدہ یہی ہے کہ وہ ہماری گہری یا چھپی ہوئی باتوں کو بھی آسان کرکے پیش کردیتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں تخلیقی زبان اپنیت عبیر کا تقاضا کرتی ہے، وہ ہم سے کہتی ہے کہ ہماری سطح پر کچھ ہے لیکن اس کے نیچے بھی کچھ ہے جو تعبیر طلب ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ یہ ہوتا کس طرح ہے؟ یہاں پہلی بات پر غور کرنے کی ہے کہ بعض لوگوں کے خیال میں تمام زبان کسی نہ کسی معنی میں تخلیقی ہے، یعنی تمام زبان کسی پوشیدہ بات کو ظاہر کرتی ہے، اس لئے ”تخلیقی زبان“ کی اصطلاح بے معنی ہے۔ یہ بات اصولاً تو ٹھیک ہے، لیکن مشکل یہ ہے کہ زبان کے اجزا، یعنی الفاظ سرکاری سکے یا نقد کی طرح ہیں۔ اگر آپ کے پاس مثلاً سو روپیے کا نوٹ ہے تو آپ اس سے کوئی چیز خرید سکتے ہیں جس کی قیمت سو روپئے کے اندر ہو۔ پھر آپ اپنے نوٹ کو تڑا کر اس سے دس دس روپیے کے دس نوٹ بنا سکتے ہیں، یا بیس کے پانچ نوٹ، یا پچاس کا ایک نوٹ اور دو روپئے کے پچیس نوٹ بنا سکتے ہیں، وغیرہ۔ یعنی سکہئ زر اپنی حد کے اندر کوئی بھی کام کر سکتا ہے۔ کسی بھی میل یا جوڑ یا ترکیب میں ڈھالا جا سکتا ہے۔ ایسی صورت مین دو مشکلیں پیش آتی ہیں۔
پہلی مشکل تو یہ ہے کہ ہمم اپنے نوٹ سے کوئی ایسا کم لینا چاہیں جو عام طور پا اس سے نہ لیا جا سکتا ہو تو کیاکریں؟ اور دوسری مشکل یہ ہے کہ ہم یہ کس طرح ثابت کریں کہ ہمارا سو روپئے کا نوٹ آپ کے سوروپئے کے نوٹ سے اچھا ہے، یعنی ہمارا نوٹ آپ کے نوٹ سے زیادہ قیمتی ہے؟
ظاہر ہے کہ اگر ااپ ے نوٹ پر کسی بڑے آدمی کے دستخط ہوں، مثلا اس پر پنڈت نہرو نے اپنا آٹو گراف بنا دیا ہو تو وہ پھر نوٹ صرف سو روپئے کا نہیں بلکہ ہزاروں لاکھوں کی قیمت رکھ سکتا ہے۔ لیکن یہ قیمت اس روپئے کی نہ ہوگی بلکہ ان دستخطوں کی ہوگی جو اتفاقاً اس پر پنڈت نہرو نے بنا دیئے تھے۔
اچھا اگر یہ ہو کہ آپ کا نوٹ پراناکٹا پھٹا اور میرا نوٹ نیا اور چمک دار ہے تو کیا میں یہ دعویٰ کرنے میں حق بجانب ہوں گا کہ میرا نوٹ تو ایک سو ایک روپئے کا ہے لیکن آپ کا نوٹ سو روپئے سے کم کا ہے؟ ظاہر ہے کہ یہ استدلال معتبر نہیں۔
تو پھر ہم لوگ جو اپنے کٹے پھٹے پرانے نئے مڑے تڑے نوٹ لیے بازار میں گھوم رہے ہیں، ایسی کیا ترکیب کر سکتے ہیں جس کے زور پر ہم اپنے سکہ زر کو اس کی اصل قیمت سے زیادہ کا ثابت کر سکیں؟ فرض کیجئے آپ سے کسی نے پوچھا ”صاحب اس وقت کیا بجا ہے؟“ تو ظاہر ہے کہ یہ بھی زبان کا تخلیقی استعمال ہے، کیونکہ وقت کوئی بجنے والی چیز تو ہے نہیں، اور نہ ہی وقت کے ذریعہ کچھ بجایا جا سکتا ہے، اور نہ وقت کوئی راگ باجا ہے جسے بجانے کی بات ہو سکتی ہو۔ وہ تو صرف یہ ہے کہ لمحات کے گذرنے آنے اور چلے جانے کو ہم ”بجنا“ کہتے ہیں، یعنی اس لفظ کے ذریعہ وہ بات کہتے ہیں جو دراصل اس مین موجود نہیں تھی۔ لیکن یہ جملہ کہہ کر آپ نے کوئی تخلیقی کارنامہ تو انجام دیا نہیں، کیونکہ ”وقت“ کے لئے ”بجنا“ کہنا ایسا سکہ بازار میں لانا ہے جو گھس پٹ کر پرانا اور تقریباً بے قیمت ہوچکا ہے۔ اب فرض کیجئے آپ نے جواب میں کہا ”آسمان کے چراغ بجھ گئے ہیں“ تو ظاہر ہے کہ آپ نے کوئی ایسا کلمہ کہا جو وقت کو ظاہر تو کر رہا ہے لیکن اس کو ظاہر نہیں بھی کر رہا ہے۔ یعنی یہاں تو آپ ”ستارے“ کی جگہ ”آسمان کے چراغ“ کہہ رہے ہیں۔ لیکن آپ کسی اور بازار میں جاتے اور وہاں ”آسمان کے چراغ“ کا فقرہ استعمال کرتے تو ممکن ہے وہاں اس فقرے سے کچھ اور قیمت حاصل ہوتی۔ موجودہ صورت حال میں سوال جواب پر پھرغور کیجئے۔
سوال: صاحب اس وقت کیا بجا ہے
جواب: آسمان کے چراغ بجھ گئے ہیں۔
یعنی، ”صبح ہو گئی ہے۔“ لیکن آپ کے جواب میں اتنا ہی نہیں اور بہت کچھ بھی ہے۔ مثلاً یہ ہے کہ سورج ابھی نہیں نکلا ہے۔ لیکن تارے غائب ہوچکے ہیں۔ یا سورج خوب چڑھ کرنکل آیا ہے۔ یا یہ کہ آسمان کا رنگ کالے کی جگہ نیلا دکھائی دینے لگا ہے۔ یا یہ کہ رات جا چکی ہے وغیرہ۔ اور اگر مان لیجئے آپ نے کسی خاص سیاق و سباق میں یہ جملہ کہا تو اس کے معنی یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ ”صاحب آپ کو اس بات سے کیا غرض کہ وقت کیاہوا ہے۔ دیکھئے کیسے کیسے بڑے لوگ یا کیسے کیسے پیار لوگ رخصت ہوئے، اب آسمان تاریک ہوگیا، اس کی محفل اجڑ گئی۔
اب یہاں سے یہ بات نکلتی ہے کہ جب آپ زبان کو اس طرح استعمال کریں کہ اس کے ذریعہ نامعلوم کو معلوم تو کیا ہی جائے لیکن اس کے علاوہ بھی ایسی معلومات بھی مہیا کی جائے جس میں اس معلوم سے زیادہ بھی وزن ہو، یا مختلف وزن ہو، جس کو بیان کرنے کے لئے ہم عموماً زبان کا استعمال کرتے ہیں تو زبان تخلیقی ہو جاتی ہے۔ یعنی تخلیقی زبان وہ زبان ہے جو کم خرچ بالانشین ہو تی ہے۔ آپ دیتے کم ہیں اور حاصل زیادہ کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، وقت کے ہی ذخر کو آگے بڑھائیے۔ میرانیس کی ایک بیت ہے ؎

بس یک بیک جہاں میں اندھیرا سا چھا گیا
دن بھی ڈھلا نہ تھا کہ زوال ان پہ آگیا

ظاہر ہے کہ دوسرے مصرعے میں دو معلومات ہیں اور دونوں کا تعلق وقت سے ہے۔ ایک تو یہ کہ سورج ابھی زوال کی طرف مائل بہ تھا، یعنی عصر کی نماز کا وقت نہ ہوا تھا۔ دوسری معلومات یہ کہ کوئی سورج ایسے بھی تھے جن پر سورج کے زوال کے پہلے زوال آگیا اور اس زوال کے باعث دنیا میں اندھیرا سا چھا گیا۔ اس دوسری معلومات کے لیے شاعر نے ”زوال“ کا لفظ لکھا ہے جس کے معنی اور ”ڈھلنا“ کے معنی میں کوئی فرق نہیں۔ لیکن فرق ہے بھی۔ بادشاہوں کا زوال، حکومتوں کا زوال، تہذیبوں کا زوال، ترقی کی منزل میں متمکن لوگوں کا زوال، اخلاق کا زوال، بہت سے حالات ہیں جہاں ”ڈھلنا“ کا لفظ ٹھیک نہیں معلوم ہوتا اگرچہ اس کے معنی ”زوال“ ہی کے ہیں۔ اس طرح ”ڈھلا“ اور ”زوال“ کی باریکی کو ملحوظ رکھ کر میر انیس نے دولت بہت کم خرچ کی لیکن مال بہت سا را خرید لائے۔ پھر لفظ ”بھی“ پر غور کریں۔ دن تو روز ہی ڈھلتا ہے، دن کا ڈھلنا کوئی عجوبہ بات نہیں۔ لیکن وہ لوگ کون تھے کہ ایک معمولی واقعے یعنی زوال روز کا بھی انتظار ان پر بھاری کردیا گیا اور دن چھپنے کے پہلے ہی وہ منھ چھپا گئے؟ ظاہر ہے کہ یہاں ہمیں کچھ اور معلومات بہم پہنچائی جا رہی ہے جو مصرعے کے الفاظ کے ماورا ہے۔
لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ اگر چہ تمام زبان تخلیقی ہوتی ہے، یعنی تعبیر کے عمل کے ذریعہ معلوم کو نامعلوم کرتی ہے، وہ زبان صحیح معنی میں تخلیقی ہوتی ہے جو کم سے کم معلوم کے ذریعہ زیادہ سے زیادہ نامعلوم چیزوں پر مطلع کرے۔ دوسرے الفاظ میں، زبان جتنی زیادہ تخلیقی ہوگی اتنا ہی زیادہ تعبیر کا تقاضا کرے گی۔
اسی بات کو یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ جب دال اور مدلول (یعنی لفظ اور معنی) میں برابری کا رشتہ نہ ہواور مدلول کی قیمت دال سے زیادہ تو تخلیقی زبان وجود میں آتی ہے۔ یعنی تخلیقی زبان معنویت زیادہ ہوتی ہے۔
اب سوال اٹھنا لازمی ہے کہ ایسا ہوتا ہے کس طرح ہے؟ تو پہلی بات سمجھ لینے کی ہے کہ تخلیقی زبان اور عام زبان میں وہی رشتہ ہے جو پیڑ اور پھل میں ہوتا ہے۔ پیر کسی رنگ اور طور کا ہے تو پھل کسی اور رنگ اور طور کا۔ جب تک پیڑ پر پھل نہ آئے ہم کچھ نہیں کہہ سکتے کہ پیڑ دراصل کیا ہے۔ پیڑ وہ زبان ہے جسے ہم ہر وقت استعمال کرتے ہیں اور پھل اس کا جوہر ہے۔ پیڑ ایک ہے پھل طرح طرح کے ہیں، چھوٹے، بڑے، کم میٹھے، زیادہ میٹھے، خوش رنگ، کم خوش رنگ، زیادہ پکے، ادھ کچے وغیرہ۔
تو زبان کے پیڑ پھل کیا ہے؟ انھیں تشبیہ، استعارہ، پیکر، کنایہ، مجاز مرسل، علامت وغیرہ اصطلاحوں سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ جس زبان میں یہ عنار زیادہ ہوں گے اور برمحل ہوں گے وہ زبان تخلیقی ہوگی۔ آخر کوئی وجہ تو ہوگی کہ منٹو کی زبان کو بہت تخلیقی کہتے ہیں؟ وجہ ظاہر ہے کہ منٹو کی تشبیہیں ان کی عبارت کے معنی میں اضافہ کرتی ہیں۔ کوئی وجہ تو ہوگی کہ بیدی کی زبان کو بے حد تخلیقی کہا جاتا ہے؟ ظاہر ہے کہ وجہ یہی ہے کہ بیدی کے یہاں پیکر کثرت سے آتے ہیں، یعنی ایسے الفاظ کثرت سے آتے ہیں جن سے ہمارے حواسِ خمسہ میں سے کوئی حس، یا ایک سے زیادہ حواس متحرک ہوتے ہیں۔ بیدی کے افسانے ”اپنے دکھ مجھے دے دو“ میں ایک جگہ مدن کو محسوس ہوتا ہے۔
”نکڑ پر کبھی اندھیرے کی تکون بنتی ہے کہ اوپر کھٹ سے روشنی کی ایک چوکور اسے آکر کاٹ دیتی ہے۔ کوئی تصویر پوری نہیں بنتی۔ معلوم ہوتا ہے بغل سے ایک پاجامہ نکلا اور آسمان کی طرف اڑگیا یا کسی کوٹ نے دیکھنے والے کا منھ پوری طرح ڈھانپ لیا اور کوئی سانس کے لیے تڑپنے لگا۔“
اس چھوٹے سے اقتباس میں تشبیہوں کو نظر انداز کر دیجئے۔ اس بات پر غور کیجئے کہ روشنی، حرکت، ہوا، وسعت دم کی گھٹن، اندھیرے اور اجالے کی انوکھی شکلیں، اندھیرا اور ناک مجھ کے بند ہونے کا تشنج، اس طرح کی کتنی ہی باتیں ہیں جو باتوں باتوں میں ہلکے پھلکے الفاظ کے ذریعہ اس انداز سے کہہ دی گئی ہیں کہ ہماری تمام قوت احساس بیدار ہوجاتی ہے۔ تخلیقی زبان کا یہ ایک پہلو ہے، ورنہ یہ تو بت ہزار شیوہ ہے ؎

زلف ساپیچ دار ہے ہر شعر
ہے سخن میر کا عجب ڈھب کا
٭٭٭