ایک عاجزانہ التماس: کیا ہمیں اردو ادب کی ایک موزوں تاریخ نصیب ہوسکتی ہے؟

یہ تحریر 2016 مرتبہ دیکھی گئی

(کلیدی خطبہ: اردو فیسٹ 2008، یونیورسٹی آف ورجینیا، شارلٹس وِل Charlottesville، امریکہ، 12ستمبر2008) انگریزی سے ترجمہ


(۳)

یہ مان لینے کے بعد کہ ہم اردو ادب کی تاریخ کے لیے

کوئی نمونہ ابھی تک وضع نہیں کر پائے ہیں، میری پہلی ترجیح یہ ہونی چاہیے کہ اس طرح کا ماڈل وضع کیا جائے۔ اب جو آگے آئے گا وہ کوئی ماڈل نہیں بلکہ ان واضح اور آشکارانکات کی فہرست ہے جو اردو ادب کی کسی تاریخ میں ہونے یا بالکل نہ ہونے چاہئیں۔ حاضریوں اور غیر حاضریوں کی یہ فہرست میرے اُن تجربات کی آئینہ دار ہیں جو مجھے اردو ادب کی ڈھیروں تاریخوں کے مطالعے یا ورق گردانی کی بدولت حاصل ہوئے ہیں۔ میں آشکارا باتوں، مثلاً تاریخوں datesکی درستی کا ذکر نہیں کروں گا۔ اب تک تاریخ کی ایسی دو کتابیں بھی مجھے نہیں ملی ہیں جن میں کسی ایک واقعے کے رونما ہونے کی یکساں تاریخیں دی گئی ہوں،یہاں تک کہ پیدائش یا وفات کے معاملوں میں بھی نہیں۔ ایسی دو تاریخی کتابیں بھی نہیں ہیں جن میں تاریخ درج کرنے کے سلسلے میں کوئی مستقل وطیرہ اپنایا گیا ہویا تاریخِ ولادت و وفات،یا کسی مصنف کے سوانح عمری اور مقامِ پیدائش بتانے کامستقل طریقہ اختیار کیا گیا ہو۔ میرے علم میں تاریخ کی کوئی کتاب ایسی نہیں جس میں کسی ممتاز ترین مصنفین کی بھی اہم ترین تخلیقات کی تکمیل یا اشاعت کی تاریخیں دی گئی ہوں۔ یہ نقص مسلسل محنت سے دور کیے جاسکتے ہیں، اگرچہ یہ مسلسل محنت ادبی تاریخ کے ہمارے قدیم نظریے کی بنیاد بھی بن سکتی تھی جو ادب کو محض ایک مستقل تسلسل کی شکل میں دیکھتا ہے، ایک دوسرے سے منسلک یا الگ الگ واقعات کے سلسلے کی شکل میں نہیں۔
تاریخ دانوں سے خاص الجھن مجھے ان فرضی کہانیوں کی وجہ سے ہوتی ہے جنھیں وہ جانچ پڑتال کیے بغیرقبول کر تے ہیں یا جارحانہ وطن پرستی کے کسی مقصد کے تحت گھڑ لیتے ہیں۔ سب سے زیادہ مشہور مفروضہ اردوکی پیدائش سے تعلق رکھتا ہے۔ ہر شخص یقین سے مانے بیٹھا ہے کہ اردو مسلمانوں کی لشکر کشی کی وجہ سے یا ان کے دورِ حکومت میں پیدا ہوئی، اورچونکہ غیر ملکی سپاہ کوروزمرہ ضرورتوں کی تکمیل کے لیے مقامی آبادی سے ہم کلام ہونا پڑتا تھا چنانچہ یہ ضرورت اردو کے وجود میں آنے کا سبب بنی۔اس تھیوری کو سچ بنانے کے لیے زبان کے نام ’اردو‘ کو ثبوت میں پیش کردیا جاتا ہے جس کے معنی بیان کئے جاتے ہیں ’لشکر‘۔تاریخ دانوں نے اس پر توجہ ہی نہیں دی کہ ہماری زبان کو ’اردو‘ کہنے کا رواج اٹھارویں صدی کے آخرمیں پڑاتھا۔اس وقت اگر غیر ملکی افواج یہاں تھیں وہ مسلمانوں کی نہیں تھیں۔اس لیے نام نہاد حملہ آور یا قابض مسلمانوں کی فوجوں سے اس کا کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ اس وقت جو غیر ملکی فوج ہندوستان میں موجود تھی وہ مسلمانوں کی نہیں یورپ والوں کی تھی۔ گراہیم بیلی اور محمود شیرانی نے اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کی کہ کیوں اور کیسے یہ زبان اپنی پیدائش پر کئی صدیاں گذر جانے کے گذر جانے بعد ’اردو‘ کہلانے لگی تھی۔ وہ کسی نتیجے پر نہیں پہنچے، لیکن بعد کے علما اور مورخین نے یہ سوال ہی نہیں اٹھایا۔
’اردو‘کی پیدائش کے فوجی مفروضے کے ساتھ یہ مفروضہ بھی وابستہ ہو جاتا ہے کہ اس سے پہلے ایک ابتدائی زبان تھی جس سے اردو اور ہندی دونوں زبانوں نے جنم لیا۔ کچھ ماہرینِ لسانیات نے اس کا ذکر ’مغربی ہندی‘کے طور پر کیا۔ دوسرے لوگوں نے اسے ’کھڑی بولی‘کا نام دیا اور یہ چپک کر رہ گیا۔ اردو زبان یا ادب کے کسی تاریخ داں نے اپنے طور یہ واضح حقیقت بیان نہیں کی کہ کھڑی بولی دراصل اردوتھی(جوپہلے ہندی/ہندوی/ریختہ وغیرہ کہلاتی تھی) اور جدید ہندی کھڑی بولی،اردو کی ہی ایک شکل ہے۔ زبان کی پیدائش کے اس ٹیڑھے ترچھے تصور نے اردو کی فطرت سے متعلق ہمارے نظریے کو حقیقت سے دور پھینک دیا۔اردو میں چونکہ فارسی-عربی لفظیات کی کثرت ہے اور عربی ا ور فارسی چونکہ اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقوں کی زبانیں تھیں اس لیے یہ نظریہ رواج پاگیا کہ اردواگرہر جگہ کے اونچے طبقے کی زبان نہ بھی ہو تب بھی وہ ایک شہری زبان ہے۔اسی وجہ سے با اثر حلقوں میں ہندی کو ’کھردری‘ یا ’دیہاتی‘ یا پھر ’گنواروں کی‘ زبان سمجھا گیا۔گارساں دتاسی اور سر سید احمد خاں جیسے مختلف الخیال لوگ بھی،جو کہ دونوں ہی اردو کے عاشق اورحامی تھے، اسی خیال کے حامل تھے۔ سید احمد خان اور دتاسی نے مختلف لہجوں اور بولیوں کو’ہندی‘فرض کیا۔ حتیٰ کہ اردو کے مصنف بھی یہ ماننے کی حماقت کر بیٹھے کہ اردو ایک شہری زبان ہے جس کی ’عوام‘ میں کوئی بنیا د نہیں ہے۔ ترقی پسند لوگ یہ بات بڑے شوق اور شورسے کہا کرتے تھے۔ اس قسم کی خیال آرائی نے اردو اور ہندی بولنے والوں کے پہلے سے خراب رشتوں کو اور کتنا بگاڑا تاریخ دانوں کو اس کا جائزہ لینا چاہیے۔
ایسا لگتا ہے کہ اردو ادب کے تاریخ نگاروں کے شعور کو زبان کا نظریاتی تنازعہ چھو ہی نہیں سکا۔ حالانکہ اس کی بنیاد 1857کے فوراً بعد پڑ چکی تھی اور جو اگلی صدی میں بھی سر گرم رہا،اور جس نے اردو میں ادب کی تخلیق اور ادبی نظریے دونوں کو متاثر کیا
غیر اردو داں حلقوں میں یہ خام خیالی عام پائی جاتی ہے کہ اردو مغلوں کی، مسلم حکمراں ریاستوں کی اور یقینی طور پر اودھ کی ’عدالتی زبان‘ یا ’سرکاری زبان‘تھی۔ اس غلط تصور (یا یقین) کی بنا پر زبان کے معاملے میں اور بھی پیچ پیدا کئے اور اس کی وجہ سے اردوکومنفی تشہیر ملی۔ ہمارے تاریخ دانوں نے اس طرف کوئی توجہ نہیں کی اور 1930کے عشرے میں عثمانیہ یونیورسٹی کے بارے میں اچھی اچھی باتیں کہتے وقت وہ یہ بات گول کر گئے کہ اردو کوریاستِ حیدراباد کی سرکاری زبان کا درجہ 1920کے عشرے میں دیا گیاتھااور یہ کہ اردو مغلوں یا اودھ کے حکمرانو ں کی سرکاری یا عدالتی زبان کبھی نہیں رہی۔ 1835سے1837کے درمیان برطانوی حکمرانوں نے ضرور اردو کو بنگال، شمالی مغربی صوبہ (جواَب جدید ہندوستانی ریاست اترپردیش کا حصہ ہے) اور مرکزی یا وسطی صوبہ جات(جو جدید ہندوستان کے مدھیہ پردیش میں آتے ہیں) میں عدالتوں کی زبان کے طور پر متعارف کرایا تھا۔اس سے فارسی دانوں، مسلمانوں اور بہت سے ہندوؤں کے بھی جذبات مجروح ہوئے، لیکن جہاں تک ہمارے تاریخ نویسوں کا تعلق ہے ان کے لیے غالباً یہ کوئی معاملہ ہی نہیں ہے۔
اردو میں ادبی تاریخ نگاری کا جھکاؤ ہمیشہ دہلی کی طرف رہا ہے اورعمومی طور پر یہ رجحان آج بھی ہے۔ باوجود اس کے کہ پہلے گجری اوربعد میں دکنی نام سے جس زبان اور ادب کو فروغ ملا، وہ سراسر اردو تھی۔یہی وہ ہے کہ اسے اکثر ہندی بھی کہا گیا۔ 1930کے عشرے میں نصیرالدین ہاشمی اور محی الدین قادری زور کی مساعی کے نتیجے میں یہ حقائق نقشے پر آچکے تھے۔ انجمن ترقی اردو کے جنرل سیکریٹری مولوی عبدالحق اور انجمن کے جریدے ’اردو‘ نے بھی اس بازیافت میں مدد کی۔ دہلی ہمارے تاریخ نگاروں کے ذہنوں پر کس قدر چھائی ہوئی، اس کا ثبوت یہ ہے کہ وہ دہلی کے باہریا دہلی کے علاوہ ادبی سرگرمیوں کے کسی اور مرکزسے تعلق رکھنے والے ادیبوں کووہ جائز مقام نہیں دیتے جس کے وہ مستحق ہیں۔البتّہ لکھنؤ کچھ وقت تک اس سے کسی قدر مستثنیٰ رہا۔ ولی دکنی/ولی گجراتی (1667/1668تا1707/1708) کو، جنھوں نے دہلی میں اردو زبان اور شاعر ی کو اپنی شاعری سے نہ صرف متاثرکیا بلکہ درحقیقت ان ہی کی بدولت اس کا آغاز بھی ہوا، طویل عرصے تک ان کے بنیادی کردار سے محروم رکھا گیا۔ جمیل جالبی نے تو ان کی تاریخِ وفات کو بھی موخرکرنے کی کوشش کی تاکہ ان کی شاعری پر ’دہلی کے جاری رہنے والے اثر‘کو کمک پہنچائی جا سکے۔
ہمارے تاریخ نگاروں میں یہ مفروضہ عام ہے کہ رعایتِ لفظی،بالخصوص ایہام گوئی بڑے بھاری عیب ہیں۔ جب انھوں نے دیکھا کہ اٹھارویں صدی میں دہلی کے شعرا ہر قسم کی رعایتِ لفظی سے خاص رغبت رکھتے تھے تو انھوں نے فوراً ایہام گوئی کی ایک ’تحریک‘ ایجاد کردی، جو تب تک چلتی رہی جب تک برگزیدہ روحوں اور متین ذہنوں نے ’اصلاحات‘ نافذ نہیں کردیں۔ انھوں نے اس ’تحریک‘ کے اسباب یا محرکات بیان کرنے کی بھی زحمت نہیں کی۔جب شاہ حاتم (1699تا 1783) نے اپنا’دیوان زادہ‘ (1755) مرتّب کیا اور اپنے مختصر پیش لفظ میں شعری زبان میں تبدیلیوں کے بارے میں کچھ باتیں لکھیں اور بتایا کہ اس ضمن میں خود انھوں نے کیا کچھ کیا ہے، تو ہمارے تاریخ نگاروں نے فوراً اسے لپک لیا اور ایک دوسری ’تحریک‘ایجاد کر ڈالی جسے ’زبان کی اصلاح‘ کی ’تحریک‘ کہا گیا۔اس کے تحت اردو کو سنسکرت آمیز اور برج بھاشائی الفاظ سے ’پاک صاف‘ کرنے کی ’تحریک‘چلی۔
ہمارے مورخوں اور نقادوں نے اس زمانے کی اصل شاعری پر نظر ڈالے بغیراعلان کردیا کہ حاتم یا مرزا مظہر جانِ جاناں (1699 تا 1781) نے اس ’اصلاحی تحریک‘ کو آگے بڑھایاتھا۔وہ نہ تو شاعری کو پڑھنے کے لیے رُکے، نہ یہ سمجھنے کی کوشش کی کہ دوسرے انسانوں کی طرح شاعر کے ساتھ یہ لازم نہیں ہے کہ جو کچھ وہ کہہ رہا ہو ویسا ہی وہ کر بھی رہا ہو۔انھوں نے یہ بھی نہیں سوچا کہ حاتم نے جو کچھ کہا وہ کسی ادبی سیاست کا معاملہ بھی ہو سکتا ہے۔
بعد میں ’تحریک برائے اصلاحِ زبان‘ کے تعلق سے ہمارے تاریخ نویسوں نے جوشیلے بیانیوں سے یہ مفروضہ قائم کرنے کی کوشش کی کہ زبان ایک غیر مہذب،جنگلی یا بیمار مخلوق ہے جسے نظم و ضبط اور علاج کی ضرورت ہے اور یہ کہ زبان میں تبدیلیاں عوام نہیں بلکہ اساتذہ لاتے ہیں۔اور انھیں ہی زبان کو ایک خاص طرزِ سخن دینے،’تراشنے‘ اور’سدھارنے‘ کا حق حاصل ہے۔
سیاسی اور سماجی تاریخ کی دنیا میں شاہ حاتم اور میرزا مظہر جانجاناں شہیدسے منسلک مفروضوں سے اردوکو بدنامی ملی اور اس مروجہ نظریے کو تقویت حاصل ہوئی کہ اردو اعلیٰ طبقے کے لوگوں کی زبان ہے جس میں اودھی یا برج بھاشاجیسی تمام مقامی زبانوں اور یقینی طور پر ہندی کو بھی حقارت کی نظر سے دیکھا گیا، اور یہ کہ یہ دراصل’ہندی‘ کی بد عنوانی تھی جس سے اردو کو پاک کرنے کا مقدس فریضہ ہمارے بزرگوں نے اٹھارویں صدی کی دلی میں انجام دیا۔۔
ایک اور قصہ جسے ہمارے تاریخ نگاروں نے بڑھ چڑھ کر پالا پوسا، یہ ہے کہ پوری اٹھارویں صدی شاہی نظام کے انحطاط کی صدی تھی۔ خاص طور سے دہلی میں اس صدی کے دوران لوٹ مار اور غارت گری کا دور دورہ رہا۔ اس کے نتیجے میں، بقول اُن کے، اردو ادب کے ساتھ کئی طرح کی باتیں ہوئیں:شعرا بڑی تعداد میں دہلی چھوڑ گئے، جس سے یہ شہر تخلیقی طور سے بانجھ ہوگیا۔اس کے علاوہ شاعردکھ درد اور رنج وغم کی شاعری کرنے لگے۔ میر کی شاعری کو افسردگی، بے دلی اور زندگی کے قنوطی تصور کی انتہائی شکل کے طور پر پیش کیا گیا۔شاعر ذہنی طور پر ’داخلیت‘ اور متصوفانہ خیالات کی طرف مائل ہونے لگے۔شاعروں نے متعدد ’شہر آشوب‘ نظمیات میں شاہی حکومتوں،بالخصوص دہلی کی بادشاہت کے درد ناک حالات بیان کیے اور یہ تخلیقات اُس افسوس ناک افراتفری کا ثبوت بن گئیں جو اُن دنوں دہلی کا مقدر بنی ہوئی تھی۔یہ ’اخلاقی زوال‘ کا بھی دور تھا۔ پیشہ ور رقاصاؤں کے لیے اس زوال سے بہتر کچھ نہیں ہو سکتا تھا ۔چنانچہ دلی ہر طرح کی بد اخلاقی کا گھر بن گئی۔اس پر طرہ یہ کہ ہم جنسی کا رجحان چاروں طرف مقبول ہو گیا۔کچھ تاریخ نویسوں نے ازراہِ کرم پردے کے رواج کو اِن بیرونِ خانہ جنسی رویّوں کا سبب قرار دے دیا جو دہلی کی اردو شاعری میں کہیں کہیں نظر آتے ہیں۔ وہ بڑے آرام سے یہ بات بھول گئے کہ قدیم یونان یا متعدد دیگر ثقافتوں میں پردے کا کوئی رواج نہیں تھاجو ’پیشہ ور رقاصاؤں‘یا ہم جنسی محبت کے لیے مانع ہو سکتا،لیکن یہ باتیں وہاں بھی عام تھیں۔
یہ سب باتیں یا تو جھوٹ ہیں یا صرف آدھا سچ۔لیکن برسوں سے یہ ہمارے تاریخ نگاروں کے متون کی خوراک بنی رہی ہیں۔ذرا اور پہلے کے دور میں جائیں تو ’آبِ حیات‘ میں بھی اس کے بہت سے نمونے مل سکتے ہیں۔ تاہم ان قصے کہانیوں نے، غیر شعوری طور پر ہی سہی، مزید کہانیوں کو جنم دینے میں بھی مدد کی ہے۔ایک کہانی انیسویں صدی کی دہلی میں انگریزوں کے ’قیامِ امن‘کی کہانی ہے جس کو 1803کے دوران دہلی میں مرہٹوں پر جنرل لیکLake General کی فتح نے نقطہئ آغاز فراہم کیا۔ اس ’انگریزی امن‘نے ایک اور افسانے کو بنیاد دے ڈالی: یہ تھا ’نشاطِ ثانیہ‘ کا افسانہ کہ دہلی میں ادب کے بشمول سب کچھ پھلنے پھولنے اور بہتر ہونے لگا۔
دہلی پر فتح کم و بیش اسی دور سے تعلق رکھتی ہے جب کلکتہ کے فورٹ ولیم کالج میں اشاعتی سرگرمیوں کا آغاز ہواتھا۔ اردو نثر سے متعلق جو کام انگریزوں کی بدولت اس کالج میں ہوئے اور چھپ کر سامنے آئے وہ ادب کا کام کرنے کی نیت سے نہیں کیے گئے تھے۔ وہ انگریزوں کی ایسٹ انڈیا کمپنی کے سوِل ملازمین کے لیے اوسط درجے کا مدرّسانہ نوعیت کا مواد مہیا کرنے کے لئے تھے۔’ادبی خدمت‘ ان کی ترجیح نہ تھی۔لیکن ہمارے تاریخ نویس اسے نہ صرف اردوادب کے لئے کار آمد قرار دینے پر اصرار کرتے ہیں بلکہ وہ یہ بھی کہتے یا جتاتے ہیں کہ یہ کام جدید اردو نثرکا نقطہئ آغاز ہے جو ابھی تک مصنوعی، آرائشی اور عملاً غیر مفید ہوا کرتی تھی۔ اگرچہ بعد کے کچھ تاریخ نویسوں نے سادہ اور افادیتی اردو کے 1800سے بہت پہلے کے کئی نثر پاروں کے وجود کا ذکر کیا ہے، لیکن ان پر کوئی توجہ نہیں کی گئی۔ کسی تاریخ نگار نے فورٹ ولیم کے نثر نگاروں کی ادبی اور تاریخی قدروقیمت کا حساب لگانے کی بھی زحمت نہیں گوارا کی۔ ہم سب آج بھی فورٹ ولیم کالج کو اپنی ادبی تاریخ کا بے حد اہم مقام سمجھنے پر ضرورت سے زیادہ توجہ دیتے ہیں۔ فورٹ ولیم میں تیارشدہ اردو کتابوں میں سے کچھ انیسویں صدی کے نصفِ آخر میں بنگال کے ہائی اسکول کلاسوں کے تعلیمی نصاب کا حصہ بن گئی تھیں۔ اور یہی ان کی اصل حقیقت تھی:وہ محض درسی کتابیں تھیں جو ایک خاص ضرورت کے تحت لکھی یا لکھوائی گئی تھیں اور ان کے ذریعہ کسی ’ادبی خدمت‘ کی انجام دہی کا کوئی منصوبہ تھا۔ فورٹ ولیم کی کتابوں کووہی مقام ملنا چاہیے جس کی وہ مستحق ہیں: اردو ادب کی تاریخ کے حواشی میں۔
نوآبادیاتی -سامراجی ایجنڈے کو، جوفورٹ ولیم کالج میں اردو اور ہندی کی کتابیں تیار کرانے کے پسِ پشت کار فرما تھا، یا تو نظر انداز کردیا گیا یا اس کی جانچ پڑتال سرسری انداز میں کی گئی۔لیکن ہندوستان کے لسانی میدان میں اردو جس جگہ پر قابض تھی اس کے لیے جان گلکرسٹ نے جو مختلف تجاویز سامنے رکھیں اور قدم اٹھائے،ان کی ستائش کرنے والوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ اسی طرح، جدید ہندی کو اردو سے الگ اور ممیززبان قرار دینے میں کالج نے جو کردار ادا کیا اس کا مکمل جائزہ بھی ابھی تک نہیں لیا گیا ہے۔
لکھنؤ اور پھر کلکتّہ کواردوکے نئے مراکزکے طور پر ابھرنے کی وجہ سے سے تاریخ نویسوں کو دوسرے اور پہلے سے موجودجنوبی اور مشرقی مرکزوں، خاص طور پر جنوب میں حیدرآباد، اورنگ آباد اور ویلّور،اور مشرق میں الٰہ آباد، عظیم آباد اور مرشدآباد سے توجہ ہٹانے میں مدد ملی۔ عام تاریخ نگاروں نے شاذو نادر ہی اپنی نگاہ کو لکھنؤ اور دہلی سے آگے جانے دیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ یہ علاقے آج اردو ادب کے اوسط درجہ طالب ِ علم کے ذہنی افق سے نیچے چلے گئے ہیں۔ مثلاً، ہم میں سے بہت کم یہ جانتے ہوں گے کہ شاہ غلام یحییٰ انصاف الٰہ آبادی (وفات1780) نے بڑی پرلطف مزاحیہ نظمیں لکھی تھیں اور وہ اردو کے شاید پہلے شاعر تھے جس نے خود کو مزاحیہ شاعری کے لیے وقف کر دیا تھا۔
شاعروں کا دہلی سے لکھنؤ ہجرت کرجانا ایک اور طرح سے سود مند تھا۔ لکھنؤ اٹھارہویں صدی کے اواخر سے اردو ادب کا ایک اہم مرکز بن گیا تھا۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ لکھنؤ دراصل دہلی کی وجہ سے ابھر پایا جس نے اس کے ادبی منظر کو متعدد اعلیٰ درجے کے شاعروں سے رونق بخشی۔ دونوں شہروں یا ان کی ثقافتوں میں کچھ کشیدگیاں تھیں جن کا سبب صرف ادبی اختلافات نہیں تھے۔ مثال کے طور پر انشا اپنی تصنیف ’دریائے لطافت‘ (1807) میں، دہلی کے شعرا کے مقابلے میں لکھنؤ کے شعرا کی کھل کر ملامت کرتے ہیں کیونکہ وہ یہ ظاہر کرنا چاہتے تھے ان کے سرپرست نواب سعادت علی خاں کا خاندانی حسب و نسب چونکہ دہلی سے وابستہ تھا اس لیے وہ دہلی کی تہذیب کے اصل ترجمان ہیں جو کہ قدیم بادشاہت کے دوردراز علاقوں کی تہذیب سے واضح طور پرً اعلیٰ تر تہذیب تھی۔ لکھنؤ کے شاعروں نے دہلی کی تہذیب اور ادبی طرزِ ادا سے خود کو الگ اورمختلف دکھانے کی کوئی موثرکوشش نہیں کی۔
عبدالسلام ندوی نے جب اردو شاعری پر اپنے مخصوص انفرادی، غیرمنظم لیکن نرم انداز میں ’شعرالہند‘ لکھی تو یہ سب بدل گیا۔ اپنی کتاب کی پہلی جلد(1925) میں انھوں نے اعلان کیا کہ اردو شاعری کے دو ’اسکول‘ ہیں:دہلی اسکول اور لکھنؤ اسکول۔ دونوں ’اسکولوں‘ کی امتیازی خصوصیتوں کا خلاصہ کرتے وقت عبدالسلام ندوی نے لاپروائی کے ساتھ تعمیمات سامنے رکھیں اور لکھنؤ کا چہرہ ہمیشہ کے لیے داغ دار کر دیا۔یہ واضح نہیں ہے کہ انھوں نے دہلی اور لکھنؤ کی شاعری کا بھرپور مطالعہ کیا تھا یا نہیں۔ ان کی دی ہوئی مثالیں سرسری نوعیت کی ہیں اور چند ہی شاعروں تک محدود ہیں۔ لکھنؤ کی شاعری کا وصف ان کے بقول اس کی ’خارجیت‘ ہے جب کہ دہلی کی شاعری میں ’داخلیت‘ پائی جاتی ہے۔ خارجیت کے خاص پہلو یہ بتائے گئے:رعایتِ لفظی کا حد سے بڑھا ہو اشوق جن میں زیادہ تر بے ذائقہ ہوتی ہیں، زنانہ ملبوسات اور بناؤ سنگھار وغیرہ کے لوازم پر مبالغہ آمیزانداز میں متوجہ رہنا، فارسی تراکیب و لفظیات کا بہت کم اور محتاط استعمال،متصوفانہ مضامین میں عدم دلچسپی، لڑکوں سے رغبت نہ ہونا۔ یہ سب چیزیں مل کر’دہلویت‘ کے مقابلے میں ’لکھنویت‘ بن گئیں۔
حالانکہ ’اردو شاعری کے دو اسکولوں‘کی اصطلاح کومکمل مقبولیت نہ مل سکی، لیکن ’لکھنویت‘ اور ’دہلویت‘ یا ’خارجیت‘ و ’داخلیت‘ کے دو ادبی زمروں کے طور پر یہ ہمارے تاریخ نویسوں کے واضح یا غیر واضح مفروضات میں اب بھی مقبول ہے۔
اٹھارویں صدی کے آخری پچیس تیس برس اور انیسویں کا نصف اول، عموماً ’خیال بندی‘ کے شباب کا زمانہ تھاجو بڑی حد تک اُسی طریقِ سخن سے ملتی جلتی ہے جسے انگریزی میں مابعد الطبیعیاتی(metaphysical)شاعری مانا جاتا ہے۔اس کا اثر مصحفی (1750تا1824)پر بھی پڑا جنھوں نے کہا کہ اپنا طرزِ سخن انھوں نے اپنے شاگرد آتش (1777تا 1847) کے اندازِ شعر کو ترجیح دیتے ہوئے تبدیل کر دیا ہے۔ آتش ایک نئے انداز میں شعرکہتے تھے جو بڑا پر لطف اور سراسر خیال بندی پر مبنی تھا، لیکن انھیں ’داخلیت‘ اور ’دہلویت‘ کا نمونہ مان لیا گیا۔ اس وقت لکھنؤ کے دوسرے عظیم شاعر ناسخ (1776تا 1838)تھے، جو صاف صاف خیال بند تھے۔ناسخ کی شہرت کی اس زمانے میں کوئی نظیر نہ تھی اس کے باوجود کہ دونوں شاعروں کے شعری اوصاف میں کوئی خاص فرق نہیں تھا، یہ بات مشہور کی گئی کہ ناسخ عملاًشاعر ہی نہیں ہیں اوروہ کچھ نہیں ہیں مگر مکروہ ’لکھنویت‘ کے اعلیٰ ترین نمونے ہیں۔اور آتش درحقیقت ایک صوفی ہیں اور ’دہلویت‘ کی ترجمانی کرتے ہیں۔ ناسخ کی شہرت تا حال بحال نہیں ہوئی ہے۔ شاہ نصیر (1760/61تا 1838) جوخیال بندی کا آغاز کرنے والوں میں اہم ترین شاعر تھے۔وہ، اور ذوق (1788تا1854) اُن کے شاگردِ عزیز، دونوں ادب میں حاشیے پر چلے گئے۔ اگر چہ محمد حسین آزاد جو ذوق سے بے حد محبت رکھتے تھے، ذوق کی پرستاری پر قائم رہے، لیکن ان کی ایک نہ سنی گئی اور یہ مفروضہ عام کیا گیا کہ ذوق کو بمشکل ہی غزل کا شاعر کہا جاسکتا ہے، وہ قصیدہ نگار ہوں تو ہوں۔

جاری ہے۔۔۔۔۔