ایک عاجزانہ التماس: کیا ہمیں اردو ادب کی ایک موزوں تاریخ نصیب ہوسکتی ہے؟

یہ تحریر 2034 مرتبہ دیکھی گئی

(کلیدی خطبہ: اردو فیسٹ 2008، یونیورسٹی آف ورجینیا، شارلٹس وِل Charlottesville، امریکہ، 12ستمبر2008)
انگریزی سے ترجمہ

(۲)


میں یہ ضرور کہوں گا کہ اردو ادب کے مورخین یا ناقدین اُن حقیر و کمزورمتون کے لیے پوری طرح موردِ الزام نہیں ٹھہرائے جاسکتے جو انھوں نے تاریخ کے طور پر پیش کیے ہیں۔ ان کی دو بڑی مجبوریاں تھیں۔ پہلی یہ کہ اردو کو جنم دینے والی تینوں قدیم زبانوں، فارسی، عربی اور سنسکرت میں ادب کی تاریخ کے نمونے نہیں پائے جاتے۔ دوسرے وہ ایک طرح کے احساسِ گناہ اور پوری طرح سرایت کرجانے والے احساسِ کمتری کے بوجھ سے دبے ہوئے تھے۔وہ مغرب کی(بلکہ انگریزوں کی) ادبی، سماجی، صنعتی اور سیاسی و انتظامی نظم و ضبط کی تہذیب سے مرعوب ہوچکے تھے چنانچہ فطری طور پر انھوں نے فرض کرلیا تھا کہ اردو ادب کو کسی مورخ کی ضرورت توخیر کیا ہوگی وہ کسی مورخ کے ہونے کا مستحق بھی نہیں ہے۔یہاں تک کہ اس کا عمومی احتساب بھی ضروری نہیں۔
محمد حسین آزاد کی آبِ حیات(1880) کو عام طور سے اردو میں پہلی ادبی تاریخ تصور کیا جاتا ہے۔ یہ 1700کے آس پاس سے لے کر انیسویں صدی کے وسط تک کی اردو شاعری کا احوال تھا۔ اس کا ذیلی عنوان ہے:
’مشاہیرشعرائے اردو کے سوانحِ عمری اور زبان مذکور کی عہد بعہدترقّیوں اور اصلاحوں کا بیان‘
یہ کتاب بالعموم اس طرح منظّم انداز سے ترتیب دی گئی کہ ہم میں سے بہتوں نے سوچا، ادب کی تاریخیں اسی طرح منظم ہوتی ہیں: بیانیہ قابلِ فہم، تاریخی ترتیب کے ساتھ تھا اور مصنف نے اردو شاعری کے پانچ ادوار کی شناخت کا بطورِ خاص خیال رکھا تھا۔فہرستِ مضامین میں ایک ذیلی عنوان ہے ’تاریخِ نظمِ اردو‘۔پھر بھی اپنے متن میں آزاد اسے تذکرے کا نام دیتے ہیں تاریخ کا نہیں۔ فرانسس پریچیٹFrances Pritchettنے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ ہر عہد کو دیے گئے صفحات کی تعداد میں تنوع پایا جاتا ہے۔ابتدائی ادوار کو کم صفحات دیے گئے ہیں۔ اِسے ہر عہد کی قدروقیمت کے بارے میں آزاد کے مطمحِ نظر کی طرف اشارے کے طور پر لیاجاسکتا ہے اور اس طرح کے واضح یا صریحی فیصلے،یہ سوچنے پر مجبور کرسکتے ہیں کہ مصنف نے تذکرہ نویس کی بجائے تاریخ نویس بننے کی کوشش کی ہے اور یہ اسی کوشش کا نتیجہ ہے۔لیکن متن میں آزاد نے ترجیح،یوں لگتا ہے کہ پہلے اٹھارویں صدی کے شاعروں کو دی ہے۔ ماسوااس کے، وہ زیادہ ترجیح ان کوانیسویں صدی کے دہلی کے شعرامیں شمار کرنے کو دیتے ہیں۔ دوسری طرف آزاد بے حد حکایت پسند واقع ہوئے ہیں۔ حکایتیں انھوں نے ایک سچّے داستان گو کے جوش و جذبے سے بیان کی ہیں اور ان کا انتخاب ڈرامائی کیفیت کو دیکھ کر کیا ہے نہ کہ حقائق بیانی کی بنا پر۔ اس وجہ سے یہ کام تذکرہ نویسی کے دائرے میں داخل ہوتا ہوا لگتا ہے۔
ان ابہامات کے باوجود ’آبِ حیات‘ کو تقریباً ہمیشہ ہی تاریخ کے طور پر لیا گیا ہے،بھلے ہی وہ اغلاط سے پُر اورایک غیردرست تاریخ ہے۔ اردو ادب کی تاریخ کو دراصل کیسا ہونا چاہیے یہ ایک صدی سے زائد عرصہ گذر جانے کے بعد بھی واضح نہیں ہو سکا ہے۔یہاں تک کہ حکایت پسندی کارجحان جس کا افتتاح آزاد نے کیا تھا وہ بھی ابھی تک قائم ہے۔ اردو ادب کی وہ تاریخیں ہمارے حصے میں آئی ہیں جن کے مصنف یا تو وہ ہیں جو ہمیں اُن مصنفوں سے اپنی شناسائی اور گذرے ہوئے واقعات کے بارے میں بتاتے جاتے ہیں جن کا ذکر کتاب میں کر رہے ہوں یا پھر اُن کی جو بیان کیے جانے والے واقعات پر ذاتی تبصرے کرتے رہتے ہیں۔
اپنی ضخیم کتاب ’اردو ادب کی تاریخیں‘ (کراچی،2000) میں گیان چند جین نے اردو ادب کی درجنوں تواریخ کا جائزہ لیا ہے جن میں بیش تر رکیک حد تک بری ہیں۔ گیان چند نے تحسین یا ملامت میں مساویانہ سلوک روا رکھا ہے۔ لیکن وہ اس نقطہئ نظر یا ادبی- تنقیدی روےّے پر کبھی غور نہیں کرتے جس کے تحت تاریخیں لکھی گئی ہیں۔ وہ حقائق سے متعلق غلطیوں اور کبھی کبھی ادبی آرا کے لیے انفرادی طور پر مصنفین کی نکتہ چینی توکرتے ہیں لیکن جائزہ لینا توچھوڑیے،وہ یہ بتانے کے لیے بھی نہیں رکتے کہ ان کے ناقص اور غلط فیصلوں کا سبب یا علّت کیا ہے۔جن تاریخوں کا وہ جائزہ لے رہے ہیں ان کی اطلاقی یا نظریاتی بنیادوں کی انھیں قطعی فکر نہیں۔
رالف رسل نے جن تین تاریخوں کی سخت نکتہ چینی کی ہے اُن کے بعد اردو ادب کی کئی قابلِ قدر تاریخیں لکھی گئی ہیں۔ علی جواد زیدی کی A History of Urdu Literature(نئی دہلی 1993) (انگریزی میں) اور جمیل جالبی کی وسیع اور ہنوز ناتمام تاریخِ ادبِ اردو(جلد سوم،نئی دہلی 2007) (اردو میں) اس کی مثال ہیں۔زیدی کے یہاں ایسا کچھ زیادہ نہیں جس کی تعریف کی جائے لیکن جالبی کا کام زبردست ہے جس کا احترام کیا جانا چاہیے، خاص طور پر اس لیے کہ انھوں نے تمام ممکنہ اور حقیقی حوالوں کا استعمال کرنے میں بے حد احتیاط برتی ہے اور جن مصنفین کی انھوں نے بات کی ہے، صاف نظر آجاتا ہے کہ وہ ان سبھی کا مطالعہ کر چکے ہیں۔پھر بھی کچھ معاملوں میں وہ ہمیں مطمئن نہیں کر پاتے۔ خاص سقم ان کے یہاں یہ ہے کہ وہ اس نوآبادیاتی -مستشرقی بوجھ کو اتارنے میں ناکام رہے ہیں جو انھیں انیسویں صدی کے جدیدکاروں سے ورسثت میں ملا ہے۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔