ایک عاجزانہ التماس: کیا ہمیں اردو ادب کی ایک موزوں تاریخ نصیب ہوسکتی ہے؟

یہ تحریر 2111 مرتبہ دیکھی گئی

(قسط ۔ ا)

(کلیدی خطبہ: اردو فیسٹ 2008، یونیورسٹی آف ورجینیا، شارلٹس وِل Charlottesville، امریکہ، 12ستمبر2008) انگریزی سے ترجمہ

بیباکی سے اپنی بات کہنے والے رالف رسل نے ہمارے لیے ایک درشت نسخہ تجویزکردیا ہے کہ اردو ادب کی تاریخ کس طرح نہ لکھی جائے۔اگرچہ انھوں نے انگریزی میں لکھی گئی اردو ادب کی تین تواریخ کے پس منظر میں اپنی چبھتی ہوئی باتیں لکھی ہیں لیکن یہ باتیں اردو ادب کی تقریباً تمام تاریخوں کے بارے میں کہی جاسکتی ہیں جن میں ادبی تحریکوں یا اصنافِ ادب کی تاریخیں شامل ہیں۔سچ تو یہ ہے کہ رالف رسل اگر اردو میں لکھی گئی تواریخ پر نظر ڈالتے تو وہ زیادہ نہیں تو اتنے ہی ناراض ضرور ہوتے جتنے ہوئے ہیں۔

رالف رسل اس بارے میں ہمیں بہت کم بتاتے ہیں کہ اردو ادب کی تاریخ کس طرح لکھی جائے۔ اس سلسلے میں انھوں نے تین نکتے اٹھائے ہیں، اور افسوس مجھے ان تینوں سے اختلاف ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اردو ادب کی تاریخ(ظاہر ہے ان کی مراد انگریزی میں لکھی گئی تاریخوں سے ہے، کیونکہ وہ بنیادی طور پر انگریزی داں قارئین کو مخاطب کر رہے ہیں)مبنی بر انتخاب ہونی چاہیے: اب بات یہ ہے کہ سبھی تاریخیں منتخبہ نوعیت کی ہوتی ہیں اور ہر تاریخ کے مشمولات، اس کے حجم کا تعین کرتے ہیں۔لیکن اس انتخاب کو بنیادی ضرورت قرار دے دینے سے نہ صرف ذاتی تعصبات کو ہوا ملے گی بلکہ مرکزی نکتہ بھی چھوٹ جائے گا۔ اپنے مطلب کی باتیں یاد رکھنے ولا کیسے انتخاب کا اہل ہو سکتا ہے۔ میر اپنے تذکرے، نکات الشعرا (1752کے آس پاس)میں، دکن(اصطلاحاًبشمول گجرات)کی اردو شاعری کے تقریباً ساڑھے تین سو سال کا ذکر، بطورِ معذرت یہ کہتے ہوئے نمٹا دیتے ہیں کہ وہاں ایک شاعر بھی ایسا نہیں گزرا جس نے دو مربوط مصرعوں والا کوئی شعر کہا ہو۔ ’انتخابیت‘کی ایک اور مثال جدید اردو تنقید پر شارب ردولوی کی لکھی ہوئی کتاب ’جدید اردو تنقید: اصول و نظریات‘ (لکھنؤ، 1981) ہوسکتی ہے جو 1968میں آئی تھی اور جو اب تک کئی مرتبہ چھپ چکی ہے۔ ردولوی نے تقریباً پانچ سو صفحات پر پھیلی ہوئی اس کتاب میں محمد حسن عسکری کا ذکر بہت ہی کم کیا ہے۔ عسکری سے سے اختلاف کرتے ہوئے تکلفاًانھیں تین صفحات دیے گئے ہیں، بس۔

رسل کا دوسرا نکتہ دراصل پہلے نکتے کا ہی ضمیمہ ہے۔ وہ کہتے ہیں،”اپنے قارئین کو وہ بتائیے جو وہ جاننا چاہتے ہیں۔“ظاہر ہے کہ کوئی بھی تاریخ داں چونکہ یہ فیصلہ نہیں کر سکتا کہ اس کا قاری کیا جاننا چاہتا ہے، چنانچہ وہ قاری کی’ضرورت‘والے آسودہ تصورات کی طرف مڑ جائے گا۔ اُس کی خواہش کے لحاظ سے بھی اور اِس حساب سے بھی کہ اُس کے لیے ’کیاجاننا ضروری ہے‘۔

تیسرا نکتہ جورالف رسل اردو ادب کے آئندہ تاریخ دانوں کے لیے تجویز کرتے ہیں، یہ ہے کہ،جن سماجی اور تاریخی حالات میں ادب تخلیق کیا گیا انھیں بیان کیا جانا چاہیے۔ غالباً یہ بات صرف اردو ادب کے ضمن میں کہی گئی ہے، جو کہ رسل سمجھتے ہیں انگریزی ادب سے مختلف ہے، اس لیے تاریخ داں کو چاہیے کہ وہ اسے موزوں و مناسب تاریخی،سماجی پس منظر میں سامنے رکھے تاکہ وہ غیر اردو داں قاری کی سمجھ میں آسکے۔ وہ کہتے ہیں کہ اردو ادب، تخلیق ہے:

(الف) اُن سماج اور تاریخی حالات کی جن سے آپ کے قاری بہت کم واقف ہیں۔ اس لیے ادب کو سماجی اور تاریخی تناطر میں پیش کیجیے۔

بظاہراِس آسان سے فرمان کا جواب یہ ہے کہ ادب کو اس کے وقت اور مقام پر متعین کرنے سے کہیں زیادہ ضروری ہے قاری کواس کی شعریات، اصول و ضوابط اور روایات سے واقف کراناتاکہ وہ اسے زیادہ بہتر طور پر سمجھ سکے۔اس کے اور بھی کئی جواب ممکن ہیں مگر میرا مضمون رسل کو جواب دینے سے تعلق نہیں رکھتا۔ جو بھی ہومیں اردو ادب کی اِن تینوں تواریخ سے انھوں نے جو نتائج اخذ کرکے اپنے مضمون میں بیان کیے ہیں ان سے مجھے پوری ہم دردی ہے۔ میں بس ان کے دائرہ نظر کو وسیع کرنااور یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ابھی تک اردو ادب کی کوئی ایسی تاریخ نہیں لکھی گئی ہے جو ہمارے ادب کے ساتھ تھوڑا سا بھی انصاف کر سکے۔

مضمون کے اس حصے کا اختتام،میں رالف رسل کو ان کی علمی فضیلت، صاف گوئی اور مغربی دنیا بلکہ جنوبی ایشیا میں بھی لوگوں کواردو ادب کی اہمیت سے واقف کرانے کے مقصد سے کی گئی خدمات کے لیے خراجِ تحسین ادا کیے بغیر نہیں کر سکتا۔ اردو ادب کی تاریخ کیسے نہیں لکھی جانی چاہیے، اس موضوع پر رسل کا مضمون صرف ایک مثال ہے اس امر کی کہ ان کی تعلیمات اور نظریات سے اردو کے اصل قارئین اور مصنفین کو کس قدر فائدہ ہو سکتا ہے۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔