اِک بحرِ پرآشوب و پراسرار ہے رومی

یہ تحریر 1100 مرتبہ دیکھی گئی

پیش گفتار

فریدوں سپہ سالار (م ۱۳۱۹ء قریباً) جو رومی کے مشہور ترین زندگی نامے(۱) کا مصنف ہے، مدعی ہے کہ اس نے زندگی کے چالیس برس اپنے آقا کی خدمت میں بسر کیے۔

اگر یہ سچ ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنی یادداشتیں قلم بند کرتے وقت اس کی عمر سو سال کے قریب ہوگی۔ اس ضمن میں، دیگر بہت سی مثالوں کی طرح، ہم یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ ”چالیس“ کا عدد صبر و امتحان کے مفہوم کو ظاہر کرتا ہے، بالکل اسی طرح جیسے عارف، اپنی تربیت کے دوران چالیس دن کی خلوت (چلہ) برداشت کرتا ہے تاکہ وہ روحانی طور پر پختہ تر ہو سکے، بہت سے صوفیہ کا قول ہے کہ انھوں نے چالیس برس تک اپنے مرشد کی خدمت کی  تاآں کہ انھیں باطن کی روشنی ارزانی ہوئی۔ ہم سپہ سالار کے بیان کو اسی قبیل کا ایک اظہار قرار دے سکتے ہیں۔

راقم الحروف اس امر کی معترف ہے کہ وہ ٹھیک چالیس برس سے رومی کے آثار و افکار سے وابستہ ہے۔ رومی سے یہ وابستگی مدرسے میں میری ابتدائی تعلیم سے شروع ہوئی جب میں نے زندگی میں پہلی مرتبہ دیوانِ شمس تبریز سے ریوکرٹ(۲) کے کیے ہوئے اعلیٰ درجے کے بعض منظوم تراجم پڑھے ۔۔۔۔۔ جرمن تراجم ۔۔۔۔ جن کی میں ہمیشہ شیفتہ رہی۔ بعد ازاں جب میں زمانہئ جنگ کے برلن کی ایک کم عمر طالبہ تھی جو اسلامی زبانوں کا مطالعہ کر رہی تھی، میرے قابلِ احترام استاد ایچ ایچ شیڈر(۳) نے جس گھڑی کلاس میں رومی کی مثنوی کے ابتدائی مصرعے پڑھے، ان مصرعوں نے رومی سے میری سابقہ وابستگی کو ایک فیصلہ کن ارتقائی رخ مہیا کر دیا۔ چند ہفتے گزرے ہوں گے کہ دیوانِ شمس تبریز سے میرے منتخب منظوم تراجم تیار تھے! میں نے دیوانِ شمس تبریز مرتبہ آر اے نکلسن کی ایک نقل نہایت احتیاط سے تیار کرلی تھی جو سال ہا سال تک میری ہم دم و ہم ساز رہی اور پھر سمسٹر کی تعطیلات کے دوران میں ایک کارخانے میں لازمی کام کے نتیجے میں حاصل ہونے والی پہلی رقم جلد ہی نکلسن کی   مرتبہ و مترجمہ مثنوی کے آٹھ مجلدات میں تبدیل ہو گئی!

اپریل ۵۴۹۱ء میں جب برلن سے ہمارا انخلا شروع ہوا تو چند دیگر چیزوں کے ساتھ مثنوی معنوی میرا واحد اثاثہ تھی جو میں نے ساتھ لیا۔ ہماری مہاجرت مار بُرگ کے ایک امریکی مہاجر کیمپ میں ختم ہوئی۔ یہاں مثنوی انتظار کے طویل دنوں اور زندگی کے نئے مرحلے کی تیاری کے دوران میں میرے لیے ایک راحت بخش مرہم ثابت ہوئی۔ یہ بات ایسی باعث تعجب نہیں کہ ان برسوں میں مَیں نے جو غزلیں اور رباعیاں کہیں، ان پر رومی کے اثرات واضح طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ ۸۴۹۱ء میں جب یہ شایع ہوئیں تو ان کا عنوان “Lied der Rohrflöte” یعنی ”نغمہئ نے“ تھا جو اصلاً مثنوی کے ابتدائی اشعار کی طرف اشارہ کرتا ہے۔(۴)

دیگر مختصر مطالعات جو زیادہ تر مولانا کی علامتی زبان اور مسئلہ دعا وغیرہ سے متعلق تھے، آنے والے برسوں میں ظہور میں آئے۔

اور پھر مئی ۱۹۵۲ء میں مَیں پہلی بار قونیہ گئی ۔۔۔۔۔ بہار کے اس معطر دن نے اچانک ادب کو زندہ کر دیا تھا۔ دو برس بعد میں اور میری والدہ (مغربیوں میں ہمیں تھیں) ان چند خوش قسمت لوگوں میں سے تھے جو دسمبر ۱۹۵۴ء میں رومی کی سال وفات کی اولیں تقریبات میں شریک ہوئے۔ وہیں سماع ۔۔۔۔۔ درویشوں کے رقصِ دوّار۔۔۔۔۔ کا پہلی بار ایک طویل وقفے کے بعد، جشن منایا گیا جس پر دیگر صوفی سلاسل کی طرح ۱۹۲۵ء سے قدغن لگی ہوئی تھی۔ یہ ایک ناقابلِ فراموش تجربہ تھا۔

اب قونیہ میرا وطنِ ثانی بن گیا۔ انقرہ میں اپنے پانچ برس کے قیام کے دوران، میں اکثر دنیا بھر سے اپنے دوستوں کے ہمراہ یہاں آتی رہی۔ فریدریخ ہائیلر اور سی جے بلیکر جیسے مذاہب کے تاریخ نویس ان میں شامل تھے۔ انھی میں ہانس مائنکہ جیسے شاعر بھی شامل تھے جس نے رومی کے اشعار کو جرمن غنائیہ، شاعری میں ڈھالا تھا اور جو کہولتِ سن و سال کے باوجود رومی کے احساسِ حضوری سے سرمست تھا۔ رومی میوزیم کے اس وقت کے ڈائریکٹر محمد اُوندر نے ہمیں قونیہ کا ہر کونا ُکھدرا دکھا کر مسرت محسوس کی۔ اسی کی کوششوں کے نتیجے میں رومی کے مزار کے اردگرد کا علاقہ اور تیرھویں صدی عیسوی کی بعض بچ جانے والی یادگاریں بحال ہوئیں اور انھوں نے اپنا کھویا ہوا حسن پایا اور شہر کے مکینوں کو ازسر نو ان ناقابلِ فراموش مقامات کے حسن کا شعور حاصل ہوا۔ سلسلہئ مولویہ کے موسیقار ہمارے قریبی دوست تھے۔ نے نواز خلیل جان اور صبری اوز دل نیز قانی قراچہ جو نعت شریف پڑھتا اور قرآنِ حکیم کی تلاوت کرتا تھا، یہ اور اسی طرح دیگر کئی اصحاب بھی ہمارے گہرے دوست تھے۔ محمد ددہ۔۔۔  آخری سن رسیدہ اور ضعیف درویش سابقہ تکیے کی چار دیواری اور موجودہ مولوی میوزیم کے اپنے ایک چھوٹے سے کمرے میں مقیم تھا۔ اس نے ۱۹۵۸ء میں نوّے برس کی عمر میں وفات پائی۔ شمس تبریزی کی یادگار کے نزدیک ایک چھوٹا سا فوارہ قونیہ کی زیارت کرنے والوں کو اس بے نظیر انسان کی یاد دلاتا ہے۔ یہیں ”میرا بھائی“ اسماعیل(۵) تھا جو پیشے کے لحاظ سے بڑھئی تھا۔ یہ شخص اپنے سادہ تقدس کے حوالے سے درویشی روایت کا بہترین مجسمہ تھا۔ وہ مجھے عہدِ وسطیٰ کے متعدد پیشہ وروں کی یاد دلاتا جو کبھی کمال عقیدت و ارادت سے رومی کی پیروی کرتے تھے۔ اسماعیل ّنجار کی صوفیانہ دانش بڑے بڑے صاحبانِ علم و رشد سے کہیں زیادہ گہری تھی۔ جرمنی جانے سے چند دن پہلے جہاں اس کی اچانک رحلت ہوگئی، اس نے خواب میں دیکھا تھا کہ وہ حضرتِ مولانا کے قدموں میں بیٹھا ہے اور مولانا اسے دیکھ کر مسکرا رہے ہیں! مجھے یقین ہے کہ اس کا خواب شرمندہئ تعبیر ہوا ۔۔۔۔۔۔وہ اسی لطیف ایماء کا مستحق تھا!

ترکی حضرتِ مولانا کے بے شمار عشاق سے میرے رابطے کا ذریعہ بنا۔ یہ لوگ مختلف معاشرتی طبقات سے تعلق رکھتے تھے یعنی دیہات کی اَن پڑھ عورتوں سے لے کر وزراے حکومت اور سفراے ریاست تک۔ بعد کے برسوں میں جب میں نے پاکستان اور محمد اقبال (م: ۱۹۳۸ء) پر جنھیں ناروا مبالغے کے ساتھ ”رومیِ عصر“ کہا جاتا ہے؛ اپنی تحقیقات کا آغاز و ارتکاز کیا تو رومی کے متعدد گوشے مجھ پر واضح ہوئے۔ اقبال نے اپنے روحانی پیشوا کے آثار کی،  جو ان کے تمام شعری کارناموں میں ان کے راہ نما اور مرشد نظر آتے ہیں، جو حرکی تعبیر کی ہے وہ کلاسیکی اسلامی تصوف کی جدید زاویہئ نگاہ سے دیکھنے کے باب میں حد درجہ اہمیت رکھتی ہے۔ یہ تعبیر، سابقہ سات صدیوں میں ابنِ عربی کے فلسفے کے زیر اثر لکھی گئی متعدد شرحوں کی نسبت رومی کی اصل فکر سے قریب تر ہے۔ میں پاکستان میں جہاں کہیں بھی گئی، مجھے رومی کی روح زندہ و توانا نظر آئی، خواہ وہ پشاور میں موسیقی کے جلسے ہوں، خواہ پنجابی زبان میں ان کے  کلام کے پرمغز اور پرقوت تراجم ہوں، یہ روح اُن سندھی عارفوں کی شاعری میں بھی، جن کے سرخیل شاہ عبداللطیف بھٹائی(۶) تھے، سرایت کر چکی ہے اور بنگالی لوک گیتوں میں بھی محسوس کی جا سکتی ہے۔

مولانا جلال الدین رومی ان تمام برسوں میں میرے با وفا ہمدم رہے۔ میں نے جب بھی رومی کی غزلیات اور مثنوی کا مطالعہ کیا، خواہ شام کی تنہا ساعتوں میں یا اپنے طلبہ کے درمیان علمی مذاکروں میں، ہر بار نئے نتائج اور حاصلات میرے ہاتھ آئے!

سوال یہ ہے کہ جدید شارح کے زاویہئ نگاہ سے رومی کے بارے میں کیا کہا جا سکتا ہے؟ اس ضمن میں ہمارے طلبہ کا جواب قطعی مثبت ہے گو کہ رومی کی شاعری ان لوگوں    کے لیے مشکلات پیدا کرتی ہے جنھوں نے اس کے ساتھ ایک عمر نہ گذاری ہو۔ ان کی زبان اکثر فارسی کی معمول کی تمثال کاری کی حدود کو توڑتی ہے۔ رومی کی غزلوں میں شیراز کے آراستہ و پیراستہ باغوں کا، جنھیں ہم عزیز رکھتے ہیں اور فارسی غزل کا جوہرِ اصلی گردانتے ہیں، کوئی سراغ نہیں ملتا۔ ان کی شاعری بہزاد کی اعلیٰ تربیت یافتہ کامل مصوری کے بجائے ترکمان اسلوب کی اس منیاتور مصوری سے مماثل ہے جس میں پھولوں، چمنوں، دیووں اور جانوروں کی ناقابلِ یقین حرکت کے آثار موجود ہوں۔ رومی کے روزمرہ زندگی سے اخذ کردہ لغات پر وسیع انحصار اور ایک موضوع سے دوسرے موضوع کی جانب بہ ظاہر بغیر کسی منطقی تسلسل کے، گریز کے سبب قاری اوّل اوّل پریشان ہو جاتا ہے لیکن اِس شاعری کا پرشوکت و قوت آہنگ (جو اصلاً کائناتی رقص کا ایک حصہ ہے) ہمیشہ اُسے اپنے ساتھ بہا لے جاتا ہے اور آخر آخر اسے مذکورہ مشکلات پر غالب آنے میں مدد دیتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ شاعر (رومی) اپنے بہ ظاہر سادہ سے اشعار میں غالباً غیر شعوری طور پر متعدد ایسے خطابیاتی حربے، ایہام اور اعلیٰ درجے کی لفظی بازی گری سے کام لیتا ہے کہ اس کی شاعری قاری کے لیے اسی قدر مشکل کا باعث بنتی ہے جتنی جدلیاتی اظہار کے اطلاق یا شاعری میں بعض ترکی و یونانی لفظیات کے استعمال کے باعث۔ رومی کی زبان کا اپنے پرثروت اور متنوع ذخیرہئ الفاظ کے ضمن میں محض فارسی ادبیات کے ممتاز ترین قصیدہ نگار خاقانی (م: ۱۱۹۷ء) سے تقابل کیا جا سکتا ہے ہرچند کہ خاقانی کی زبان مقابلۃً زیادہ منطقی ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا ہم رومی کے آثار سے صوفیانہ فلسفے کا استخراج کر سکتے ہیں؟ وہ شروح جن میں ایسا کرنے کی کوشش ملتی ہے، تعداد میں بہت زیادہ ہیں اور ہر شارح نے، جس کا آغاز سلطان ولد(۷) سے ہوتا ہے، رومی میں وہ کچھ دیکھا ہے جو خود اس (شارح) کے فہم سے قریب ترین تھا۔ کیا رومی سریان کے قایل تھے یا وحدانیت کے۔ کیا وہ تصور وحدت الوجود کے مدافع تھے، جسے ان کے زیاد عمر معاصر ابنِ عربی (م: ۱۲۴۰ء) نے ایک نظام نامے کی شکل میں متعین کیا تھا اور جس کے سب سے پہلے شارح صدر الدین قونیوی(۸) مولانا کے دوست تھے؟ سمندر کی تمثال کا کثرت سے استعمال ۔۔۔۔۔۔ جس سے موجوں اور جھاگ کا ظہور ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ وحدت الوجودی میلان کی طرف اشارہ کرتا ہے یا مولانا کے استعمال کردہ الفاظ سے جو مخلوقات کی عروجی حرکتِ مسلسل سے متعلق ہیں، ان کو ارتقائیت پسند قرار دیا جا سکتا ہے یا پھر جیسا کہ بہت سے محققوں خصوصاً ہماری صدی کے علماء کی تفسیر کی رُو سے انھیں صدوریت پسند(۹) کہا جا سکتا ہے؟ یا کیا ان الفاظ سے ہر لمحہ ظاہر ہونے والی اس سادہ صداقت کا اظہار نہیں ہوتا کہ صرف موت سے گزر کر نئی زندگی کا ظہور ممکن ہے اور   راہِ عشق میں ایثار پیشگی ہی سے بقا کے رستے کا سراغ ملتا ہے؟ کیا رومی ایک ایسے فلسفی تھے جو عقلِ اوّل(۱۰) کے خلاقانہ عمل کو تمام دنیا میں جاری و ساری دیکھتے تھے یا عدم کو ایک صندوق کی صورت میں دیکھتے تھے جس میں مادے سمیت تمام امکانات ازل سے پوشیدہ تھے اور خدا کے فرمان کے منتظر تھے تاکہ زمان و مکان کے اندر تحقق پا سکیں؟ یا وہ محض ایک عاشق تھے جو عقل اور صورِ خارجی کو بالاے طاق رکھتے ہوئے، عاشق و معشوق کے اتحاد علوی کی کیفیت میں سوخت ہوگئے تھے؟

امکان غالب ہے کہ وہ ان امکانات میں سے ہر ایک کے بہرہ دار تھے۔ ان کے ہاں مستعمل متعدد تصورات کا تفصیلی تجزیہ بہت نتیجہ خیز ثابت ہو سکتا ہے۔ ان تصورات میں سے دو، عدم یا نیستی اور کبریا ہیں: تصور اوّل نفی و اثبات دونوں معنوں میں استعمال ہوا ہے اور نروان کی تعریف کے حدود کے قریب جا پہنچتا ہے جس کی حیثیت سعادتِ دایمی کی ہے اور تصورِ ثانی (کبریا) جلال و عظمتِ الٰہی ہے جو آفتاب اور ہر درخشاں اور قوی شے میں متجلّی ہوتا ہے۔ لیکن اگر ہم رومی کو اس کے صحیح تناظر میں سمجھیں تو ”کبریا“ اور ”عدم“ سے ماورا قوتِ متحرکہ اصلاً عشق ہے ۔۔۔۔۔۔ عشق جو ایک ایسے خدا کا جوہر ہے جو خود کو صفاتِ جلال و جمال   میں اپنی مخلوقات میں ظاہر کرتا ہے!

رومی ایک انسان تھے ۔۔۔۔۔ صفاتِ بشری کے حامل انسان۔ ان کا تمثالوں کا استعمال اسے ثابت کرتا ہے۔ نیز ان کے خصوصی اقوال و اظہارات اور اچانک غصے یا کیف سے جنم لینے والی ان کی مختصر نظمیں بھی اس امر کی تصدیق کرتی ہیں لیکن وہ جانتے تھے کہ وہ روحانی زینہ جس کی وہ اپنے اشعار میں بڑی توصیف کرتے تھے، اسفل خواہشات اور مادی دنیا کے ترک کرنے سے عبارت نہیں بلکہ انھیں ارتقاے انسانی سے مربوط کرنے سے عبارت ہے۔ جوں ہی عشق اپنی حرکت انگیز کیمیا کو کام میں لاتا ہے، نفسِ انسانی کا حقیر شیطان مومن بن جاتا ہے اور خود ابلیس، جبریل کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ اس لمحے انسان، فقر یعنی فقرِ روحانی اور تعیناتِ خلقی سے عریانی (عریاں ہونے) کو سرخ یاقوت کی صورت میں دیکھتا ہے جسے دانتے کے ”طربیہ الٰہی“ کے اختتام میں مذکورہ بلاسیو(۱۱) (balascio) کے مقابل رکھا جا سکتا ہے۔ اس یاقوت کے نور و آتش میں معدوم ہوکر وہ ٹھیک عشق کے قلب میں جا اُترتا ہے۔ اور جب وہ دوبارہ پلٹتا ہے تو اب وہ دنیا کو بدلے ہوئے دیکھتا ہے ۔۔۔۔۔ معانی سے لب ریز ۔۔۔۔۔ اب دنیا ایک مزبلہ نظر نہیں آتی جیسا کہ ایک راہب اُسے محسوس کرتا ہے۔

رومی کی فکر خواہ کتنی ہی سادہ محسوس کیوں نہ ہو، اس کا کاملاً احاطہ ممکن نہیں۔ اُن کے اشعار کا جتنی بار بھی مطالعہ کریں، ان کی تعبیرات کا تنوع، سادہ مطالب کی گہری بنت اور  خیال بندی کی رمزیت ہر بار انسان کو حیرت سے دوچار کرتی ہے۔

جب کسی لکھنے والے کو کسی ایسی پیچیدہ شخصیت کا سامنا ہو تو فطری طور پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس شخص کے تقریباً ساٹھ ہزار اشعار کے مطالب کو کس طرح مرتب کیا جائے۔

میرے خیال میں صرف بیانیہ اسلوب برت کر ہی غیر جانب دارانہ نتائج تک پہنچنا ممکن ہے۔ چوں کہ مولانا اصلاً ایک صوفی شاعر ہیں سو منطقی طور پر یہی مناسب معلوم ہوا کہ ان کے آثار کا مختلف زاویوں سے مطالعہ کیا جائے۔ اس ضمن میں پہلا مرحلہ شاعرانہ زبان کا ہے اور دوسرا صوفیانہ افکار کا۔ ان دو پہلوؤں کے ارتباط سے ان کی شخصیت اور ان کی پایان نا پذیر شاعری کے کم از کم ایک حصے کو نمایاں کیا جا سکتا ہے۔

راہِ سلوک پر چلنے والے اپنے پیش روؤں اور مقلدوں کی مانند رومی نے قرآن حکیم کی کشف کردہ ابدی صداقت کے مطابق زندگی بسر کی۔ چناں چہ ہم نے کسی نہ کسی قرآنی ارشاد کی روشنی میں، جو خود رومی کے اظہارات کے مختلف رنگوں میں نظر آتا ہے، ہر باب کی بنیاد اٹھائی ہے۔ رومی کی تمثال کاری کے مسئلے کو کلیۃً ایک قرآنی آیت کے تناظر میں سمجھا جا سکتا ہے جو صوفیہ کو بہت مرغوب رہی ہے: سَنُرِیْہِمْ اٰیٰ تِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَ فِیْٓ اَنْفُسِہِمْ (۱۲)(۴۱:۵۳)۔ اس ارشاد نے صوفیہ کو زندگی کے ہر پہلو میں اللہ کی تخلیقی شان کے مشاہدے کے بے پایان امکانات سے بہرہ ور کیا ۔۔۔۔۔ وہ تخلیقی شان جو جماد، قوس قزح، پھولوں، پرندوں، انسانوں اور فرشتوں میں ظہور کرتی ہے!

منجملہ تمام تمثالوں کے آفتاب، رومی کی مرغوب ترین علامت ہے شاید اس لیے کچھ زیادہ بھی کیوں کہ یہ ان کے مرشد و محبوب شمس الدین (آفتابِ دین) کے نام سے نسبت رکھتا ہے۔ نیز قرآنی عبارت والضحیٰ (قسم ہے صبح کی) (۹۱: ۱) بھی جس کا اطلاق اوّلیں صوفی شعرا پیغمبر اسلامﷺ کے روے انور پر کرتے تھے۔ یوں گویا اس علامت میں قرآنی اشارہ مل جاتا ہے۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔