افسانے کی حمایت میں

یہ تحریر 2231 مرتبہ دیکھی گئی

(2)

                تو اگر افسانے اورشعر کی بوطیقا ایک ہی ہے تو جو افسانہ میں اس وقت اپنے ذہن میں لکھ رہا ہوں اس کے بارے میں کیا بتاﺅں کہ میں اس میں کیا کہوں گا، کیا دکھاﺅں گانہیں ،پریم چند ہی کی رائے ٹھیک معلوم ہوتی ہے۔ پہلے سے کچھ تو طے ہو کہ افسانے میں کیا دکھایا جائے گا؟ لیکن میں اتنا افسانہ تو لکھ گیا ہوں، آخر کچھ تو پتہ لگنا چاہئیے کہ میں کیا لکھوں گا؟اچھا فرض کیا اور کچھ نہیں لکھنا ہے۔ افسانہ یہیں ختم ہو گیا ہے۔ یا بس اتنا اور ہوتا ہے کہ فوجیوں نے تھوڑی دیر میں سروس روڈ مکمل کردی اور سب مسافروں کو آگے جانے دیا۔میں بھی ذرا دیر سے سہی، لیکن سراے میراں پہنچ گیا۔ بس کہانی ختم پیسہ ہضم۔مگر اس میں کہانی کہاں تھی؟نہیں، کہانی تو تھی لیکن اس میں کہا کیا گیا تھا؟

                اچھا اگر میں سڑک کی دھند، شام کے پھیلتے ہوئے اندھیرے، فوجیوں کے لباس اور چہرے مہرے، اس عمارت کا پورا احوال، یہ سب کچھ اوپر سے ڈال دوں تو کیا افسانہ بن جائے گا؟ اے۔ایس۔ بائٹ(A. S. Byatt)کے ناولوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ جزئیات نگاری کی ملکہ ہے۔اور جزئیات تو داستان میں بھی ہیں، لیکن اور طرح کی۔

                میرا دماغ چکرانے لگا ہے۔اتنی دیر سے یہاں کھڑا ہوں، یہ لوگ مجھے کیا سمجھ رہے ہو ں گے۔ کو ئی شخص جو تہذیب اور مہذب ماحول سے بیگانہ ہے؟ میں اٹک اٹک کر قدم آگے بڑھا کر کمرے میں آجاتا ہوں، میری نگاہیں ڈھونڈ رہی ہیں کہ کوئی خالی کرسی ملے توجا کر چپ چاپ وہیں بیٹھ جاﺅں اچانک ایک کونے سے کسی نے خوش گوار لہجے میں آواز دی ہے:

                ”ادھر آجائیے فاروقی صاحب، یہاں جگہ ہے۔“

                میں چونک کر کچھ متشکرانہ ، کچھ ہراساں ، ادھردیکھتا ہوں۔ جن صاحب نے مجھے آواز دی ہے وہ عمر رسیدہ لیکن تنومند ہیں۔ میں انھیں پہچانتا نہیں ہوں۔ مجھے تھوڑی سی گھبراہٹ ہوتی ہے کہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کوئی مجھ سے بہت تپاک سے ملتا ہے لیکن مجھے اس کا نام یاد آتا ہے نہ شکل یاد آتی ہے۔میں پھر طرح طرح سے بات بنا کر، اٹکل لگا کر، اس ہی سے معلوم کرنے کی کوشش کرتا ہوں کہ وہ کون ہے اور میں اسے کیونکر جانتا ہوں۔ کبھی کبھی لوگ خود ہی پوچھ دیتے ہیں، ”پہچانا آپ نے؟“تو میں دل میں اطمینان کی سانس لیتے ہوئے سچ میں کچھ جھوٹ ملا کر کہہ دیتا ہوں،”شکل تو پہچانی ہوئی ہے لیکن نام نہیں یاد آتا۔“

                میں آہستہ قدم رکھتا ہوا کمرے کے گوشے تک پہنچتا ہوں۔ ایک آرام کرسی، جسے انگریزی میں frog chairکہتے ہیں، ان صاحب کی بغل میں خالی ہے۔ میں ان صاحب کو سلام کرکے کرسی سنبھال لیتا ہوں۔ میں ان پر دوبارہ ہلکی سی دزدیدہ نگاہ ڈالتا ہوں لیکن ان کی صورت اب بھی پہلے کی طرح انجانی معلوم ہوتی ہے۔

                ”تسلیمات عرض کرتا ہوں۔‘ ‘ میری آواز نہ جانے کیوں کچھ بھرائی ہوئی سی ہے۔”خدا کا شکر ہے کہ “

                ”کوئی بات نہیں۔“وہ خوش اخلاقی سے کہتا ہے۔”میرا نام ملا علی قاری ہے۔“

                میں چونک کر اس کی طرف دیکھتا ہوں، پھر غور سے دیکھتا ہوں۔کہیں وہ مذاق تو نہیں کررہا ہے۔لیکن اس کے چہرے پر مسخرگی کے کوئی آثار نہیں۔

                میں تھوڑا سا گڑبڑا جاتا ہوں۔ ملا علی قاری تو فرضی نام لگتا ہے۔سترہویں صدی میں ایک محدث اس نام کے تھے۔ یہاں اکیسویں صدی میں ملا علی قاری کہاں سے آگئے۔ لیکن مجھے تو یہ ساری صورت حال ہی فرضی یاپراسرار طور پرفریب دماغ معلوم ہوتی ہے۔ ”ممگر میں میں اب سے پہلے تو آپ سے نہیں ملا تھا۔ آپ نے مجھے کیسے پہچان لیا؟“

                وہ ہنستا ہے۔”یوں ہی سہی۔ لیکن ایک نام کے دو شخص ہو سکتے ہیں۔“وہ گویا میرے دل کی بات جان کر کہتا ہے۔

                ”جی ہاں۔“ میں کچھ جز بز ہوکر کہتا ہوں۔”مگر مجھے اپنا نام بے حد نا پسند ہے۔ مجھے یقین ہے کسی اور کا نام ایسا نہیں ہو سکتا۔“

                وہ زور سے ہنستا ہے۔ مجھے لگتا ہے کمرے کے سب لوگ ہماری طرف متوجہ ہو رہے ہیں۔میں اشارہ کرتا ہوں کہ آواز دھیمی رکھیں تو بہتر ہے۔”کولرج کو بھی اپنا نام بہت نا پسند تھا۔ “

                ”کاش میں کولرج ہوتا۔“ میں کچھ تلخ لہجے میں کہتا ہوں۔اب میرا جی چاہتا ہے یہ تنومند بوڑھاچپ رہے تو بہتر ہے، فضول بکواس بہت کرتا ہے۔ پھر مجھے خیال آتا ہے ، اس شخص کوشاید کچھ زیادہ معلوم ہو کہ یہاں چکر کیا چل رہا ہے۔ لہٰذا میں ذرا سرگوشی کے لہجے میں پوچھتا ہوں:”سنئے، سڑک واقعی ٹوٹی ہوئی ہے یا“

                 ”جی ہاں، سڑک واقعی ٹوٹی ہوئی ہے۔ لیکن یہ فوجی اس وقت اس کی مرمت کے لئے کہاں سے دستیاب ہوگئے یہ بات سمجھ میں نہیں آئی ہے۔“ وہ ایک لمحہ ٹھہرکر کہتا ہے۔”بہر کیف، کوئی خطرہ نہیں ہے۔“

                میں کچھ اور پوچھنا چاہتا ہوں، لیکن میرا مفروضہ افسانہ اب پھر میرے ذہن میں گردش کرنے لگا ہے۔لیکن وہ دوسرا شخص، وہوہقاری، شاید میرے دل کی ہر بات جانتا ہے۔ اس کے پہلے کہ میں کچھ کہوں، وہ بول اٹھتا ہے:

                ”کیا کسی ایسی تحریر کو افسانہ کہا جائے گا جس میں کچھ بیان ہوا ہو اور جس سے کوئی بامعنی نتیجہ اخذ کر سکیں؟“میں اس کا منھ تکنے لگتا ہوں۔ ” میں آپ سے اس لئے پوچھتا ہوں کہ آپ ”افسانے کی حمایت میں “ نامی کتاب کے مصنف ہیں۔“

                نہ جانے کیوں اس کے لہجے میں مجھے کچھ تمسخر دانت نکالے ہوئے ہنستا دکھائی دیتا ہے۔”بجا،“ میں کچھ تیز لہجے میں کہتا ہوں۔ ”لیکن ’بامعنی‘ کسے کہتے ہیں اور’ نتیجہ‘ سے کیا مراد ہے؟“

                ”مثلاًاسی بات کو لیجئے کہ ہم لوگ یہاں پھنسے ہوئے ہیں۔اب جو کچھ بھی ہمارا انجام ہو۔مان لیجئے برا نہ مانئے گا، میں ایک مفروضہ بیان کر رہا ہوں۔“

                ”جی۔“ میں نے خشک لہجے میں کہا۔

                ”تو مان لیجئے یہ لوگ فوجی نہیں، ڈاکو ہیں“وہ ہاتھ اٹھا کر مجھے روکنے کے انداز میں کہتا ہے۔”یقین کیجئے، یہ سب افسانوی معاملہ ہےیا یہ لوگ انتہا پسند ہیں۔ اور یہ ڈاکویا انتہا پسند ہم سب کو یہاں گولی ماردیں، تو کیا ان واقعات کا بیان کسی بامعنی نتیجے کا حامل ہوگا؟“

                ”مشکل ہی ہے۔“ میں نے کچھ سوچ کر کہا۔”بشرطیکہ اس میں اور کچھ بات نہ ہو ۔ مثلاً کوئی خفیہ بات، کوئی راز، یا شاید ہم میں سے کوئی شخص کوئی بڑا آدمی ہو۔ یا ان لوگوں نے کوئی شرطیں حکومت یا اہل اقتدار کے سامنے رکھی ہوں اور ان کی تکمیل پر ہی ہم لوگوں کی نجات ممکن ہو۔ “مجھے لرزہ سا آگیا۔ یہ ہم لوگ کیا گفتگو کرہے ہیں؟

                ”لیکن اس سب سے کچھ بنتا نہیں۔“ وہ کچھ زور دے کر کہتا ہے۔”جب تک کچھ نتیجہ نہ بر آمد ہو۔ میں اب بھی یہی کہتا ہوں کہ واقعے کا بامعنی ہونا اسی وقت ممکن ہے جب ہم اس سے کچھ اخذ کر سکیں۔“

                ”اخذ کرنے اور پریم چند کی سبق آموزی میں بھلا کیا فرق ہو سکتا ہے؟ دونوں ایک ہی بات ہیں۔“

                ”جی نہیں۔ نتیجہ اس کو کہتے ہیں جواپنی معنویت کے لئے کسی سبق، کسی عبرت، کسی تعلیم، کا محتاج نہ ہو۔یعنی اگر افسانہ یہ کہے کہ دیکھو، فلاں شخص کی طرح نہ بننا، وہ بڑا خراب آدمی ہے۔ یا فلاں کام کروگے تو اچھے انجام کو پہنچو گے،تو ان چیزوں کو میں ’سبق، عبرت، تعلیم‘ کہتا ہوں۔ اور اگرتحریر میں کوئی ایسی بات ہوجس میں“

                ”جو ہمیں سوچنے پر مائل کرے۔“ میں بھی اب اس کے ما فی الضمیر کو خود بخود سمجھنے لگا ہوں۔”جو خود تو کوئی فیصلہ نہ کرے لیکن ہماری قوت فیصلہ کو بیدار کرے۔جس میں افسانہ نگار ، افسانہ نگار لگے۔ یعنی ایسا شخص جس کا اصل کام ہمیں کوئی ایسی چیز بنا کر دکھا نا ہے جسے ہم زندگی میں پیش آنے والے واقعات اور حادثات اور سوانح کی طرح قبول کریں لیکن یہ بھی سمجھیں کہ ایسے واقعات کے ”واقعی“، یعنی ”مطابق فطرت“ہونے نہ ہونے سے کچھ فرق نہیں پڑتا“

                ”نہ۔نہ۔ایسا نہیں ہے۔“ وہ کچھ بے صبری سے بولا۔”فرق پڑتا ہے۔ کیونکہ ہم تو افسانے میں بیان کئے ہوئے واقعے کو حقیقی ہی سمجھ کر اس سے معاملہ کرتے ہیں۔“

                ”چاہے وہ غیر حقیقی یا خلاف فطرت کیوں نہ ہو؟“

                ”یقیناً۔ ورنہ افسانہ قائم کیسے ہوگا؟افسانہ پن یا کہانی پن جس کے ایک زمانے میں بہت شہرے تھے، در اصل ایک فرضی صورت حال ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ بعض طرح کے بیانات کو ہم افسانہ بھی سمجھتے ہیں اور حقیقت بھی۔ یہی افسانہ پن ہے۔یہ نہیں تو کچھ نہیں۔“

                ”لیکن میں ایسا افسانہ لکھوں جس میں کچھ معنی نہ ہوں ؟“

                ”معنی ضرور ہوں گے ، اگر افسانے سے کوئی نتیجہ نکل سکتا ہے تو معنی بھی ہوں گے۔“

                ”تو ہم لوگ اگر یہاں مار دیئے گئے،“ میری آواز میں کچھ لرزہ سا آگیا ہے۔”تو یہ بےکار ہی ہوگا، کیونکہ اس پورے واقعے میں نتیجہ تو کچھ ہے نہیں۔“

                ”لیکن یہ بھی ہو سکتا ہے کہ پورا واقعہ ہی نتیجے کا حکم رکھتا ہو۔“اس کے لہجے میں تھوڑی سی شرارت ہے۔

                ”یہ توآپ فلابیئر جیسی بات کہہ رہے ہیں قاری صاحب۔“مجھے اس کی مسکراہٹ اچھی نہیں لگ رہی ہے۔”فلابیئر کی تمنا تھی کہ میں ایسا ناول لکھوں جس کے کچھ معنی نہ ہوں۔“

                ”جی نہیں۔ فلابیئرکا مطلب یہ تھا کہ میرے ناول کوکسی سبق یا عبرت یا تعلیم کا منبع نہ سمجھ لیا جائے۔ پریم چند جیسے لوگ فرانس میں بھی تھے۔بلکہ یوں کہیں تو غلط نہ ہوگا کہ پریم چند نے اپنی باتیں انھیں جیسوں سے سیکھی تھیں، کوئی روسی، کوئی انگریز، کوئی فرانسیسی، یہی لوگ تو ان دنوں ہمارے افسانہ نگاروں کے آدرش تھے۔مگر میرا مطلب کچھ اور ہے۔کیا یہ ممکن نہیں کہ افسانہ کسی صورت حال کو بیان کردے؟ افسانہ نگار اپنی پسند نا پسند کو بالاے طاق رکھ دے اور دنیا کو ویسی دکھائے جیسی کہ اسے نظر آتی ہے، نہ کہ ویسی جیسی وہ چاہتا ہے کہ اسے نظر آئے؟“

                ”لیکن دنیا تو دیکھنے والے کی ہے۔ یعنی جیسے ہم ہیں ویسا دیکھتے ہیں۔“

                ”جناب، میری مراد افسانے کی دنیا سے ہے۔افسانے کی دنیاافسانہ نگار کے دماغ میں ہوتی ہے۔ اس میں اچھے برے کے معیار عموماً وہی ہوتے ہیں جو عام دنیا میں ہیں۔ لیکن افسانے کی دنیا میں اچھے برے، عقل مند بے وقوف، وغیرہ کا حکم آسانی سے نہیں لگ سکتا۔ اچھے آدمی برے کام کرتے ہیں، یا غلطی کرتے ہیں۔ برے آدمیوں میں بھی کچھ ادا ایسی ہوتی ہے جس کی بنا پر ہمیں ان سے ہمدردی ہو جاتی ہے۔“

                ”اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ افسانے کی دنیا جو افسانہ نگار کے دماغ میں ہے، اس پر اس کا ادراک حاوی نہیں ہوتا؟میں تو یہی سمجھتا ہوں کہ ہم جیسے ہیں ویسا ہی دیکھتے بھی ہیں۔“

                ”افسانے کی دنیا جو افسانہ نگار کے دماغ میں ہے، اس پر اس کا تخیل حاوی ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں ادراک کا کچھ بہت زیادہ کام نہیں رہ جاتا۔“

                ”آپ بھولتے ہیں کہ میں نے بھی افسانے لکھے ہیں۔“

                ”اسی لئے تو آپ سے ایسی بات کہہ سکتا ہوں۔“قاری نے مسکرا کر کہا۔ ”ہما شما اس کو نہیں سمجھ سکتے۔ افسانہ نگار جس دنیا کو اپنے افسانے، یا فکشن کہہ لیجئے، فکشن میں بیان کرتا ہے ، وہ اس کی اپنی ہوتی ہے، یعنی اس کے دماغ کی پیداوار ہوتی ہے۔مانا کہ ہم جیسے ہیں ویسا ہی دیکھتے ہیں۔ لیکن اگر یہ خارجی مشاہدہ ہی سب کچھ ہوتا تو افسانہ یعنی فکشن بنتا کیسے؟ سب لوگ اپنے اپنے طور پر دنیا کو دیکھ رہے ہیں، کسی کو معلوم نہیں کہ دوسرا کیا دیکھ رہا ہے۔ یہی بات افسانہ نگارکی اہمیت ظاہر کرتی ہے۔ افسانہ نگار اپنی دیکھی ہوئی دنیا کو تصور میں لاتا ہے، پھر اس پر اپنے تخیل کو جاری کرتا ہے۔ اس طرح وہ ہمیں ایک اور طرح کی دنیا دکھاتا ہے۔ یہ کام وہ نہیں کر سکتا جو افسانہ نگار نہیں ہے۔ شاعر بھی نہیں کر سکتا۔ شاعر تو اپنی آواز میں گفتگو کرتا ہے، نئی دنیا بنانا اس کا کام نہیں۔ اور افسانہ نگار کی دنیا میں اچھائی برائی افسانہ نگار کی مرضی کی پابند نہیں ہوتی۔یہ وہ دنیا ہے جس میں اس کے تخیل کے رنگ رچ گئے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ افسانہ نگار کو حقیقی دنیا سے کچھ تقاضے، کچھ توقعات ہوں۔ لیکن وہ ان توقعات اور تقاضوں کو بھلا کر ہمیں اپنی دنیا دکھاتا ہے۔“

”لیکن ہمیں اس دنیا سے بھی توقعات اور تقاضے ہوتے ہیں۔“

                ”بےشک،“ قاری نے کچھ فتح مندانہ سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔”یہی وجہ ہے کہ ہم افسانے، یعنی فکشن، سے ہر وقت بر سر جدال رہتے ہیں۔ فلاں کردار نے یہ کیوں کیا، وہ کیوں نہیں کیا؟ فلاں بات اس طرح کیوں پیش آئی؟ وغیرہ۔“

                مجھے اچانک ایک بات سوجھتی ہے۔ ”اور ہم لوگ افسانہ نگار سے بھی بر سر جدال رہتے ہیں کہ اس نے ایسی دنیا کیوں بنائی جس میں فلاں بات نہ ہوئی اور فلاں بات ہو گئی اور فلاں بات اس طرح کیوں ہوئی؟“

                ”یہ تو آپ نے میری بات کہہ دی۔“قاری نے کہا۔”ہم لوگ افسانہ نگار کے ہاتھ میں کٹھ پتلی کی طرح ہیں، لیکن فرق یہ ہے کہ کٹھ پتلی اپنے نچانے والے سے جھگڑتی نہیں، اور قاری ہمیشہ جھگڑتا ہے، یا جھگڑ سکتا ہے۔“

                ”شاید اسی کو افسانے یعنی فکشن کی سماجی قدر سے تعبیر کرتے ہیں۔“ میں اپنی رو میں بولتا چلا جارہا تھا۔”یہ افسانے کی ہی طاقت ہے جو ہمیں افسانہ نگار کو خالق کا درجہ عطاکرنے پر مجبور کر دیتی ہے۔“

                قاری کچھ کہنا چاہتا تھا، لیکن میں نے اسے ہاتھ کے اشارے سے روکتے ہوئے کہا،”افسانے میں جس کر دار کو جیسا بنا دیا گیا، ویسا وہ بن گیا۔ افسانے میں جو واقعہ بیان کر دیاگیا وہ ہمیشہ کے لئے قائم ہو گیا۔ یہی افسانے کی قوت ہے۔ ہمیں وہ کردار ناپسند ہو، یا ہم اس کے بارے میںکچھ گو مگو میں رہیں، یا ہم کچھ بھی کر ڈالیں، لیکن معاملہ ہمیں اسی سے کرنا ہے۔ کوئی نیا کردار ہم نہیں خلق کرسکتے۔ ہاں اپنی دنیا میں اس نئے کردار کو شریک کرنے کے لئے ایک نیا افسانہ لکھ سکتے ہیں۔ایک ہی کردار کو ایک شخص برا کہے گا اور دوسرا شخص اچھا کہے گا۔ یا کہے گا کہ اس کی اچھائی برائی کے بارے میں فیصلہ ممکن نہیں، وغیرہ۔کسی کردار کے ایک ہی عمل کو ایک شخص اچھا اور دانشمندانہ بتائے گا تو دوسرا اس کے بر عکس کہے گا۔اس سے بڑھ کر افسانے کی قوت کیا ممکن ہے کہ “ اچانک باہر کچھ شور اٹھا۔ کئی فوجی، کئی پولیس والے لمبی لمبی ٹارچیں لئے کھٹ کھٹ اندر آگئے۔ کمرے میں بیٹھے ہوئے لوگوں نے پہلو بدلا، کچھ نے شاید یہ سوچ کر اٹھنا چاہا کہ اب انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں۔پھر باہر کچھ گاڑیوں کے اسٹارٹ ہونے کی آوازیں آئیں۔ ٹارچ کی تیز روشنی مجھ پر پڑی اور ایک لحظے کے لئے میری آنکھیں جھپک گئیں۔ جب میری بینائی بحال ہوئی تو یہ دیکھ کر میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ ملا علی قاری کی کرسی خالی تھی ۔