اردوخطوط غالب پر ایک اور نظر

یہ تحریر 6073 مرتبہ دیکھی گئی

                غالب کے اردو خطوط کے بارے میں بعض باتیں محمد حسین آزاد اور الطاف حسین حالی کے زمانے سے عام ہو گئی ہیں۔وہ باتیں صحیح تو ہیں لیکن ان سے خطوط غالب کا پورا حال نہیں معلوم ہوتا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس زمانے میں غالب کے جتنے خط ان لوگوں کی دسترس میں تھے آج ان سے بہت زیادہ تعداد میں خط ہمارے سامنے ہیں۔لہٰذا ہم غالب کے خطوط کے بارے میں آج جو کچھ جان سکتے ہیں اتنا اور اس طرح کا علم ان خطوط کے بارے میں آزاد اور حالی کے دور میں غیر ممکن تھا۔ لہٰذا غالب کے خطوط کے بارے میں آج کے پڑھنے والے کی رائے سو سوا سو برس پہلے کے پڑھنے والے کی رائے سے مختلف ہونی ہی چاہیئے، خواہ کم، خواہ زیادہ۔دوسری بات یہ کہ ہر زمانہ اپنے اپنے خیالات کے اعتبار سے فن پاروں اور فن کاروں کا محاکمہ کرتا ہے۔

                غالب کے زمانے میں یہ خیال بہت مشہور تھا کہ اردو نثر میں تصنع اور بے جا لفاظی اور بات کو بہت تکلف سے، بلکہ تکلیف دہ حد تک تکلف سے کہنے کا رجحان بہت عام ہے۔ مثال میں غلام غوث بے خبر (۱۸۲۴/۲۵تا ۱۹۰۴) کو پیش کیا جاتا ہے کہ ان کے اردو خطوط بہت مشکل اور پر تکلف زبان میں لکھے گئے ہیں۔ایسی صورت میں حالی اور آزاد کوغالب کے خطوط کی یہ بات بہت اہم معلوم ہوتی تھی کہ ان کی نثر بظاہرسادہ اور تکلفات سے عاری ہے۔حاتم علی مہر کے نام خط سے خود غالب کا یہ قول اکثر پیش کیا گیا کہ ”میں نے مراسلہ کو مکالمہ بنا دیا ہے۔“لیکن اکثر لوگوں نے یہ بات نظر انداز کر دی کہ اس زمانے میں لوگوں کی گفتگو میں بھی عربی فارسی کے مشکل الفاظ خاصی تعداد میں ہوتے تھے۔ اس لئے ،یہ کہنا درست سہی کہ غالب نے مراسلہ کو مکالمہ بنا دیا، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان کے خطوں میں آج کل کی سی عام بول چال کی زبان استعمال کی گئی ہے۔

                غالب نے جب یہ کہا کہ میں نے مراسلہ کو مکالمہ بنا دیا ہے، تو ان کاپہلا مطلب یہ تھا کہ میں نے خط کو بیانیہ نہیں بلکہ مکالمہ کے انداز میں لکھا ہے۔ یعنی میں خط اس طرح نہیں لکھتا کہ گویا اپنے حالات یا روداد لکھ رہا ہوں یا اپنے بارے میں خبریں سنا رہا ہوں، بلکہ میں اس طرح لکھتا ہوں گویا میں اپنے مکتوب الیہ سے باتیں کررہاہوں اور باتوں باتوں میں اپنے حالات بتا رہاہوں۔ یہ بات صحیح ہے، لیکن پوری طرح صحیح نہیں۔ غالب کے بہت سے خطوں میں، بلکہ زیادہ تر خطوں میں ،مکالمے کا انداز نہیں ہے۔ بلکہ ان کے بعض خط تو بیان اور روداد نگاری کے بہترین نمونے ہیں۔غالب نے جب یہ کہا کہ میں نے ایک نیا طرز ایجاد کیا ہے کہ مراسلہ کو مکالمہ بنا دیا ہے، تو یہ بات در اصل عمومی بیان نہیں تھی، بلکہ بعض ہی خطوط کے لئے صحیح تھی اور خاص کر اس خط کے لئے صحیح تھی وہ غالب اس وقت لکھ رہے تھے(یعنی حاتم علی مہر کے نام خط، جس میں یہ فقرہ آیا ہے۔)یہ بھی تھا کہ غالب اپنے دوستوں کے خطوں سے اتنے خوش ہوتے تھے خط نہیں بلکہ مراسلہ نگار خودمجسم ہو کر میرے سامنے آگیا ہے۔ لہٰذا ان معنی میں بھی ان کی نظر میں مراسلے کو مکالمے کا درجہ حاصل تھا۔

                مراسلہ کو مکالمہ بنا دینے سے غالب کا مطلب یہ بھی تھا کہ لمبے چوڑے القاب، آداب، سلام، دعا وغیرہ کے فقرے جو عام طور پر خطوں میں لکھے جاتے ہیں ،میںانھیں نہیں لکھتا۔غالب کی یہ بات تقریباًپوری طرح درست ہے۔ لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ غالب نے اپنے خطوں کے آغاز کو القاب، سلام، اور دعا وغیرہ سے بالکل خالی کر دیا ہو۔یہ ضرور ہے کہ القاب، سلام، دعا وغیرہ غالب نے جہاں لکھے بھی ہیں تو انھیں کم سے کم الفاظ میں لکھا ہے،حتیٰ کہ نوابان رام پور یوسف علی خان ناظم اور نواب کلب علی خاںکو بھی عموماً بہت مختصر القاب اور سلام لکھا ہے۔ مثلاً:

                ”حضر ت ولی نعمت، آیہ  رحمت، سلامت“(بنام یوسف علی خان)

                 ”جناب عالی“(بنام یوسف علی خان)

                 ”ولی نعمت، آیہ رحمت، سلامت“(بنام کلب علی خان)

یہ خیال رہے کہ القاب اور آداب اور دعا بہت مختصر رکھنے کے باوجود اوپر کی مثالوں میں غالب نے قافیے کا پورا اہتمام کیا ہے۔

                تیسری بات دھیان میں رکھنے کی یہ ہے کہ خط کے شروع میں القاب، سلام، اور دعا لکھنے میں غالب نے یقیناًبہت کمی کردی، لیکن خط کا پتہ لکھنے میں انھوں نے کوئی خاص کمی نہیں کی۔ مثال کے طور پر انھوں نے نواب زین العابدین خان کے نام خط یوں شروع کیا ہے:”بندہ پرور، مہربانی نامہ پہنچا۔“ لیکن ان کا پتہ لفافے پر یوں لکھا ہے:

بخدمت نواب صاحبِ مشفق و مکرم، مظہر لطف و کرم، نواب زین العابدین خان صاحب       بہادر عرف کلن میاں سلمہ اللہ تعالی، مقبول باد

آج ہما را بھی یہی طریقہ ہے کہ خط میں القاب وغیرہ چاہے بہت کم ہو، لیکن پتے پر مکتوب الیہ کا نام ہمیشہ کچھ تکلف کے ساتھ، یعنی کم سے کم ”جناب“، ”مولانا“، ”حضرت“ ، ”ڈاکٹر“، ”پروفیسر“،وغیرہ کے ساتھ لکھتے ہیں۔

                ایک تیسری بات یہ ہے کہ خط کی زبان بھی اپنی جگہ پر بہت اہم ہوتی ہے، یعنی وہ کون سی زبان ہے جس میں آپ خط لکھ رہے ہیں؟اکثر زبانوں میں مراسلے کی زبان کچھ نہ کچھ رسمی ضرور ہوتی ہے۔ خطوں میں کچھ پر تکلف اور تھوڑی سی بناوٹی زبان استعمال کرنا کوئی نئی بات نہیں اور نہ ہی یہ صرف اردو کا طریقہ ہے۔ یہ بات الگ کہ بعض زبانوں میں تکلفات کارواج زیادہ ہوتا ہے، بعض میں کم۔ عربی میں تکلفات بالکل نہیں ہیں۔ انگریزی میں تکلفات بہت کم ہیں، بلکہ اب تو نہیں کے برابر ہیں۔ لیکن کوئی ساٹھ ستر برس پہلے انگریزی میںسرکاری خطوںکا بھی اختتامیہ یوں ہوتا تھا:

                I have the honour to be, Sir, Your most obedient servant

لکھنے والا خواہ کتنا ہی بڑا افسر ہو اور مکتوب الیہ خواہ کتنا ہی چھوٹاافسر ہو، ہر خط یوں ہی تمام کیا جاتا تھا۔انگریزی

نثر پاروں میں اس قسم کی تکلفاتی زبا ن کا بھی رواج تھا جیسی زبان فارسی میں روز اول سے، اور مدتوں لکھی جاتی رہی ہے۔ بعد کے اکا دکا نثر نگاروں مثلاً جان رسکن (John Ruskin) کے علاوہ پر تکلف اور پیچیدہ زبان انگریزی والوں نے بہت پہلے ترک کردی تھی۔ رسکن نے اپنے بارے میں لکھا ہے کہ میں نے آہستہ آہستہ اس نثر سے گریز کا اہتمام کیا جس میں غیر ضروری تکلفات ہوتے تھے۔ مثلاً ، جہاں اب میں یہ لکھتا ہوں کہ

                Sir, Your house is on fire.

پہلے میں یوں لکھتا تھا:

                Sir, The abode in which you probably passed the delightful days of youth is in a state of inflammation.

رسکن نے لکھا ہے کہ probablyاور passed،delightfulاور daysکی بے ضرورت تجنیس کے علاوہ یہ پوری بات ہی بے معنی ہے کہ ”جناب، وہ گھر جہاں آپ نے غالباً نوجوانی کے پرلطف دن گذارے“، کیونکہ اس کا اس معلومات سے کوئی تعلق نہیں ہے جو آپ اپنے مقول (addressee)تک پہنچانا چاہتے ہیں۔اس پر طرہ یہ کہ houseکی جگہ abode اور on fireکی جگہ state of inflammation لاطینی الاصل اورنامانوس لفظ تو ہےں ہی، ان کو ادا کرنے میںبہت دیر بھی لگتی ہے۔

                کہنے کا مطلب یہ ہے کہ انگریزی میں بھی پر تصنع نثر سے سادہ نثر تک کا سفر چند لمحوں میں نہیں طے ہو گیا تھا۔ لہٰذا اگر اردو نے بھی یہ سفر دیر میں طے کیا تو کچھ بری بات نہیں۔غالب کے بہت پہلے ہمارے یہاں سادہ، سلیس، اور معلومات افزا نثر کا رواج ہو چکا تھا۔اور پہلے زمانے میںانگریزی میں ذاتی مراسلوں کی نثر بھی عموماً سادہ لیکن تکلفات سے خالی نہ تھی۔اب وہاں ذاتی خطوں اور سرکاری خطوں کی بھی نثر بہت دو ٹوک اور تکلفات سے عاری ہو گئی ہے۔ فارسی میں القاب پہلے بہت زیادہ تھے، اور اب بھی اردوسے زیادہ ہیں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے اردو میں القاب اور سلام وغیرہ کی کمی کچھ اس وجہ سے ہو کہ اردو زبان میں تکلفات کا رواج زیادہ نہ ہو سکا، یعنی فارسی نثر کا اثر اردوپر کم پڑا، کیوں کہ اردو نثر (خواہ مراسلہ یا کوئی اور تحریر) کے پڑھنے والے فارسی سے عموماً ناواقف تھے۔ ہوسکتا ہے انگریزی انداز مراسلت کا بھی کچھ اثراردو مراسلت پر پڑا ہو۔ لیکن اس میں تو کوئی شک نہیں کہ غالب نے اردو خطوط نویسی کو متاثر کیا اور اس کے بنیادی انداز بڑی حد تک غالب ہی کے دیئے ہوئے ہیں۔

                غالب نے اردو میں خط لکھنا نہ شروع کیا ہوتا تو اردو میںنئی طرح کی عالمانہ اور علمی نثرکے شروع ہونے میں کچھ دیر لگ سکتی تھی۔ یہ بات صحیح ہے کہ غالب سے بہت پہلے اردو میں ایسی نثر لکھی جا چکی تھی جس میں عبارت آرائی اور پیچیدہ عربی فارسی آمیز اسلوب کی جگہ اد اے مطلب کو زیادہ اہمیت دی گئی تھی۔ اور ایسی نثر فورٹ ولیم کالج کے قیام کے بھی بہت پہلے سے اردو میں لکھی جارہی تھی۔لیکن اس نثر کو علمی نہیں کہہ سکتے، یعنی ان تحریروں کے مخاطب ایسے لوگ تھے جو فارسی نہیں جانتے تھے۔ شاہ عبد القادر اور دوسرے بزرگوں کے ترجمہ قرآن ہوں، یا شاہ رفیع الدین کا ترجمہ اور مختصرتفسیر قرآن ، یا شاہ مراد اللہ سنبھلی کا ترجمہ و تفسیر، یا برندابن متھراوی ، ہری ہر پرشاد سنبھلی اور رستم علی بجنوری کی تاریخیں، یہ سب لوگ فورٹ ولیم کالج کے بہت پہلے تھے، اور ان کی تحریریں اگرچہ عمدہ اردو نثر کا نمونہ ہیں لیکن یہ علمی نثریں نہیں ہیں کیونکہ ان میں علمی مسائل نہیں بیان کئے گئے ہیں۔اس کے بر خلاف ،ایک طرف تو غالب کی نثر ایسی نثر ہے جس میںفرحت انگیزبے تکلفی، کشادگی اور برجستگی ہے، اور دوسری طرف اس نثرکے ساتھ یہ بھی ہے کہ اس میں عالمانہ مسائل اور باریک مضامین کا بیان بھی ہو سکتا ہے۔ یعنی غالب کی نثر ایک طرف تو غیر رسمی اور گھریلو قسم کی ہے اور دوسری طرف اس میں اتنی لچک بھی ہے کہ مشکل باتےں بھی اس کے لئے کچھ مشکل نہیں ہیں۔

                غالب کے خطوط کی نثر کے انداز کو آگے چل کر سر سید، شبلی، سید سلیمان ندوی وغیرہ نے پروان چڑھایا۔پھر ہمارے زمانے میںمجنوں گورکھ پوری، رشید احمد صدیقی، اور محمد حسن عسکری کے یہاں اس کا نیا رنگ روپ نکھرا۔ یہ نثر شعوری طور پر استدلال اور بحث و مباحثہ کو اختیار کرتی ہے لیکن اس کا آہنگ ہمیشہ رواں اور بے تکلفانہ ہوتا ہے۔

                خطوط غالب کے پہلے علمی نثر کا نمونہ امام بخش صہبائی کے ترجمہ ”حدائق البلاغت“ میں دیکھا جاسکتا ہے۔ صہبائی نے علم بیان پر فارسی کے مشور شاعر اور عالم شمس الدین فقیر کی اس کتاب کاترجمہ اردو میں کیا تھا (۱۸۴۴)، اوران کا مقصد یہ تھا کہ جو لوگ فارسی کی علمی عبارت نہیں سمجھ سکتے وہ اردو کے ذریعہ شمس الدین فقیر سے استفادہ کر سکیں۔لیکن ان کا ترجمہ خود اس قدر خشک اور ادق ہے کہ ادب کے عام طالب علموں کے لئے اس کا کار آمد ہونا مشکوک لگتا ہے۔یہ ترجمہ (جس پر بعد میں حاشیے بھی لکھے گئے، مثلاً شمشاد لکھنوی کا ”نہر الافاضة“)صرف مدرسوں میں کام آیا۔ عام لوگ شاید ہی اس تک پہنچ سکے۔ خودسر سیدنے ”آثار الصنادید“ کے پہلے ایڈیشن (۱۸۴۷) میںبعض جگہ ایسی اردو لکھی ہے جو نہایت جکڑی ہوئی ہے۔ اس کا صحیح پڑھنا بھی مشکل ہے، چہ جاے کہ اس کو سمجھنا۔یہ بات خیال میں رہے کہ غالب نے اردو میں خط لکھنے کا آغاز ۱۸۴۹ یا اس سے کچھ ہی پہلے کیا ہو گا۔ اور ان کے خطوط کے ادبی حسن کی شہرت بعد میں پھیلی۔ سر سید نے یقیناً غالب کا اثرقبول کیا ہوگا، کیونکہ ”آثار الصنادید“ کی دوسری جلدیںصاف اور بے تکلف بیانیہ نثر میں ہیں۔

                علمی نثرکی غیر ضروری پیچیدہ بیانی کے ماحول میں غالب کے خطوط تازگی اور شگفتگی کی نئی ہوا اور نئی خوشبو لے کر آتے ہیں۔غالب نے اپنے خطوط میں جا بجا علمی اور فنی نکات پر گفتگو کی ہے، الفاظ اور تراکیب کی اصل اور ان کے معنی پر بحث کی ہے۔ لیکن سلسلہ کلام اتنا مربوط اور انداز اتنا بے تکلف اور رواں ہے کہ اکثر یہ گمان ہی نہیں گذرتاکہ ہم کوئی دقیق بات پڑھ رہے ہیں۔یہ بات بہت دلچسپ اور ایک حد تک حیرت انگیز ہے کہ غالب کی شاعری اکثر نہایت پیچیدہ اور مبہم ہے لیکن ان کے خطوط (اور زیادہ تر دیباچوں، تقریظوں) کی نثر پہاڑی چشمے کے پانی کی طرح رواں اور شفاف ہے۔

                غالب کو تفہیم اور تفصیل کا غیر معمولی ملکہ تھا۔ حالی نے ایک جگہ مصطفےٰ خاں شیفتہ کی زبانی لکھا ہے کہ ایک بار وہ شاہ ولی اللہ صاحب یا ایسے ہی کسی بزرگ کی نہایت مشکل کتاب کا مطالعہ کر رہے تھے اور ایک جگہ بالکل سمجھ میں نہ آتا تھا کہ مصنف کا منشا کیا ہے۔ وہ بالکل اٹک کر رہ گئے تھے کہ اتفاقاً غالب ادھر آنکلے ۔ شیفتہ نے مرزا غالب سے پوچھا تو انھوں نے ذرا سے تامل اور غور کے بعد اس قدر شگفتہ اور سلیس انداز میں مکمل معنی بیان کئے کہ بقول شیفتہ خود مصنف بھی اس سے زیادہ اور اس سے بہتر نہ بیا ن کر سکتے تھے۔ایسا ہی ایک واقعہ

حالی نے مولانا فضل حق خیر آبادی کے بھی حوالے سے بیان کیا ہے کہ مولانا نے غالب کے بیان کردہ ایک شعر کے معنی کے بارے میں کہا کہ اگر شاعر نے وہ معنی مراد نہیں لئے جو غالب نے بیان کئے ہیں تو شاعر نے سخت غلطی کی ہے۔

                غالب اگر تعلیم اور تعلم کے پیشے میں ہوتے تو بہت کامیاب ہوتے کیونکہ ان کا ذہن بہت تیز تھا، قوت فکر بہت متحرک تھی اور وہ باتوں کو نہایت وضاحت سے بیان کرنے پر قدرت رکھتے تھے۔ جن لوگوں کی قوت فکر بہت متحرک ہوتی ہے ان کا ذہن عموماً اپنے مخاطب کے ذہن سے بہت زیادہ آگے چلتا ہے۔سننے والا ابھی کسی نکتے کو ذہن نشین کر رہا ہوتا ہے کہ متحرک فکر والا شخص کوئی اور بات شروع کر دیتا ہے۔ اس کے برخلاف، غالب اپنی بات صبر اور تفصیل سے سمجھانے میں کمال رکھتے تھے۔

                اوپر میں نے حاتم علی مہر کے نام غالب کے خط کا ذکر کیا ہے۔مہر کے نام اس ایک جملے کی بنا پر عام طور پر لوگوں نے غالب کے خطوط پڑھے بغیر یہ فرض لیا ہے کہ غالب کے خطوں کی زبان بالکل عوامی بولی کی طرح سادہ ہے، اس میں کسی قسم کی آرائش نہیں، ردیف و قافیہ نہیں، عربی فارسی کے بھاری الفاظ نہیں۔ بعض لوگوں نے جوش میں آکر یہاں تک کہہ دیا ہے کہ غالب کی نثر میں”دھرتی اور مٹی کی خوشبو“ ہے۔ یہ بات بالکل غلط ہے ۔غالب کے خطوں کی زبان عوامی زبان کی طرح سادہ نہیں۔ اس میںاشرافیہ طبقے کے کسی عالی مرتبہ اور پڑھے لکھے شخص کی گفتگو کا لطف ضرور ہے۔ اور اس گفتگو کی سطح عام طور پر عالمانہ اور اس کی زبان نکھ سکھ سے درست ہے۔یہ بات صحیح ہے کہ جب غالب کے اردو خطوط کی اشاعت کی تحریکیں جگہ جگہ سے ہوئیں تو انھوں سے سختی سے انکار کیا۔ انھوں نے کہا کہ شاید ہی کوئی خط ہوگا جو میں نے قلم سنبھال کر لکھا ہو۔ انھوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ ان خطوط کی اشاعت میری بدنامی کا باعث ہو گی۔ لیکن اس سے یہ نتیجہ نکالنا درست نہیں کہ غالب نے ان خطوط میں ”عوامی بولی ٹھولی“استعمال کی ہے۔

                ظاہری چیزوں پر نظر کیجئے تو معلوم ہوتا ہے کہ غالب نے سادہ نہیں بلکہ مقفیٰ عبارت لکھنے کا خاص اہتمام کیا ہے۔پھر یہ بھی ہے کہ ان کے یہاں عربی الفاظ کثرت سے ہیں، فارسی کا تو ذکر ہی کیا۔ ان کے یہاں پراکرتی الفاظ نسبةً کم ہیں۔اگرچہ وہ موقعے کی مناسبت سے الفاظ لاتے ہیں،لیکن ایسا نہیں کہ وہ عربی فارسی کو چھوڑ کرٹھیٹ اردو ہی استعمال کرتے ہوں۔ صرف ایک میر مہدی مجروح کے نام خطوں سے چند مثالیں ملاحظہ ہوں:

(۱)فیض خاص نہیں لطف عام ہے، یعنی شراب نہیں آم ہے۔خیر یہ عطیہ بھی بے خلل ہے بلکہ نعم البدل ہے۔

                 (۲)سر منڈا ڈالا ہے محلقین رءوسہم پر عمل کیا ہے۔

 (۳)ساقی کوثر کا بندہ اور تشنہ لب۔ہائے غضب ہائے غضب۔

(۴) یہ رام پور ہے، دارالسرور ہے یہاں کا حال ہر طرح خوب ہے اور صحبت مرغوب ہے۔

(۵)او میاں سید زادہ آزادہ، دلی کے عاشق دلدادہنہ دل میںمہر و آزرم نہ آنکھ میں حیا و شرم۔

                قافیے کے اہتمام کے علاوہ رعایت اور صنائع کا بھی استعمال نمایاں ہے۔یہ چند مثالیں اس بات کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں کہ جہاں غالب کا دل چاہتا ہے وہاں وہ قافیہ، یا عربی فارسی کے مشکل الفاظ یا فقرے برت لیتے ہیں۔اسی طرح، جب ان کا دل چاہتا ہے تو وہ لمبے لمبے القاب اور سلام لکھتے ہیں۔ جہاں جی نہیں چاہتا، یا شاید کچھ جلدی انھیں رہتی ہے، وہاں وہ القاب و سلام کو بہت کم کردیتے ہیں۔ میاں داد خاں سیاح کو بعض بعض خطوں میں غالب نے حسب ذیل القاب و دعا لکھی ہے:

                (۱)منشی صاحب سعادت و اقبال نشاں، منشی میاں داد خاں سیاح سیف الحق سلمکم

                اللہ تعالیٰ

 (۲)منشی صاحب سعادت واقبال نشاں، سیف الحق میاں داد خاں کو دعا

اور انھیں میاں داد خاں سیاح کو کئی خطوں میںصرف ”صاحب“ ، بعض میں صرف ”بھائی“، بعض میں”خاں صاحب“اور بعض میں”مولانا سیف الحق“ لکھا ہے۔علا ءالدین احمد خان علائی کے نام غالب ایک خط یوں شروع کرتے ہیں:من الغالب الیٰ العلائی۔پھر ایک خط یوں شروع کرتے ہیں:”یار بھتیجے، گویا بھائی، مولانا علائی“۔علائی کے نام کبھی کبھی کسی خط میں کوئی القاب، آداب، دعا، کچھ نہیں (مثلاًخط مورخہ ۱۲ نومبر ۱۸۶۱)، اور کبھی القاب یوں ہے:”نیر اصغر سپہر سخن سرائی مولانا علائی“۔

                اس سے معلوم ہوا کہ غالب کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ کسی قاعدے کے پابند نہیں ہیں۔ان کے خط ان معنی میں من کی موج کا اظہار ہیںکہ جس وقت جس طرح چاہا لکھ دیا۔پورا خط ایک منقش فن پارہ ہے۔ کہیں کسی طرح کے گل بوٹے ہیں تو کہیں کسی اور طرح کے۔اور ان سب میں آپسی ہم آہنگی انتہا

درجے کی ہے۔ کہیں سے کچھ بھی انمل بے جوڑ نہیں۔اس نثر کا انداز عالمانہ یا علمی نہ ہوتا تو عربی فارسی کے نامانوس فقرے اس میں بے دھڑک حل نہ ہو سکتے۔عبد الزاق شاکر کو ایک خط میں اپنے شعر کا مطلب وہ یوں بیان کرتے ہیں:

وجود محض رنج و عنا ہے۔ مزارع کا وہ لہو جو کشت و کار میں گرم ہوا ہے وہی لالے کی راحت کے خرمن کا برق ہے۔

                یہ عبارت ان کے خط میں اسی طرح کھپ جاتی ہے جس طرح اسی خط کے شروع میں یہ فقرہ:”واللہ اگر مجھ کو یاد ہو کہ سابق میں کوئی غزل آپ کی آئی ہو۔“

                غالب نے اردو نثر کو جدید زبانوں جیسا علمی آہنگ دے کر ثابت کردیا کہ اردو زبان مختلف طرح کے مطالب بخوبی ادا کر سکتی ہے۔غالب اپنے خطوں میںبیک وقت بہت بڑے مزاح نگار ، بہت بڑے عالم، بہت بڑے شاعر، بہت بڑے واقعہ نویس اور شہر دہلی کے بے نظیر مرثیہ خواں، اور بہت بڑے انسان ہیں۔علاوہ بریں، وہ ہم انسانوں کی طرح چڑ چڑے، جھگڑالو، گھمنڈی اور زمانہ شناس بھی ہیں۔ وہ زبان کے ایک معاملے میں نواب کلب علی خان کی ایک بات بمشکل مان لیتے ہیں لیکن یہ بھی کہتے ہیں کہ میں آپ کی بات کاقائل نہیں ہوا، لیکن صرف اس لئے مانے لیتا ہوں کہ آپ میرے ولی نعمت ہیں:

                ان دونوں باتوں کو میں نے مانا، لیکن نہ فرہنگ لکھنے والوں کی رائے کے بموجب،

                 بلکہ اپنے خداوند کے حکم کے مطابق۔

پھر یہی غالب انھیں نواب کلب علی خان کی درگاہ میںاپنے قرضوں کی ادایئگی اور اپنے منھ بولے بیٹے کی شادی کے اخراجات کے لئے گڑگڑاتے بھی ہیں لیکن کامیابی یہاں ان کے قدم نہیں چومتی۔ایک غیرا ہم شخص لیکن اپنے دوست یوسف علی خاںعزیز بنارسی کی خاطر وہ اپنے خاص عزیز اوربقول خود، اپنے خلیفہ ثانی اور فرزند روحانی معنوی علا ءالدین احمد خان علائی کو سمجھاتے ہیں کہ تم چاہے مجھ سے خفا ہوجاﺅ لیکن یوسف علی خان عزیز سے صرف نظر کرو۔ ”ایک بار میں نے دکنی [محمد حسین تبریزی صاحب ”بر ہان قاطع“ مدتوں دکن میں متوطن رہے تھے اس لئے غالب انھیں ہمیشہ از راہ حقارت ’دکنی‘ کہتے تھے]کی دشمنی میں گالیاں کھائیں، ایک بار بنارسی کی دوستی میں گالیاں کھاﺅں گا۔“

                غالب میں کردار نگاری کی بھی صلاحیت ہے اور وہ مکالمہ اوربیانیہ دونوں پر قادر ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ غالب کی پوری شخصیت اپنی پوری دلکشی اور انسانی کمزوریوں کے ساتھ ان خطوط میں جلوہ گر ہے۔ غالب سے زیادہ ہمارے کسی مصنف نے خطوط میں خود کو اس قدر بے پردہ نہیں کیا۔اس صفت میں کوئی ان کا ثانی نہیں۔

٭٭٭