اختصاص کا وحشی پن

یہ تحریر 814 مرتبہ دیکھی گئی

اختصاص کا وحشی پن٭

آرتیگا۔ ای۔ گاست

(۱)

میرا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ انیسویں صدی کے تمدن نے خود بہ خود بے چہرہ ازدحامی انسان Mass-Man کو جنم دیا ہے۔ بہتر یہ رہے گا کہ کسی خاص صورتِ حال کے حوالے سے اس تمدن کی پیداوار (بے چہرہ اجتماعی انسان) کی میکانکیت کی عمومی تشریح کے ساتھ ہی ساتھ اس کا تجزیہ بھی پیش کیا جائے۔ اس طرح مقرون اور واضح صورت اختیار کر لینے کے نتیجے میں مرکزی نکتے میں ترغیبی قوت پیدا ہو جاتی ہے۔

انیسویں صدی کی تہذیب کا خلاصہ میرے خیال میں دو بڑے ابعاد کی صورت میں بیان کیا جا سکتا ہے: روادار جمہوریت اور تکنیکیت۔ آئیے پہلے مؤخرالذکر پر غور کریں۔ جدید تکنیکیت نے سرمایہ داری اور تجربی سائنس کے باہم اختلاط سے جنم لیا ہے لیکن واضح رہے کہ تمام تکنیکیت سائنسی نہیں۔ جس شخص نے شیلین عہد(۱) (Chelian) میں پتھر کا کلہاڑا بنایا تھا وہ سائنس سے ناواقف تھا لیکن اس کے باوجود اس نے ایک تکنیک کو ضرور جنم دے ڈالا۔ چین تکنیکیت کی معراج پر پہنچ گیا تھا لیکن اسے اس گمان کا شائبہ تک نہ تھا کہ طبیعیات وجود رکھتی ہے۔ جدید یورپی تکنیک کی ایک سائنسی بنیاد ہے اور اسی سائنسی اساس نے اسے ایک مخصوص مزاج عطا کیا ہے __ بے حساب ترقی کے امکانات۔ اس کے علاوہ تمام دیگر تکنیکیں مثلاً عراقی، مصری، یونانی، رومی اور مشرقی، ارتقا کے ایک نقطے پر پہنچ جاتی ہیں اور اس کے بعد ان کا سانس پھولنے لگتا ہے اور اس نقطے تک پہنچنے کے فوراً بعد ہی ان کا رجعت قہقہری کا افسوس ناک سفر شروع ہو جاتا ہے۔

یہ معجز آثار مغربی تکنیکیت یورپی نسل کی بے پناہ افزائش اور وسعت کا باعث بنی ہے۔ اس نکتے کو ذہن میں لائیے جہاں سے اس مضمون نے ایک نئی جہت اختیار کی تھی اور جو جیسا کہ میں نے کہا، اپنی اصل میں زیر بحث تمام سوچ بچار کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ چھٹی صدی عیسوی سے اٹھارویں صدی تک یورپ کی آبادی کبھی اٹھارہ کروڑ سے تجاوز نہ کرسکی۔ اٹھارویں صدی سے ۱۹۱۴ء تک یہی آبادی چھیالیس کروڑ سے بھی تجاوز کر جاتی ہے۔ ہماری تاریخ میں اتنی بڑی جست کی پہلے کہیں مثال نہیں ملتی۔ اس میں شک شبے کی کوئی گنجائش نہیں کہ یہ صرف تکنیکیت کا فیضان ہے جس نے روادار جمہوریت سے آمیخت ہو کر مقداری معنوں میں ازدحامی آدمی کو جنم دیا ہے لیکن ان صفحات میں یہ ثابت کرنے کی کوشش بھی کی جائے گی کہ یہی تکنیکیت ازدحامی آدمی کے قابلِ نفرت اصطلاحی وجود کا موجب بھی بنی ہے!

ازدحام سے جیسا کہ میں پہلے عرض کر چکا ہوں، خاص طور پر صرف محنت کش ہی مراد نہ لیے جائیں۔ یہ اصطلاح کسی سماجی گروہ کے اظہار کے لیے وضع نہیں کی گئی بلکہ ایک ایسے انسان کے لیے ڈھالی گئی ہے جو جدید عہد کی تمام معاشرتی جماعتوں میں ملتا ہے اور جو نتیجۃً ہمارے عہد کی نمایندگی کرتا ہے __ ہمارا عہد جس پر آج وہ ایک مقتدر قوت کے طور پر چھایا ہوا ہے۔ آئیے اس مفروضے کے لیے اب ہم کافی و شافی شواہد کی تلاش کریں۔

آخر کون ہے وہ جس کے ہاتھ میں آج کل سماجی اقتدار کی عنان ہے؟ کون ہے جو اپنے ذہنی تصرفات و اخترافات کو وقت پر ٹھونستا ہے؟ اس کا جواب بغیر کسی شک و شبہ کے یہ ہے کہ یہ ہے متوسط طبقے کا فرد! اب سوال یہ ہے کہ خود متوسط طبقے کے اندر وہ کون سا گروہ ہے جسے برتر گروہ یا عہدِ موجود کی اشرافیہ کہا جا سکتا ہے؟ بغیر کسی ریب و شک کے اہلِ تکنیک، انجینئر، ڈاکٹر، سرمایہ کار اور معلم وغیرہ کا نام لیا جا سکتا ہے۔ پھر یہ بھی کہ خود اہلِ تکنیک میں سے کون ہے وہ فرد جو اس گروہ کی بہترین اور خالص ترین نمایندگی کرتا ہے؟ اس کا جواب بھی یہی ہے کہ سائنس کا آدمی۔ اگر کسی سیارے کی مخلوق کو آج یورپ کی سیر کا موقع مل جائے اور اس کے متعلق کوئی رائے قائم کرنے کے لیے وہ یہ پوچھ بیٹھے کہ افراد کی کون سی ٹائپ کو یورپ اپنی اطمینان بخش نمایندگی کے لیے پیش کرے گا تو لاریب اپنے لیے مفید مطلب رائے کے حصول کے لیے یورپ اپنے سائنس کے آدمیوں کی طرف اشارہ کر دے گا۔ یقین واثق ہے کہ ہمارا یہ سیاروی مہمان فطین اور نابغہ افراد کے متعلق نہیں پوچھے گا بل کہ سائنس کے اس عمومی آدمی کے متعلق استفسار کرے گا جو آج یورپ کی انسانیت کا نقطۂ معراج متصور ہوتا ہے۔

گویا اب یہ کھلا کہ یہ نرا کھرا سائنس کا آدمی اصل میں آج کے ازدحامی آدمی ہی کی حقیقی قسم ہے۔ یہ صورتِ حال کسی اتفاق محض کا نتیجہ نہیں اور نہ ہی یہ سائنس کے کسی مخصوص آدمی کی انفرادی ناکامیوں کے باعث ہے بلکہ یہ سب کچھ سائنس کا کیا دھرا ہے __ جو ہماری تہذیبِ حاضر کی اساس ہے __ اور جو خود بہ خود سائنس کے آدمی کو ایک ازدحامی فرد میں تبدیل کر دیتی ہے __ عہدِ عتیق کے غیر مہذب فرد میں __ ایک جدید بربر میں۔ یہ حقیقت بڑی عام ہے اور یہ اپنے آپ کو باربار دہرا چکی ہے لیکن ا س کے باجود اس کی اصل معنویت اور واضح سنجیدگی بہ تمام و کمال اس وقت اجاگر ہوتی ہے جب اسے اس کے آج کے مرکزی نقطے سے باہم مربوط کیا جائے۔

تجربی سائنس کا آغاز سولھویں صدی کے اختتام کے قریب قریب ہوا (گلیلیو) سترھویں صدی کے آخر میں اس کے حدود واضح طور پر متعین ہوگئے (نیوٹن) اور اٹھارویں صدی کے وسط میں اس کے ارتقاء کا آغاز ہوا۔ کسی چیز کی ترقی اور اس کی تشکیل میں فرق ہوتا ہے۔ یہ بات مختلف تاملات کی محتاج ہے۔ چناں چہ طبیعیات کی  تشکیل نو نے تو __ جو تمام تجربی علوم کا مشترکہ نام ہے __ ارتباط و اتفاق کی کوشش کو لازمی قرار دے دیا۔ نیوٹن اور اس کے عہد کے دوسرے لوگوں کی کوششیں اسی ذیل میں آتی ہیں لیکن طبیعیات کی ترقی نے تطبیق و توفیق کے برعکس ایک نئی جہت دکھائی۔ ترقی کرنے کے لیے اب سائنس نے اختصاص کا مطالبہ کر ڈالا اور یہ تخصیص خود سائنس کے اندر نہیں بلکہ سائنس دانوں کے مابین لازمی قرار پائی۔ سائنس کبھی متخصِّص نہیں ہوا کرتی۔ اگر ایسا ہوتا تو اس حقیقت کی روشنی میں سائنس باطل ٹھہرتی۔ اور تو اور تجربی سائنس بھی اپنی سالمیت اور وحدت کے حوالے سے ریاضیات، منطق اور فلسفے سے الگ ہوکر سراسر باطل ہو جاتی ہے لیکن اس کے برعکس سائنسی کام لازماً تخصیص کا مطالبہ کرتا ہے۔

یہ امر اگرچہ پہلی نظر میں شاید اتنا مفید معلوم نہ ہو مگر فی الاصل باعثِ دل چسپی بھی ہوگا اور مفید بھی کہ طبیعیاتی اور حیاتیاتی علوم کی باقاعدہ تاریخ مرتب کی جائے اور محققین کے بڑھتے ہوئے تخصیصی رجحانات کا جائزہ لیا جائے۔ تب جا کر ہی یہ معلوم ہوگا کہ نسلاً بعد نسلٍ سائنس دان بتدریج ذہنی مشغولیتوں کے تنگ سے تنگ دوائر میں محدود ہوتا جا رہا ہے لیکن مذکورہ بالا تاریخ کا یہ نکتہ زیادہ اہم نہیں ہوگا بلکہ اس کی معکوس صورت احوال یعنی یہ کہ کس طرح ہر عہد میں سائنس دان اپنے دائرہ کار کو محدود کرتے کرتے سائنس کی دوسری فروع سے اور کائنات کی اس مہتم بالشان توجیہہ و تعبیر سے جو تنہا سائنس، کلچر اور یورپی تمدن جیسے ناموں کی سزا وار ہے، بتدریج دور ہوتا چلا گیا۔

اختصاص کا آغاز بے کم و کاست اس دور سے ہوتا ہے جس نے مہذب انسان کو ہمہ جہت عالم کا خطاب دیا۔ انیسویں صدی کے سفر کا آغاز ان شخصیتوں کی راہنمائی میں شروع ہوا جنھوں نے علم کی تمام جہات میں زندگی بسر کی، اگرچہ ان کے نتائج کار میں کہیں کہیں تخصیص بھی نظر آتی ہے۔ اگلی نسل کے آتے ہی یہ توازن بگڑ گیا اور اختصاص نے کلچر کو بخود مکتفی سائنس دان سے الگ کرنا شروع کر دیا۔ جب ۱۸۹۰ء کے لگ بھگ ایک تیسری نسل یورپ کی فکری قیادت اپنے ہاتھ میں لیتی ہے تو ہمارا سابقہ ایک ایسے سائنس دان سے پڑتا ہے جس کی نظیر پوری تاریخ میں نہیں ملتی۔ یہ ایک ایسی شخصیت ہے جو صرف ایک علم ہی سے واقف ہے حال آنکہ صاحب الرائے ہونے کے لیے وسیع ذخیرہئ علوم میں سے معقول حد تک کا علم بہت ضروری ہے۔ پھر یہ کہ وہ اس علم کے بھی صرف ایک حقیر کونے کھدرے سے شناسائی رکھتا ہے جس کا وہ پُرجوش محقق ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ وہ اس امر کا اعلان بھی اپنی پارسائی کے طور پر کرتا ہے کہ وہ اپنے نہایت محدود دائرہ کار سے باہر کی کسی چیز کا نوٹس تک نہیں لیتا اور علم کی عمومی تدبیر کاری میں کسی قسم کی دل چسپی دکھانے کو اتائی پن سے تعبیر کرتا ہے۔

جاری ہے۔۔۔۔

٭           The Barbarism of Specialization

(۱)          نہایت قدیم سنگین تمدن، شیلے، پیرس کے نزدیک ایک مقام جہاں سے پتھر کی مصنوعات ملی ہیں۔ (مترجم)