آفاقی ڈاکیے

یہ تحریر 265 مرتبہ دیکھی گئی

میرے گھر کو آتی، بل کھاتی پگڈنڈی کنارے
کئی رنگ کے پھول کھلے ہوئے ہیں
میں آتے جاتے
جن سے ہمکلام ہوتی ہوں
کہ آج کے مشینی دور میں
وہ میرے آفاقی ڈاکیے ہیں
جنکی خوشبو میں میرے خوابوں کی تعبیر پنہاں ہے
جنکے رنگوں میں میرے کنور، میرے کنہیا کے ہونے کا نشاں نہاں ہے
میں ہر روز جنکے دامن میں اپنی تقدیر کی شطرنج بچھاتی ہوں
انکے مکھ پہ کھلے رنگ کوصدقِ دل سے
وقت کا اگلا مہرا گردانتی ہوں
میرے پھول، میرے ڈاکیے!
جو کبھی جامنی رنگ اوڑھ کر
آمدِ بہار کا میٹھا گیت بنتے ہیں
جو کبھی نیلے رنگ میں گنگنا کر
دور دِشاؤں میں رِستے ملال کی صدا بنتے ہیں
جو کبھی سفید رنگ میں ہنس کر
میری بے سود محبتوں کا مدفن بنتے ہیں
مجھے ان پھولوں کی زباں کا علم ہے
مَیں رنگوں سے اچھے سے واقف ہوں
کہ مَیں وہ زمین ذادی ہوں
جسکی بھوری آنکھوں میں، ستاروں کی روشنی
مِٹی کے پردوں سے ڈھکی پڑی ہے