2023:ایک قاری کا رد عمل

یہ تحریر 125 مرتبہ دیکھی گئی

“آج ان تمام دنوں میں صرف ایک دن ہے جو کبھی ہوگا”۔
(ارنسٹ ہیمنگ وے)
مجھے یاد نہیں آتا کہ دسمبر کا آخری ہفتہ دہلی میں گزارا ہو۔ یہ دن چھٹیوں کے ہوتے ہیں اور میں گھر آ جاتا ہوں۔بس ایک گھر کا راستہ ہے جو وقت کے ساتھ روشن ہوتا گیا۔ لیکن کبھی کبھی راہ میں کچھ دھند دکھائی دیتی ہے اور نگاہ الجھ سی جاتی ہے۔
ہوس سیر و تماشا سو وہ کم ہے ہم کو
یہ دعوی اسی وقت دلیل بنتا ہے جب رخ گھر کی طرف ہو۔ گھر بھی کبھی کائنات معلوم ہوتا ہے اور کبھی اتنا سمٹ سا جاتا ہے کہ حیرت ہوتی ہے۔ہم ایک سمٹے ہوئے گھر میں رہتے ہیں یا سمٹی ہوئی کائنات میں۔ اور کبھی چھوٹی سی کائنات ایک نظر اور ایک احساس کے ساتھ پھیلتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ رخ چاہے گھر کی طرف ہو یا دنیا کی طرف خیال کی دنیا اپنا ایک رخ طے کر لیتی ہے۔ بڑی مشکلوں سے اسے کھینچ کر کسی اور طرف لانا پڑتا ہے۔ خیال بھلا کتنی دیر کسی کی سن سکتا ہے۔ آج ہی کی تاریخ تھی یہی گھر تھا جہاں بیٹھ کر گزرے ہوئے سال یا گزرتے ہوئے سال کے بارے میں کچھ سوچا اور لکھا تھا۔ گھر کے دروازے سے کتنی دور دیکھا جا سکتا ہے اور کتنا سوچا جا سکتا ہے ایک ہی مقام وقت کے ساتھ کسی اور طرح کا احساس دلاتا ہے۔ در و دیوار کی طرف جتنی بار دیکھیے ایک نیا احساس ہوتا ہے۔ در و دیوار بھی ایک متن کی طرح دکھائی دیتے ہیں اور دیوار کا کوئی گرا ہوا پلاسٹر بار بار اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔جب دیوار کھردری تھی تو اس سے ہمارا رشتہ کچھ زیادہ با معانی تھا۔ ذہن کھردری دیوار کے ساتھ اتنے خیالات کو سمیٹ لاتا کہ شب و روز خیالات کا ایک سلسلہ سا قائم ہو جاتا۔اس کا یہ مطلب نہیں کہ صاف اور سجی ہوئی دیوار میں کوئی معنی یا احساس نہیں۔ مگر نگاہ کھردری دیوار کو دیکھنا چاہتی ہے اس کی تلاش میں ادھر ادھر جانا اور بھٹکنا کتنا دقیانوسی عمل معلوم ہوتا ہے۔ لوگ دیواروں کو خوبصورت بنانے کے لیے کتنے جتن کرتے ہیں اور پھر نگاہ دیوار پر کچھ اس طرح ٹھہرتی ہے کہ جیسے ابھی نگاہ پڑی بھی نہیں تھی کہ وہ پھسل کر آگے نکل گئی۔ کسی سال کا رخصت ہو جانا اور نئے سال میں داخل ہو جانا کتنا آسان معلوم ہوتا ہے۔ کبھی ہم اس آسانی پر خوش ہوتے ہیں اور اس کا جشن مناتے ہیں۔ کبھی دل افسردہ ہو جاتا ہے۔ افسردگی گزشتہ سال میں تھی یا ہماری طبیعت میں اس کا فیصلہ آنے والا نیا سال بھی کر سکتا ہے۔ مگر نہ جانے کتنے برس بیت گئے اور افسردگی کا سفر ختم نہیں ہوا۔گھر کے دروازے پر بیٹھ کر آج پھر نگاہ وہاں تک جا رہی ہے جہاں تک وہ جا سکتی ہے۔ لیکن نگاہ کتنی دور جا سکتی ہے۔ جن لوگوں نے نگاہ کی بلندی کا دعوی کیا یا نگاہ کی گہرائی کا۔ وہ سب دعوے غلط تو نہیں لیکن نگاہ کی بھی اپنی کوئی حد ہوتی ہے۔ یہ حد تخلیق میں کبھی گوارا معلوم ہوتی ہے اور کبھی وہ گوارا معلوم نہیں ہوتی۔ کاش ایسا ہوتا کہ دسمبر کا آخری ہفتہ وطن سے باہر بھی گزرتا لیکن اس پر مجھے کوئی ملال نہیں ہے اور نہ مجھے اس بات کا کوئی امکان نظر آتا ہے۔ اگر یہ ہفتہ گھر اور وطن سے دور گزارتا تو جذبے اور احساس کی کوئی اور سطح یا کیفیت ہوتی۔ گزرتا ہوا سال کتنا حوصلہ دیتا ہے اور کس خاموشی کے ساتھ ایک کیفیت سے دوچار کرتا ہے۔ اس کیفیت کو کیا نام دیا جائے۔ پھر بھی اس میں شرمندگی کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ وقت کو کون روک سکا ہے بلکہ وقت کو کس نے کتنا سمجھا ہے۔ گزرتا ہوا سال کیلنڈر کے ساتھ گزر جائے گا مگر وہ ٹھہر بھی جاتا ہے۔ کئی بار محسوس ہوا کہ ابھی سال گزرا بھی نہیں ہے کہ نیا سال اپنی موجودگی کا احساس دلا رہا ہے۔ نئے اور پرانے کی کوئی منطق بھی تو ہوتی ہے۔ یہ کتنا عجیب خیال ہے کہ ابھی سال آیا بھی نہیں کہ اس کی موجودگی کا احساس نہ صرف پریشان کرتا ہے بلکہ وقت کے تیز تر آنے کا بھی احساس دلاتا ہے۔وقت آتا بھی نہیں کہ گزر جاتا ہے۔ شاید ہم یہ سمجھتے ہیں کہ وقت گزر جاتا ہے۔ گزرا ہوا وقت تاریخ کے ساتھ گزرا ہوا ہی کہا جائے گا لیکن گزرے ہوئے وقت میں دوام کا کوئی لمحہ اسے حاضر کے ساتھ زیادہ دائمی بنا دیتا ہے۔لیکن دائمی لمحہ ہمیشہ یادگار نہیں ہوتا۔اس وقت پھر میری نگاہ کے سامنے دیوار ہے اور دیوار کے آس پاس ایک ایسی دنیا جو دیکھتے دیکھتے بدل گئی۔ ایک چہرہ روپوش ہو گیا۔ اس چہرے میں وقت پوشیدہ تھا اور وقت کا شعور بھی۔ وقت کا نشیب و فراز وقت کا شعور ہی تو ہے اور اسی میں مستقبل کی تعمیر کا راز بھی پوشیدہ تھا۔ ایک چہرہ ابھی اس گمشدہ چہرے کا بدل ہے۔ امی کہتی تھیں کہ بیٹا جو جگہ خالی ہوتی ہے وہ کبھی پر نہیں ہوتی۔ ابا کو دیکھتا ہوں تو لگتا ہے کہ جیسے وقت کتنا گزر چکا ہے کتنا ٹھہر گیا ہے اور گزرے ہوئے وقت کے ساتھ کیا کچھ رخصت ہو گیا ہے۔ اگر آج یہاں نہ ہوتا تو ممکن ہے میرے خیالات کچھ اور ہوتے۔ لیکن ہر شخص کی اپنی ایک مقامیت ہے جو بین الاقوامیت کی ضد تو نہیں۔ لیکن یہی مقامیت اس کی سب سے بڑی طاقت ہے۔ اسی مقامیت کے ساتھ ہماری سرخروئی کا راز بھی پوشیدہ ہے۔
دسمبر کا آخری ہفتہ جنوری سے جا ملتا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ابھی اسے ملنا نہیں تھا یا تھوڑے فاصلے کے ساتھ ملنا تھا۔ فاصلہ اگر ختم نہ ہو تو ایسی ملاقات کا حاصل کیا۔ شاید یہ کہنا زیادہ مناسب ہے کہ فاصلہ تاریخ میں نہیں ہے بلکہ فاصلہ ہمارے خیال اور احساس کی دنیا میں ہے۔ دسمبر کا آخری ہفتہ جنوری سے جا ملتا ہے کتنا کچھ ایسا ہے جو دسمبر کے آخری دن کے آخری لمحے میں قید ہو جاتا ہے اور وہ آگے چلنے سے انکار کر بیٹھتا ہے۔ کچھ ایسا بھی ہے جو جنوری کی پہلی تاریخ کے پہلے لمحے کے ساتھ چلنے کے باوجود کچھ ٹھہرا ٹھہرا سا محسوس ہوتا ہے۔ یہ جو ٹھہری ہوئی کوئی شئے ہے اسے دسمبر کے آخری ہفتے یا تاریخ کا کوئی خوش نصیب یا بد نصیب لمحہ کہنا چاہیے۔
بیدل عظیم آبادی نے کہا تھا:
ہر کجا رفتم غبار زندگی درپیش بود
یارب ایں خاک پریشاں ازکجا برداشم
غبار زندگی نے کتنا لمبا سفر طے کیا ہے اور ابھی تک اس نے دم نہیں لیا۔ 2023 میر کی پیدائش کے تین سو سال مکمل ہونے کی وجہ سے بھی یاد رکھا جائے گا۔ میر کو بے دل سے کچھ نسبت ضرور تھی مگر بے دل اور غالب کی نسبت کی تلاش اور تعبیر نے میر سے بیدل کی نسبت کو کچھ دھندلا کر دیاہے۔
2023 میر کی شاعری کے غبار سے بھی اٹا رہا، لیکن ان کے لیے جنہوں نے واقعی میر کو شدت سے یاد کیا۔ ورنہ تو جلسے اور جلوس رسمیات کی حد سے کم کم آگے بڑھ پاتے ہیں۔ میر کو جتنی دلچسپی غبار سے تھی بلکہ زمین سے اس کا تقاضا یہ تھا کہ اس سال کے اختتام سے پہلے میر کی شاعری کے غبار کی معنویت پر نئے سرے سے غور کیا جاتا اور یہ دیکھا جا سکتا تھا کہ بیدل کا غبار میر کے یہاں کس طرح تخلیقی سطح پر فعال ہے۔ میر کی شاعری کا غبار ابھی بیٹھا نہیں ہے۔ اس نے نہ جانے کتنے سرد و گرم کا مقابلہ کرتے ہوئے 2023 تک اپنی زندگی کا ثبوت فراہم کیا ہے۔ غبار زندگی کی پریشاں حالی کا استعارہ ہے یا اس سے نئی زندگی کا سراغ ملتا ہے۔ یہ وہ سوال ہے جو میر کو پڑھتے ہوئے ذہن میں ابھرتا ہے اور پھر یوں ہوتا ہے کہ میر کی شاعری کا غبار زندگی کی ایک بڑی سچائی بن کر زندگی کو آگے بڑھاتا جاتا ہے۔ ذاتی طور پر میرے لیے 2023 کا نصف حصہ کلیات میر کے مطالعے اور میر سے متعلق تنقیدوں اور تحریروں کے مطالعے میں گزرا۔ اس درمیان کچھ وقفے بھی آئے اور رخنے بھی لیکن ذہن بار بار میر کی طرف منتقل ہوتا رہا۔ مجھے خوشی ہے کہ اردو کے سب سے بڑے شاعر کا کلام اور اس کلام سے متعلق افکار و خیالات نے اپنا ہمسفر بنایا۔ غالب انسٹی ٹیوٹ سے شائع ہونے والی کتاب’ میر صاحب زمانہ نازک ہے‘ اسی ہمسفری کا حاصل ہے۔ اس سال کے اختتام پر میرے پاس میر پر شائع ہونے والی کتاب ہے جس نے 2023 کو میرے لیے یادگار بنا دیا ہے۔ اس میں چند ایسے مضامین بھی ہیں جو میری درخواست پر تحریر کیے گئے۔ مجھے یہ تجربہ بھی ہوا کہ میر کے بارے میں اب بھی کچھ نئے گوشے ہیں جو سامنے آ سکتے ہیں میر کی شاعری کے غبار نے ایک معنی میں فضا کو کتنا روشن کر دیا ہے۔ میر کا غبار ہمارے زمانے کا غبار بن سکا ہے یا نہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ اس غبار سے ہمارا رشتہ جتنا اور جیسا ہے اس کا ادراک ہماری تنقید بھی نہیں کر سکی۔ غبار ایک لفظ ہی نہیں ایک دنیا ہے اور کچھ بھی اس دنیا کی گرفت سے باہر نہیں ہے۔ ایک غبار وہ بھی ہے جو اندر اندر انسان کو چھوٹا بناتا جاتا ہے۔ میر کا غبار کب وجود سے باہر ٓا کر کائنات ہی بن جاتا ہے اور کب یہ ذات میں داخل ہو کر ذاتی اور وجودی بن جاتا ہے۔ یہ سب کچھ زبان کا کھیل ہی نہیں بلکہ وہ وجود کی اس ساخت کا کھیل بھی ہے جس کی گرفت سے زبان کی ساخت بچ نہیں سکتی۔ اس کی بہترین مثال میر کی شاعری ہے۔ کلیات میر کے مطالعے سے کچھ ایسے شعر بھی ملے جو نہ کسی انتخاب کا حصہ بن سکے اور نہ عام طور پر تحریروں میں دکھائی دیتے ہیں۔ ایک دنیا ہے جو میر نے آنے والی دنیا کے لیے بنائی تھی لیکن اب بھی اس دنیا سے ہماری شناسائی ویسی نہیں جیسے کہ ہونی چاہیے تھی۔ تو 2023 میرے لیے کلیات میر کے ساتھ کتنا حوصلہ افزا بن گیا ہے۔ کلیات میر نے ہر طرف سے گھیر لیا تھا شاید اب ایسا وقت جلد دوبارہ نہ آئے۔ مجھے بورخیس کے شطرنج کا خیال میرکے شطرنج کے ساتھ بھی آیا۔ میر نے شطرنج کے تعلق سے شاید دو ہی شعر کہا لیکن شطرنج میر کے یہاں اور بورخیس کے یہاں کس طرح اپنا کھیل جاری رکھتا ہے یہ بھی ہمارے مطالعے کا ایک زاویہ رہا۔ ضمیر علی بدایونی نے “میر اور رولاں بارتھ عالم کثرت میں” کے عنوان سے مضمون لکھ کر مطالعہ میر میں تازگی کا احساس دلایا تھا۔ پھر ایسی کوئی کوشش میر تنقید میں نظر نہیں آتی البتہ شمس الرحمن فاروقی نے مطالعہ میر میں مغربی مفکرین سے استفادہ کرتے ہوئے میر کی شاعری پر نئی روشنی ڈالی لیکن مجموعی طور پر میر کو اس سال جس طرح یاد کرنا چاہیے تھا یاد نہیں کیا جا سکا۔
میں نے ایک ناول لکھا جو غبار سے اٹا ہوا ہے اور وہ اس سال بھی شائع نہیں ہو سکا۔ سوچتا ہوں کہ نئے سال کے آغاز میں غبارسے بھرا اوراٹا ہوا ناول کا یہ متن شائع ہو جائے، لیکن اس سال ناول کامطالعہ میں نے زیادہ کیا ہے۔ اس میں زیادہ تر ناول دوسری زبانوں کے ہیں۔ کہانیاں کم کم مطالعے میں آئیں اور جو مطالعے میں آئیں وہ کلاسک کا درجہ حاصل کر چکی ہیں۔ جنہیں لوگ پڑھتے ہوئے اور جن کے بارے میں کچھ کہتے ہوئے شرما جاتے ہیں یہ بھی کہتے ہیں کہ کہانیوں کا دور رخصت ہو چکا ہے۔ تو یہ سال اس لیے بھی کچھ حیرت کا سبب بنا کہ بار بار ناولوں کا ذکر آیا ہے جیسے کہ اب کوئی صنف اس دور کے آشوب کا بوجھ اٹھا نہیں سکتی۔
یہ تجربہ بھی دلچسپ تھا کہ انگریزی اور فرانسیسی اور کچھ دوسری زبانوں کے فکشن کا کوئی نیا حوالہ کم کم سامنے آسکا۔جو حوالے آئے ہیں وہ سب کلاسک کا درجہ حاصل کر چکے ہیں اور انہیں بار بار دہرانا کچھ اکتاہٹ کا سبب بھی بنتا ہے۔ مجھے بہت آسانی سے کچھ ایسے ناول دستیاب ہو جاتے ہیں جن سے فکشن کا نیا منظر نامہ سامنے آجاتا ہے۔ کچھ ایسے ناول میرے مطالعے میں آئے جن کے بارے میں مکالمے کی ایک صورت نکل سکتی تھی۔ دو تین ناولوں کا میں نے ذکر بھی کیا ہے۔ یہ وہ ناول ہیں جو چائنیز اور اٹالین زبان سے انگریزی میں ترجمہ ہوئے۔ ترجمہ شدہ ناولوں کو پڑھتے ہوئے ایک خلش باقی رہتی ہے۔ پھر بھی ترجمے کے ذریعے جو کچھ ہمیں مل جاتا ہے وہ بھی کیا کم ہے۔ برازیل اور آسٹریلیا کی کہانیاں بھی بزبان انگریزی مطالعے میں آئیں۔ جی چاہا کہ چند کہانیوں کا اردو میں ترجمہ کیا جائے ہمارے یہاں اب بھی یہ صورتحال ہے کہ شاعری اور فکشن کو پڑھتے ہوئے ذہن زبان اور بیان سے ہٹتا نہیں ہے۔ بار بار ان باتوں پر زور دیا جاتا ہے جو غیراہم تو نہیں لیکن موجودہ صورتحال میں انہیں اسی طرح دیکھنا بڑے حوصلے کی بات ہے۔ تو مجھے یہ بھی احساس رہا کہ ادبی معاشرہ خالص ادبی بنیادوں پر غور کر رہا ہے۔ شاید ہی کوئی فکشن ہو جس کا تناظر سیاست اور جنگ نہ ہو۔
اس رخصت ہونے والے سال کی پیشانی پر بلکہ اس کے دامن پر کتنے داغ اور دھبے ہیں۔ انسانی جانیں کس طرح پامال ہوئیں۔ بچوں کو خون میں لت پت دیکھنا ہماری زندگی کا سب سے اندو ہناک اور شرمناک تجربہ ہے۔ یوکرین اور روس کی جنگ نے انسانی بے حرمتی کا آغاز کیا تھا۔ فلسطین کی موجودہ صورتحال کتنی حوصلہ شکن ہے۔انسانی خون کو پانی کی طرح بہایا جارہا ہے۔ یہاں بھی بچے بربریت کا زیادہ نشانہ بنے۔ تصویروں کو دیکھتے ہوئے اور خبروں کو سنتے ہوئے کیسی بے بسی کا احساس ہوتا ہے، مگر سب نے دیکھا کہ دنیا اپنی روش پر ہے۔ ایک چھوٹی سی دنیا میں ہم کتنے خوش اور بشاش ہیں۔ لوگ کہتے ہیں اور صحیح کہتے ہیں کہ دنیا گاؤں میں تبدیل ہو گئی ہے۔ یہ کیسا گاؤں ہے جو خون میں لت پت لاشوں کو دیکھ کر نہ بے چین ہوتا ہے اور نہ اس پر کچھ گزرتی ہے۔ ایک قہقہہ ہے جو ختم ہونے کا نام نہیں لیتا ۔اس قہقہے میں کون شامل ہے اور کون شامل نہیں اب اس کا کیا ذکر کیا جائے؟
ارنسٹ ہیمنگ وے کا ناول for whom the bell tolls کا مطالعہ بھی اس سال کے چند مطالعات میں ہے۔ اس کا ایک جملہ حافظے کا حصہ بن گیا ہے۔ “آج ان تمام دنوں میں صرف ایک دن ہے جو کبھی ہوگا”۔ یہ آج کب آئے گا یا کب ہوگا کس کو معلوم ہے۔ یہ آج میرا ہے یا زمانے کا اس کا فیصلہ بھی وقت کو کرنا ہے۔اس کے علاوہ IAN MCEWAN کے دو ناول SATURDAY اور AMSTERDAM بھی مطالعے کا حصہ رہے۔
وہ دن بھی بہت یادگار تھا جب ناصر عباس نیر کی کتاب ” نئے نقاد کے نام خطوط” دبئی کے راستے دہلی آئی اور غالب انسٹی ٹیوٹ میں اس پر ایک شاندار مذاکرہ ہوا ۔ وہ دن بھی یادگار تھا جب ہندی کے نامور نقاد پروفیسر مینیجر پانڈے کے حوالے سے میری کتاب “ہم نے جاتی ہوئی دنیا کو پکارا ہی نہیں” شائع ہوئی اور چار نومبر کی شام اس پر بھی ایک مذاکرہ ہوا اس برس کیا کچھ پڑھا اور سوچا اس کی کوئی فہرست نہ بن سکتی ہے اور نہ بنانے کی کوشش کرنی چاہیے پھر بھی کچھ عزیزوں اور دوستوں کو کتابوں کے نام دیکھ کر اور سن کر خوشی ہوتی ہے اور اس طرح کتاب کا قاری بھی خوش ہو جاتا ہے کہ چلیے کچھ دوستوں اور عزیزوں کو مطالعہ کا سلسلہ اور سفر اچھا لگا ورنہ تو اب کتابوں کے ذکر سے لوگ کم کم خوش ہوتے ہیں ۔خصوصاً ان کتابوں کے ذکر سے جو پرانی ہو چکی ہیں اور جن کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ دنیا نے انہیں مسترد کر دیا ہے ۔مشکل وقت کتابوں پر آیا ہے یا کتاب کے پڑھنے والوں پر یا دونوں پر ۔ کہا جا سکتا ہے کہ کتاب پر مشکل وقت کبھی نہیں آئے گا اور اگر آیا بھی تو یہ وقت گزر جائے گ۔ا پھر بھی کتاب پڑھنے والا اگر ادب کی دنیا میں اجنبی کردار کی طرح ہے تو یہ کتاب کے لیے بھی کوئی حوصلہ افزا بات نہیں ہے یہ برس کتابوں کے انتخاب میں ہی اگر گزر گیا تو یہ بھی ایک زیاں ہے۔ شاعری ،فکشن اور تنقید کے تعلق سے ہماری کچھ ترجیحات ہو سکتی ہیں لیکن ترجیحات اتنی سخت تو نہ ہوں کہ اپنے زمانے کے ادب کا کچھ پتہ ہی نہ چل سکے۔ کبھی کبھی انتخاب کا عمل ہمیں اپنے زمانے سے الگ کر دیتا ہے۔ بہت سنجیدہ اور علمی کتاب ہماری ضرورت کو ایک طرح سے محدود بھی کر دیتی ہے۔ ادب میں ضرورت کا اور خواہش کا مختصر ہو جانا کوئی اچھی بات نہیں۔ اپنے ہی بارے میں گفتگو کرنا اور اپنی ہی آرزو کرنا کسی دوسرے اور تیسرے درجے کی کتاب کو پڑھنے سے زیادہ خطرناک ہے۔ لہذا اس برس کے آخری دن کو گزارتے ہوئے مجھے اس بات کی تھوڑی خوشی ہے کہ کتابوں کے انتخاب کے باوجود کچھ ایسی ہوائیں بھی آتی رہیں جن سے میرے ادبی ذوق کو جلا ملی۔ “یادگار غالب” کا پہلا اڈیشن میرے پاس ہے۔ اس کی رنگت اور کاغذ کو اتنی بار دیکھا ہے کہ جیسے اس اشاعت کے ساتھ غالب اور حالی دونوں ٹھوس وجود کے ساتھ موجود ہوں۔ اس کتاب کے اوراق اور حروف سلامت ہیں مگر انہیں چھوتے اور پلٹتے ہوۓ ایک تہذیب کی ضرورت ہے جو یادگار غالب کی اولین اشاعت کی یاد میں 2023 کی نئی آگاہی میں شامل ہے۔ آسامی زبان کے شاعر نیل منی پھوکن کی شاعری کا مطالعہ بھی اس سال کی قرأت کا ایک اہم حوالہ ہے۔ یوکرین کی جنگ کے متعلق نئی نظمیں یہ بتاتی ہیں کہ 2023 کس قدر بے دردانہ سلوک کا حوالہ بھی ہے۔ اسی عرصہ میں شناور اسحاق کا شعری مجموعہ “مدفون آدمی کی ڈائری” کے مطالعے کا موقع ملا۔ اور یہ محسوس ہوا کہ شاعری داخل اور خارج دونوں کا بیک وقت کس طرح اظہار بنتی ہے۔ سید کاشف رضا کی چند نظمیں اور غزلیں بھی مطالعے میں آئیں۔
خالد جاوید کے ناول “ارسلان اور بہزاد” نے فکری سطح پر عصر حاضر کے اردو ناول کو استحکام بخشا ہے۔ اس میں جو زندگی کی بصیرتیں ہیں وہ ان کے دوسرے ناولوں کے مقابلے میں کچھ مختلف بھی ہیں اور گہری بھی۔ 2023 کی تخلیقی زندگی کا یہ بھی ایک حوالہ ہے۔ اس برس ڈاکٹر نجیب جمال کی کتاب “یگانہ” نے بھی اپنی گرفت میں رکھا۔
میرے عزیز شاگرد فیضان الحق کی دو کتابیں “انور عظیم کی ادبی کائنات” اور “میں سلسلہ ہوں صداؤں کے حرف بننے کا” (من موہن تلخ کی شاعری کا مطالعہ) بھی اسی سال شائع ہوئیں۔ ان دونوں شخصیات کی تحریریں سنجیدہ قرأت کی متقاضی تھیں۔ 2023 میرے لیے ان دو کتابوں کی اشاعت کی وجہ سے بھی اہمیت کا حامل ہے۔ اسی برس سید ثاقب فریدی کو ن م راشد کی شاعری پر پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض ہوئی۔ یہ موضوع بھی میرے لیے بہت اہم رہا ہے۔ میری یہی کچھ چھوٹی چھوٹی آرزوئیں اور تمنائیں ہیں جن سے دہلی کی علمی اور تہذیبی زندگی روشن ہے۔ یہی چند کتابیں، چند موضوعات اور چند خیالات ہر گزرتے سال کی طرح اس سال کو بھی یادگار بناتے ہیں۔
دنیا میں جو جنگ کی صورت حال ہے اس نے جنگ سے متعلق شاعری اور فکشن کی طرف بطور خاص مجھے متوجہ کیا۔ بے تحاشہ پڑھنے کی خواہش کبھی کبھی انسان کو زیادہ جمہوری بنا دیتی ہے مگر تعصب کے لیے ہماری علمی و تہذیبی زندگی میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ مگر کیا کیا جائے تعصب مکمل طور پر ختم نہیں ہوتا۔پھر بھی کسی فنکار کو پڑھے بغیر کوئی رائے قائم کر لینا کہاں کا انصاف ہے؟ اتنی کتابیں شائع ہوتی ہیں کہ تمام کتابوں تک نہ وقت پر ہماری رسائی ہو سکتی ہے اور نہ ہم انہیں اپنی مرضی کے مطابق پڑھ سکتے ہیں۔ اسی افرا تفری اور جلد بازی میں کچھ فکر کی اور احساس کی شعائیں ہمارے ساتھ ہو جاتی ہیں اور ہم یہ نہیں دیکھتے کہ ان کا تعلق مشرق سے ہے یا مغرب سے ۔ اس برس کچھ ایسی تحریریں بھی میں نے دیکھیں جن میں غم و غصہ بہت تھا تنقید کو سہارنے اور برداشت کرنے کی ہمت بھی تو ہونی چاہیے۔ ہم کسی فنکار کی خواہش کے مطابق کوئی رائے دے سکتے ہیں اور نہ ہی پرجوش رویہ اختیار کر سکتے ہیں۔ تھوڑا صبر اور تھوڑا انتظار قلم کار کو کتنا باوقار بنا دیتا ہے۔ موجودہ ادبی معاشرے کو دیکھتے ہوئے ایک فکری تھکن کا احساس ہوتا ہے۔ بڑھتی عمر تازگی کا احساس بھی کراتی ہے، مگر اس کے لیے کتاب کا مطالعہ ضروری ہے۔ اور ایسی کتابوں کا مطالعہ جو ذہن کو نئی فکر اور نئے خیال کی طرف مائل کر سکیں۔ کب تک رسمی اور روایتی باتیں کوئی سنتا رہے گا۔ خوش ہونے اور خوش کرنے کی روش ہماری علمی اور تہذیبی زندگی کا ایک بڑا مسئلہ ہے۔ کہاں تک کسی کو خوش کیا جا سکتا ہے اور کتنا خود کو خوش رکھا جا سکتا ہے۔ پھر بھی جس معاشرے میں ہم رہتے ہیں اس کی کچھ رسمیات ہیں اور ہم خود کو ان سے الگ نہیں کر پاتے۔
کوئی ایسا دن بھی گزرے کہ تصویر شائع نہ ہو اور نہ کوئی تعریفی جملہ۔ کبھی اس طرح بھی آنکھ کھلے اور دن چڑھے کہ دوسروں کو پڑھ سکیں، دوسروں کے بارے میں سوچ سکیں اور دوسروں کی تعریف کر سکیں۔ خوش ہونے اور خوش کرنے کی جو سیاست ہے وہ سال 2023 کے ساتھ رخصت نہیں ہوگی۔ نہ جانے کیوں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ صورت حال کچھ تبدیل ضرور ہوگی۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ کچھ کتابیں بطور خاص پڑھوائی جائیں۔ ان پر مذاکرے ہوں۔اپنی آرزو اور اپنی جستجو کا سلسلہ تھوڑے وقت کے لیے ہی سہی پر وہ رک جائے۔ اسی سے فضا بہتر ہوگی اور داخلی سطح پر ہم صحت مند ہوں گے۔

سرورالہدیٰ
31/12/2023