ناصر کاظمی کو دوبارہ پڑھتے ہوئے

یہ تحریر 78 مرتبہ دیکھی گئی

بہت دنوں کے بعد “کلیات ناصر کاظمی” کو پڑھنے کا موقع ملا۔اس میں ناصر عبّاس نیر صاحب کی تحریک شامل تھی۔کلیات کا یہ نسخہ بلراج مین را کا ہے جس پر ناصر کاظمی کے صاحبزادے باصرسلطان کاظمی کا دستخط ہے۔ 5.5.88 کی ،تاریخ پڑی ہے ۔بلراج مین را نے سرخ روشنائی سے پسندیدہ اشعار پر نشانات لگائے ہیں۔میں نے ان نشانات کو بہت ٹھہر کر اور احترام کے ساتھ دیکھا اور پڑھا ہے۔بلراج مین را نے “دھیان یاترا” کے نام سے ناصر کاظمی کی شاعری کو ہندی میں منتقل کیا۔ناصر کاظمی کی کلیات میں اداسی کی ایک لہر ہے جو قاری کو اپنی گرفت سے باہر نہیں ہونے دیتی۔لیکن جو دیگر کیفیات ہیں ان میں وہ بات نہیں جن کی وجہ سے ناصر کاظمی کو پڑھا جائے اور بار بار پڑھا جائے۔ناصر کاظمی کا جادو ختم ہونے کا نام نہیں لیتا۔شمس الرحمن فاروقی نے لکھا تھا کہ ناصر کاظمی کا عشق پنچایتی نہیں ہے۔لیکن فکری سطح پر انہیں ناصر کاظمی کی شاعری بہت متاثر نہیں کرتی تھی۔شمیم حنفی شمس الرحمن فاروقی کے مقابلے میں ناصر کاظمی کی شاعری کے تعلق سے زیادہ پرجوش تھے۔ان کا ایک طویل مضمون ناصر کاظمی کی شاعری کا احاطہ کرتا ہے۔شمیم حنفی صاحب کو ناصر کا کلام بھی بہت یاد تھا۔کلیات ناصر کاظمی کے صفحات پہلے ہی سے سرخ روشنائی کے ساتھ اپنی پسندیدگی کا اعلان کر رہے تھے۔میں نے اپنی طرف سے کوئی نشان لگانا ضروری نہیں سمجھا اور پھر یوں ہوا کہ بار بار سرخ نشانات نگاہ کا مرکز بنتے رہے۔ کسی کسی وقت لا مرکزیت کا احساس ہوتا رہا۔ناصر کاظمی کے بارے میں حامدی کاشمیری نے ایک پوری کتاب لکھی تھی۔اس کتاب میں اکتشافی تنقید کا ابتدائی نمونہ بھی دیکھا جا سکتا ہے ۔بعدکو انہوں نے اکتشافی تنقید کو ایک تھیسس کے طور پر کتابی شکل میں پیش کیا۔سہیل احمد خان نے ناصر کاظمی کی غزل کو اداسی کی تہذیب کا نام دیا تھا۔شمیم حنفی کے لیے ناصر کاظمی مستقل طور پر ایک عنوان بن گئے تھے۔انہوں نے ناصر کاظمی پر دو مضامین قلم بند کیے پہلا مضمون غزل کا نیا منظر نامہ میں شامل ہے اور دوسرا مضمون جو بہت تفصیلی ہے بعد کو قلم بند کیا۔ناصر کاظمی کے انتقال کے بعد وحید اختر نے شب بیدار شاعر کے عنوان سے مضمون لکھا۔ناصر کاظمی کی شب بیداری کو اس طرح پہلی بات موضوع بنایا گیا تھا۔وحید اختر اور شمیم منفی کی ایک غزل ناصر کاظمی کی زمین میں ہے۔ناصر کاظمی کے انتقال کے بعد یہ غزلیں شائع ہوئیں ۔شمیم حنفی کی غزل کا ایک شعر دیکھیے۔
حصار خاک و خطا سے چھوٹا طلسم صوت و صدا کا ٹوٹا
اسے بھی تنہائیوں نے لوٹا ہمیں بھی ویران کر گیا وہ
ناصر کاظمی کی حییت سے ہمارا رشتہ ابھی نہ تو پرانا ہوا ہے اور نہ اس میں کوئی کمزوری آئی ہے۔اس حقیقت کے باوجود یہ سوال باقی رہتا ہے کہ آزادی اور تقسیم کے بعد ناصر کاظمی کی شاعری جن فکری اور حسی بنیادوں پراپنے دور کی آ واز بن گئی وہ بنیادیں کیا ہمارے لیے بھی آج اتنی ہی اہم ہیں۔کہیں ایسا تو نہیں کہ ناصر کاظمی کو پڑھتے ہوئے گزشتہ دہائیوں کی الجھنیں ہمارے ساتھ ہو جاتی ہیں۔ ناصر کاظمی سے اگر ہمارے رشتے کی بنیادیں وہی پرانی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے ناصر کی شاعری کو اپنے طور پر پڑھنے کی کوشش نہیں کی ۔اور ہماری قرآت بڑی حد روایتی ہے۔یہ ممکن ہے کہ ناصر کاظمی کی شاعری کی فکری اور حسی بنیادیں آج بھی اپنی تاریخی معنویت پر اصرار کرتی ہوں اور ہم سے یہ کہتی ہوں کہ اتنی بڑی ٹریجڈی کو نئی حسیت بے دخل نہیں کر سکتی۔یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کسی زمانے کی چھوٹی بڑی الجھنیں ماضی کی بڑی الجھنوں کے ساتھ رشتہ قائم کر لیتی ہیں اور کبھی رشتہ قائم نہیں کر پاتیں ۔اس میں قاری کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے کہ وہ حال میں جب تاریخ کو دیکھے وہ بھی شاعری میں تو اسے شاعری اور تاریخ کے تقاضوں کا خیال رکھنا چاہیے۔تاریخ کا عمل مختلف اصناف اور متون میں ایک جیسا تو نہیں ہو سکتا۔۔ناصر کاظمی کی شاعری ایک وظیفہ بن گئی۔ ناصر کو یاد کرنا صبح اور شام کا مشغلہ تھا۔ اس میں تقسیم کا اور ہجرت کا دکھ پوشیدہ تھا۔ناصر کاظمی کی فکر تاریخ میں چاہے جہاں تک گئی ہو ،اپنے ساتھ اداسی کو لاتی ہے اور اداسی گہری ہوتے ہوتے شاعری میں کچھ گوارا معلوم ہوتی ہے اور ایک نئی لذت سے قاری کو آشنا کرتی ہے۔شمیم حنفی کی یہ بات اگر تسلیم کر لی جائے کہ تقسیم نے ہمیں ناصر کاظمی کی شاعری عطا کی تو یقینا ناصر کاظمی کی شاعری کہ ایک بڑے حصے کو تاریخ سے الگ کر کے دیکھنا مشکل ہے۔لیکن تاریخی حسیت ناصر کاظمی کے یہاں تاریخ کو جس طرح سیال بنا دیتی ہے دیتی وہ ایک واقعہ ہے۔جن لوگوں نے ناصر کاظمی کے یہاں تاریخیت سے انکار کیا انہیں شاید اس بات کا احساس نہیں تھا کہ خود ناصر کاظمی نے ایک تخلیق کار کے حیثیت سے تاریخ کا احترام کیا ہے اور تاریخ کو اپنی شاعری کی زنجیر بننے نہیں دیا ۔مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ناصر کاظمی کی شاعری تاریخ کو سرے سے رد کر دیتی ہے یا بے دخل کرتی ہے۔یہ اور بات ہے کہ ناصر کاظمی کے یہاں تاریخ کا عمل شدید تر ہونے کا ثبوت فراہم نہیں کرتا ۔ کچھ ایسے الفاظ اور استعارے ہیں جو تاریخ کے جبر اور اس کے لہو لہان چہرے کو چھپا لیتے ہیں۔ لہو کا رنگ کتنا چھپ سکتا ہے ۔ لہو کے رنگ نے جو دولت فراہم کی ہے اس کا اظہار بھی اداسی کی جس زبان میں ہوا ہے وہ بھی تو تاریخیت کی ایک مثال ہے۔یہ شعر بھی ناصر کاظمی کا ہے
وہ رنگ دل کو دیے ہیں لوگوں کی گردش نے
نظر اٹھاؤں تو دنیا نگار خانہ لگے
اس شعر کو ناصر کاظمی کے بنیادی مزاج کا حامل شاید نہ کہا جائے لیکن ناصر کاظمی کے یہاں اس طرح کی مثالیں موجود ہیں۔کبھی جی چاہتا ہے کہ اپنے کچھ دوستوں عزیزوں اور شاگردوں سے کہوں کہ آپ ناصر کاظمی کے کچھ پسندیدہ شعر قلم بند کیجئے۔یہ تجربہ اس لیے ضروری ہے تاکہ دیکھا جا سکے کہ ان دنوں اور اس وقت ناصر کاظمی کے جو اشعار حافظے کا حصہ ہیں ان کی فکری اور حسی بنیادیں کیا ہیں۔یادوں سے ہمارا رشتہ کیسا ہے ۔ناصر کاظمی کو یاد کرنے والے اتنی بڑی تعداد میں ہیں کہ ان کی فہرست بھی بنانی مشکل ہے یاد کرنے سے میری مراد ناصر کاظمی کی شاعری کو پڑھنے اور گن گنا نے والے ہیں۔غلام علی اور دوسروں نے ناصر کی چھوٹی بحر کی غزلوں کو جس طرح گایا ہے اس نے بھی ناصر کے جادو کو باقی رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔زہرا نگاہ کی زبان میں ناصر کی غزلوں کو سننے کا تجربہ بھی خاصہ مختلف ہے۔
ناصر کاظمی کی برگ نے کی شاعری اور دیوان کی شاعری کے درمیان فرق کرنے کی کبھی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ناصر کاظمی کا وہ کلام جو بعد کو ان کی کلیات میں شامل ہوا اس سے بھی ایک مستقل اور مسلسل کیفیاتی وحدت کا احساس ہوتا ہے اکا دکا مثالوں سے قطع نظر ناصر کاظمی کہ یہاں زیاں کا احساس اداسی کے پردے میں بار بار ظاہر ہوتا ہے۔لا حاصلی کا کرب بھی موجود ہے، لیکن وہ کم ہے اور دبا دبا سا۔ناصر کاظمی کا ایک شعر نئی غزل کے سیاق میں مرکزی حوالہ بن گیا۔یہ شعر دیوان کی پہلی غزل کا ہے۔
یہ کیا کہ ایک طور سے گزرے تمام عمر
جی چاہتا ہے اب کوئی تیرے سوا بھی ہو
برگ نے جو ناصر کاظمی کا پہلا شعری مجموعہ ہے ۔اس کی پہلی غزل کا ایک شعر ملاحظہ کیجئے
تیرے قریب رہ کے بھی دل مطمئن نہ تھا
گزری ہے مجھ پہ یہ بھی قیامت کبھی کبھی
اس غزل کا مطلب بھی دیکھیے
ہوتی ہے تیرے نام سے وحشت کبھی کبھی
برہم ہوئی ہے یوں بھی طبیعت کبھی کبھی
نئی غزل میں عشق کی اس کیفیت کا نقطہ آغاز ناصر کاظمی کا وہ شعر ہے جس کا ذکر اوپر آ چکا ہے ۔لیکن یہ دیکھنے کی کوشش نہیں کی گئی کہ ابتدا ہی سے ناصر کاظمی کے یہاں یہ کیفیت موجود تھی خاص طور پر اس غزل کا پہلا شعر واضح طور پر اس بات کا پتہ دیتا ہے کہ یکرنگی سے جی پریشان ہو اٹھتا ہے اور جی چاہتا ہے کہ کوئی نیا سلسلہ شروع کیا جائے۔برگ نے کی شاعری اس سلگنے اور تڑپنے کی کیفیت ہی لیے ہوئے ہے جس کا زیادہ نمایاں اظہار دیوان میں ہوا ہے۔عشق اور زندگی کی دوسری سچائی یہاں سے مل کر ایک بڑی سچائی کی طرف روانہ ہوتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔رومانیت کی تعریف چاہے جو بھی کی گئی ہو ہر رومانیت معمولی اور سستی نہیں ہوتی۔فکر کی گہرائی بعض اوقات جذبے کی شدت سے مغلوب ہو جاتی ہے۔ناصر کاظمی کے یہاں فکری پہلو موجود ہے مگر ایک مخصوص کیفیت کے ساتھ۔
برگ نے میں ایسے اشعار موجود ہیں جو عشقیہ جذبات کے ساتھ ساتھ زندگی کہ دوسرے دکھوں کا بھی پتہ دیتے ہیں۔
دن بھی اداس اور مری رات بھی اداس
ایسا تو وقت اے غم دوراں نہ تھا کبھی
دور خزاں میں یوں مرے دل کو قرار ہے
میں جیسے آشنائے بہاراں نہ تھا کبھی
بے کیف و بے نشاط نہ تھی اس قدر حیات
جینا اگرچہ عشق میں آساں نہ تھا کبھی
زندگی پر غور کرتے ہوئے زمانے کا خیال آنا زمانے کو بھی زندگی میں شامل کر لینا ہے۔زندگی کا لفظ ماضی اورحال دونوں کو محیط ہے اور مستقبل میں کبھی کبھی حال میں موجود ہوتا ہے۔ناصر کاظمی کے یہاں وقتی صورتحال ماضی کو آواز دیتی ہے اور اکثر اوقات ماضی حال کے ساتھ مل کر وحدت کا احساس دلاتا ہے لیکن اس عمل میں فکری اور لسانی سطح پر وہ پیچیدگی پیدا نہیں ہوتی جو عام طور پر بڑی شاعری کے لیے ضروری سمجھی جاتی ہے۔غم دوراں کا ذکر ناصر کاظمی کے دور میں بہت عام سا تھا مگر ناصر نے اپنے تخلیقی مزاج کے ساتھ غم دوراں کو مخاطب کیا ہے۔اگر دن کی اداسی ناکافی ہوتی تو پھر رات کی اداسی کا کوئی جواز تھا۔اس سوال کا جواب غم دوراں کے پاس بھی کہاں ہے۔خزاں کا موسم بے قراری کو ساتھ لاتا ہے قرار دو موسم گل کے ساتھ ایک معنی میں وابستہ ہے۔کیا خوبصورت شعر کہا ہے سوال بھی اپنی ذات سے ہے اور جواب بھی سوال کے اندر موجود ہے۔بہار سے آشنائی کا لازمی نتیجہ یہ ہونا چاہیے کہ دور خزاں میں دل کو قرار نہ ہو۔عشق میں جینا پہلے بھی مشکل تھا مگر زندگی اتنی بے کیف نہیں تھی۔
برگ نے اور دیوان میں کتنے ہی ایسے شعر ہیں جو ایک نئی قرآت کا تقاضا کرتے ہیں۔یہ بظاہر سادہ اور افسردہ معلوم ہوتے ہیں مگر ان میں داخلی طور پر تیاری بھی ہے اور نشاط کا پہلو بھی۔یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ متکلم کو اپنی داخلی دنیا میں کائنات کا سراغ ملتا ہے اور اسے محسوس ہوتا ہے کہ زندگی کے بہت سے راز ہیں جو اس کے سینے میں دفن ہیں۔ناصر کاظمی نے حیات اور کائنات کے بارے میں فلسفیانہ انداز سے سوچا ہے یا کسی اور انداز سے دیکھنے کی چیز یہ ہے کہ اتنے پیچیدہ مسائل کہ اظہار میں شاعر نے کیا رویہ اختیار کیا ہے۔اس رویے میں نظریے سے کہیں زیادہ لسانی اظہار کا دخل ہے ۔ناصر کاظمی کالسانی اظہار صرف لسانی اظہار نہیں اس کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے۔یہ
نہ چھیڑ خلش درد بار بار نہ چھیڑ
چھپائے بیٹھا ہوں سینے میں ایک عمر کے راز
بس اب تو ایک ہی دھن ہے کہ نیند آ جائے
وہ دن کہاں کے اٹھائیں شب فراق کے ناز
یہ بے سبب نہیں شام و سحر کے ہنگامے
اٹھا رہا ہے کوئی پردہ ہائے راز و نیاز
ترا خیال بھی تیری طرح مکمل ہے
وہی شباب،وہی دلکشی،وہی انداز
عروج پر ہے مرا درد ان دنوں ناصر
مری غزل میں دھڑکتی ہے وقت کی آواز

سرور الہدیٰ
28/03/2024