میر جعفرعظیم آبادی

یہ تحریر 47 مرتبہ دیکھی گئی

میر جعفرعظیم آباد ی کے عظیم آباد میں
اس سخت اور اجلی دھوپ میں
اس سڑک پر چلتے ہوئے

کب سے آواز دے رہا ہوں
آواز دیوار سے ٹکراتی تو کوئی بات بھی تھی
میر جعفر ،میر جعفر،میر جعفر
زمانہ کتنا بیت چکا ہے
یا اب بہت پاس آ گیا ہے
اک دھوپ تم اپنے ساتھ دہلی لے گئے تھے
تمہیں دلی کی دھوپ کا اندازہ نہیں تھا
کیا معلوم وہ موسم سردی کا ہو
میر کو تمہارا انتظار تھا یا تم منتظر تھے
یا کتاب کے پریشاں اوراق تمہارا انتظار کر رہے تھے
یا میر نے کوئی خواب دیکھا تھا
میں کب سے اس کتاب کی تلاش میں ہوں
تم نے میر کو فارسی پڑھائی
اور کیا کچھ پڑھایا اور سنایا
وہ قصہ بھی سنایا ہوگا جو شعلہ عشق کا ماخذ بن گیا
اور وہ زبان بھی جو عظیم آباد کی تھی
لگے ہے ،کرو ہو ،جانےہے
میرجعفر کی زبان میر کو کتنی بھلی معلوم ہوئی
ذکر میر میں تمہارا ذکر
کتنی پریشانی کا سبب ہے
ذکر تو موجود تھا
مگر نگاہ دیکھنے سے قاصر تھی یا گھبراتی تھی
ایک دن میر کی وہ عبارت جو تمھارے ہونے کا واحد حوالہ ہے
اسے بھی انتظار تھا
میر کی سوکھی روٹی میں کیسی تراوٹ تھی
اس میں کچھ پانی آنسو کا بھی تھا
آ ج عظیم آباد کے اس راستے پر کھڑا ہوں جو دہلی کو جاتا ہے
میرا ذہن اس عظیم آباد میں اٹکا ہوا ہے جو تمہارا تھا اور اس بیدل کا بھی
جسکی ایک پھونک میں سب اڑ جائیں گے
یہ بات بیدل کے حافظ لطف الرحمن نے کہی تھی
کاش تمہاری مابعدالطبیعیات کا کچھ اور سراغ ملتا
میر کی گواہی کیا کم ہے
ادھر اُدھر دیکھتا ہوں
وقت گزرتا جاتا ہے
تم سے ملنے کی آ رزو میں کتنی بار ذکر میر کو دیکھا ہے

عظیم آباد
14 اپریل 2024