میر تقی میر اور میر جعفر عظیم آبادی

یہ تحریر 77 مرتبہ دیکھی گئی

میر تقی میر اور میر جعفر عظیم آبادی
( نیر مسعود کی یاد میں)

“ذکر میر” میں میر نے میر جعفر عظیم آبادی کو اپنا استاد تسلیم کیا ہے ۔ اس بات کا بھی اعتراف کیا ہے کہ سعادت علی امروہوی نے انہیں اردو میں شعر کہنے کی ترغیب دی۔خان آرزو اور میر مستقل طور پر ایک عنوان ہے۔میر کی علمی تعمیر اور تشکیل میں خان آرزو کا اہم کردار ہے۔لہذا میر جعفر اور سعادت علی دونوں کی اہمیت اس اعتبار سے دو چند ہو جاتی ہے کہ میر نے دونوں سے استفادہ کا اعتراف کیا ہے۔سعادت علی کے سلسلے میں نثار احمد فاروقی نے اہم اطلاعات یکجا کر دی ہیں جو ان کے مضمون “سعادت علی امروہوی” میں دیکھی جا سکتی ہیں۔میر جعفر جنہیں میر نے اپنا استاد تسلیم کیا ہے ان کے بارے میں نہ کوئی الگ سے اطلاع ملتی ہے اور نہ کسی نے اس سلسلے میں تحقیق کرنے کی کوشش کی۔میر جعفر کون تھے اور عظیم آباد میں ان کا کہاں قیام تھا ان کی علمی استعداد کے اور کیا حوالے ہیں، اس طرح کے کئی سوالات ہیں جن کے جوابات ابھی تک حاصل نہیں کیے جا سکے۔میر نے میر جعفر کا جس احترام کے ساتھ ذکر کیا ہے اگر یہ نہ ہوتا تو ہم میر جعفر عظیم آبادی سے واقف نہیں ہو سکتے تھے۔ذکر میر کو پڑھتے ہوئے میر جعفر عظیم آبادی پر نگاہ ٹھہر جاتی ہے ۔ذکر میر کا وہ ورق جس میں میر جعفر کا ذکر ہے وہ اتنی مرتبہ نگاہ سے گزرا ہے کہ اس کے بیشتر جملے یاد ہو گئے ہیں۔افسوس یہ ہے کہ میر جعفر عظیم آبادی کے تعلق سے جب یہ سوالات ذہن میں ابھر رہے ہیں تو نثار احمد فاروقی ہمارے درمیان موجود نہیں۔قاضی عبدالودود نے صرف اتنا لکھا ہے: “کچھ دن میر جعفر عظیم ابادی سے جو ایک مجہول احوال شخص ہیں درس لیا اور سعادت امروہوی سے ملاقات ہوئی تو ان کی ترغیب سے ریختہ گوئی شروع کی”۔ قاضی عبدالودود جیسے عظیم محقق نے بھی میر جعفر کو مجہول الاحوال شخص لکھ کر مزید کچھ تحقیق کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔۔میر جیسا شخص جس شخصیت سے فارسی زبان سیکھنے کا اعتراف کر رہا ہے اس کے بارے میں کچھ نہ جاننا کتنی بڑی محرومی ہے۔سعادت علی امروہوی پر نثار فاروقی کے علاوہ کسی اور کی تحریر سامنے نہیں آئی ۔
نیر مسعود کا ایک مضمون “ذکر میر کا بین السطور” ہے اس میں میر جعفر عظیم آبادی اور میر کا حوالہ کچھ اس طرح آیا ہے کہ اس میں ایک متن پر دوسرا تیار ہو گیا ہے۔خوشی اس بات کی ہے کہ نیر مسعود نے ذکر میر کے بین السطور کے تعلق سے میر جعفر اور میر کے رشتے کی نوعیت کو سمجھنا اور دیکھنا ضروری سمجھا۔لیکن کہیں کہیں صاف محسوس ہوتا ہے کہ نیر مسعود نے ان دونوں کے تعلق سے جو باتیں لکھی ہیں وہ بہت دور کی معلوم ہوتی ہیں اور ذکر میر کی عبارت سے ان کی تصدیق نہیں ہوتی۔یہ کہا جا سکتا ہے کہ نیر مسعود نے قیاس اور قرینہ کے تعلق سے جو رویہ اختیار کیا اس کی تحسین ضروری ہے اور اس عمل میں انہوں نے میر اور ذکر میر کے مجموعی مزاج اور کردار کو بھی پیش نظر رکھا ہے۔پھر بھی جو چند باتیں مجھے کھٹکتی ہیں ان کا اظہار ضروری ہے۔پہلے ذکر میر کا وہ حصہ ملاحظہ کیجئے جس کا تعلق میر جعفر عظیم آبادی سے ہے۔
“میں ایک دن سر بازار ایک کتاب کا جزو ہاتھ میں لیے بیٹھا تھا۔میر جعفر نامی ایک جوان ادھر سے گزرے ان کی نظر مجھ پر پڑی تو تشریف لائے اور ذرا توقف کر کے کہنے لگے،”اے عزیز معلوم ہوتا ہے تمہیں پڑھنے کا شوق ہے،میں بھی کتاب کا کیڑا ہوں،لیکن کوئی مخاطب نہیں ملتا،اگر تمہیں شوق ہو تو کبھی کبھی آجایا کروں”۔ “میں نے کہا میں کسی خدمت کی استطاعت تو نہیں رکھتا اگر محض خدا واسطے اپ کی زحمت گوارا کریں تو عین بندہ نوازی ہے” ۔کہنے لگے اتنا ہے کہ جب تک تھوڑا سا ناشتہ نہ مل جائے میں گھر سے قدم نہیں نکالتا میں نے کہا یہ مشکل خدائے کریم آسان کر دے گا۔اگرچہ میرے پاس بھی کچھ نہیں ہے۔انہوں نے اس نُسخہ پریشاں کے پاورق کو اگلے سر صفحوں کے مطابق کر کے مجھے دیا اور چلے گئے اس دن سے اکثر اس آدم صورت فرشتہ سیرت انسان سے ملاقات ہوتی وہ نہایت مہربانی سے مجھے پڑھاتے یعنی اپنا دماغ کھپاتے اور مجھے کچھ سکھاتے،میں بھی تابع مقدور ان کی خدمت کرتا یعنی جو کچھ میسر تھا ان کے لیے خرچ کرتاکرتا۔ ناگاہ ان کے وطن یعنی عظیم آباد سے خط آیا اور وہ بادل ناخواستہ ادھر چلے گئے۔” (ترجمہ نثار احمد فاروقی)
نیر مسعود لکھتے ہیں
٫٫یہ کچھ عجیب بیان ہے۔اس کے شروع میں میر جعفر غرض مند معلوم ہوتے ہیں۔اور بازار میں میر کے پاس کتاب دیکھ کر اپنے کشتہ کتاب ہونے کا ذکر کرتے ہیں۔پھر کبھی کبھی میر کے پاس چلے آنے کو کہتے ہیں۔یہ کوئی ایسی بات نہیں جس کے لیے وہ معاوضے کے طالب ہوں۔لیکن میر اس گفتگو کو کاروباری رنگ دے کر ان کے معاوضے کی بات چھیڑ دیتے ہیں۔یہ بات طے ہو جاتی ہے اور میر جعفر کو اس بات کا معاوضہ ملنے لگتا ہے کہ وہ اکثر میر سے ملتے اور انہیں کچھ سکھاتے رہتے تھے۔کیا سکھاتے تھے؟اس کی صراحت میر نہیں کرتے۔اس کا امکان کم ہے کہ وہ مدرس کے حیثیت سے میر کو گویا ٹیوشن پڑھاتے ہوں اور میر تنگدست ہونے کے باوجود فیس دے کر ان سے پڑھتے ہوں۔یہ پورا واقعہ میر کی کتاب فروشی سے متعلق معلوم ہوتا ہے۔؛؛
نیر مسعود نے کتاب فروشی کو ان کے گھر اور خاندان سے وابستہ کر کے دیکھا ہے۔میر کے والد اور ان کے بھائیوں کے درمیان جو کتابیں حائل ہیں ان کا ذکر نیر مسعود نے کچھ اس طرح کیا ہے کہ یہ کہانی کا ٹکڑا معلوم ہوتا ہے۔کتابیں بھائیوں میں کس طرح تقسیم ہوں اور قرض کی ادائیگی کی کیا صورت ہو سکتی ہے ان تمام مسائل پر نیر مسعود نے روشنی ڈالی ہے۔کتابوں کا کوئی کاروبار تھا جو میر نے بھی اختیار کیا۔میر نے جس جزوکا حوالہ دیا ہے نیر مسعود اسے کتاب فروشی کے ضمن میں دیکھتے ہیں گویا میر جعفر نے جو ان کے ساتھ معاملہ کیا وہ کاروباری نوعیت کا تھا یعنی میر جعفر نے میر کو کتابوں کے پریشان جز کو یکجا کرنے کا سلیقہ سکھایا۔نیر مسعود میر جعفر اور میر دونوں کو کاروبار کے تعلق سے ایک دوسرے پر سبقت لے جاتا ہوا دیکھتے اور محسوس کرتے ہیں۔میر کے بیان سے یہ قطعاً نہیں لگتا کہ ان ملاقاتوں کا تعلق کتاب کے بکھرے ہوئےاوراق کو یکجا کرنے اور انہیں پھر فروخت کرنے سے ہے۔میر کے یہ الفاظ کیا کہتے ہیں۔
٫٫میر جعفر نامی ایک جوان ادھر سے گزرے ان کی نظر مجھ پر پڑی تو تشریف لائے اور ذرا توقف کر کے کہنے لگے۔اے عزیز معلوم ہوتا ہے تمہیں پڑھنے کا شوق ہے میں بھی کتاب کا کیڑا ہوں لیکن کوئی مخاطب نہیں ملتا اگر تمہیں شوق ہو تو کبھی کبھی آجایا کروں۔؛؛
نیر مسعود اس بات پر پوری طرح قائم ہے اور انہیں یقین ہے کہ میر بازار میں کتاب فروخت کر رہے تھے یا کتاب کو اس لائق بنانا چاہتے تھے کہ وہ فروخت ہو جائے۔انہوں نے یہ پہلو بھی نکالا ہے ۔وہ لکھتے ہیں۔
٫٫میر نے صاف صاف نہیں لکھا کہ سر بازار کتابوں کی دکان لگائے بیٹھے تھے وہ کتاب کے ایک جز اور نسخہ درہم کا ذکر کرتے ہیں اور بتاتے ہیں انہیں دیکھ کر میر جعفر وہاں آگئے اور بعد ساعت انہوں نے میر سے گفتگو شروع کی ساعت سے بالعموم ایک گھنٹہ یا کچھ دیر مراد لیتے ہیں اغلباً اس مدت میں میر جعفر دوسری کتابیں دیکھتے رہے پھر میر کی طرف متوجہ ہوئے جو کسی کتاب کے نسخہ درہم کا ایک جز لیے اس کے منتشر اوراق کو صفحہ وار مرتب کرنے کی کوشش کر رہے تھے،،
یہ تعبیرات میر کے بیان سے میل نہیں کھاتیں ۔میر کا صاف بیان تو یہ ہے کہ میں ایک دن سر بازار ایک کتاب کا جزو ہاتھ میں لیے بیٹھا تھا۔اس سے یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ بازار میں میر کی کوئی دکان تھی اور یہ جو کتاب کا جزو ہے وہ مطالعے کے لیے نہیں تھا بلکہ بیچنے کے لیے تھا۔سر بازار سے نیر مسعود نے صرف دکان اور کاروبار کا مطلب نکالا ہے۔ان کی یہ بات بھی قرین قیاس ہے کہ وہ دکان پر آئے اور پھر کتابیں دیکھنے لگے اسی درمیان انہوں نے میر سے گفتگو شروع کر دی لیکن نیر مسعود کی یہ تعبیر ایسی نہیں کہ اسے یقینی طور پر دیکھا اور سمجھا جائے۔وہ اس لیے کہ توقف کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ کوئی فطری طور پر کچھ کہنے میں جلد بازی کا مظاہرہ کرے۔یہ ممکن ہے کہ کسی کی کسی پر نظر پڑے اور وہ ذرا ٹھہر کر گفتگو کا آغاز کرے۔توقف سے نیر مسعود نے یہ مطلب نکالا کہ میر جعفر نے اس درمیان کچھ اور کتابوں کو بھی دیکھا ہوگا۔میر جعفر کا “یہ کہنا کہ تمہیں پڑھنے کا شوق ہے میں بھی کتاب کا کیڑا ہوں لیکن کوئی مخاطب نہیں ملتا” اس حصے کا اہم ترین حوالہ ہے اور اسی میں میر اور میر جعفر کے رشتے کا راز پوشیدہ ہے۔نیر مسعود شاید اس سے سرسری گزر گئے اور انہیں یہ محسوس ہوا کہ یہ تو ایک دور دراز علاقے کے فرد کا بیان ہے۔یوں دیکھیں تو ذکر میر کے سارے بیانات آج کی تاریخ میں کتنے فاصلے پر دکھائی دیتے ہیں۔میر جعفر نے اگر میر میں پڑھنے کا شوق دیکھا تھا تو اس کا سبب کتابوں کا کاروبار نہیں ہو سکتا۔اور یہ بات یوں بھی میر کے علمی و تخلیقی مزاج کے منافی ہے۔میر جعفر عظیم آبادی نے یہ کہنے میں بھی تعامل نہ کیا کہ میں بھی کتاب کا کیڑا ہوں گویا خود انہیں میر کی شخصیت میں اپنی ذات کا سراغ ملا۔میر میر جعفر کو “جوان” لکھتے ہیں اس سے واضح ہے کہ میر جعفر نے دہلی آمد سے پہلے اپنے وطن عظیم آباد میں اپنی علمی تربیت کا ایک سفر طے کر لیا ہوگا۔میر چاہتے تو میر جعفر کو نظر انداز کر دیتے اور صاف صاف کہتے کہ میں تم سے بات کرنا نہیں چاہتا۔میر کو بھی کچھ تو میر جعفر کے یہاں نظر آیا ہوگا جو انہیں اس وقت کی دلی میں نایاب نہیں تو کمیاب ضرور تھا۔نیر مسعود لکھتے ہیں۔
٫٫میر کسی کتاب کی ترک درست کر رہے تھے۔یہ منظر کسی دیکھنے والے کو یہ تاثر دے سکتا تھا کہ وہ کتاب کے مطالعے میں منہمک ہیں اور ذوق خواندن رکھتے ہیں۔میر جعفر خود بھی کتابوں کے دیوانے تھے لیکن ان کی پریشانی یہ تھی کہ انہیں کوئی مخاطب نہیں ملتا تھا اس وقت تک میر خان آرزو کی بدولت مخاطب ہی نہیں مخاطب صحیح ہونے کی لیاقت پیدا کر چکے تھے میر جعفر نے اجازت مانگی کہ وہ میر کے پاس آ جایا کریں بشرطے کے میر کو شوق کامل ہو یہ شرط بظاہر اس لیے تھی کہ میر جعفر میر کی کتابیں دیکھنے کے علاوہ ہم مذاقی کی وجہ سے ان کے ساتھ علمی گفتگو بھی چاہتے تھے شوق کامل نہ ہونے کی صورت میں میر کو میر جعفر کا بار بار آنا کچھ ناگوار ہو سکتا تھا بہرحال یہاں تک تو میر جعفر میر سے ایک طرح کی رعایت اور اجازت کے طالب ہیں جو میر کی طرف سے میر جعفر کی خدمت ہوتی نہ کہ برعکس اور اس کا صلہ میر کو ملنا چاہیے تھا نہ کہ میر جعفر کو جو اپنے علمی ذوق کی تسکین کے لیے میر کے پاس آتے رہنا چاہتے ہیں اور میر پر بار بھی نہیں ہونا چاہتے لیکن میر ان سے جو کچھ کہتے ہیں وہ معاملے کو الجھا دیتا ہے میر نہیں بتاتے کہ اس کے بعد گفتگو کس نہج پر آگے بڑھی۔ لیکن اب ہم دیکھتے ہیں کہ میر کاروباری وہ بھی سیانے کاروباری کی طرح عظیم آبادی نووارد سے تہی دستی کا عذر کر کے بلا معاوضہ کچھ کام لینا چاہتے ہیں جواب میں میر جعفر بھی کاروباری ہو جاتے ہیں اور کچھ نہ کچھ صلے کے بغیر زحمت کشی سے انکار کر دیتے ہیں میر اپنی تہی دستی کا مکر ذکر کرتے ہیں لیکن معاملے طے بھی کر لیتے ہیں ۔یہ اب بھی نہیں بتاتے کہ میر جعفر کو کس خدمت کا صلہ دینے کی بات چھڑ گئی ہے۔”
کتابوں کو درست کرنا گویا کتابوں کو پڑھنا نہیں ہے مگر دور سے کسی کو یہ لگ سکتاہے کہ کوئی مطالعے میں مشغول ہے۔ نیر مسعود نے میر جعفر کی علمی شخصیت کو علمی گفتگو کے طور پر دیکھا ہے گویا کہ انہیں کوئی ایسا مخاطب نہیں ملتا تھا جس سے وہ بات کر سکیں۔میر یہ کیوں بتاتے اور انہیں یہ بتانے کی کیا واقعی ضرورت تھی کہ ان سے معاملہ کس نہج پر آگے بڑھا وہ دونوں کو سیانے کاروباری کا نام دیتے ہیں۔علمی ذوق کی تسکین کے لیے کسی کے پاس جانا اگر کاروباری اور سیانا ہونا ہے تو اس سے اچھی بات کیا ہوگی۔میر جعفر کے تعلق سے میر کا ایک جملہ ایسا ہے جس سے نیر مسعود نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ کتابوں کی درستگی کا یہ سلسلہ ملاقاتوں کی صورت میں قائم ہو گیا تھا جملہ یہ ہے۔
٫٫انہوں نے اس نسخے پریشاں کے پاوق کو اگلے سر صفحوں کے مطابق کر کے مجھے دیا اور چلے گئے۔؛؛
یہ ممکن ہے کہ اس دن کتاب کا کوئی پریشان جز تھا جسے میر جعفر نے درست کیا ہو لیکن اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ان کی ملاقاتیں کتابوں کی درستگی کے لیے مخصوص تھیں ۔وہ بھی اس صورت میں کہ میر میر جعفر کے لیے آدم صورت،فرشتہ سیرت،مہربان جیسے الفاظ استعمال کرتے ہیں اور پھر یہ بھی لکھتے ہیں کہ
٫٫مجھے پڑھاتے،یعنی اپنا دماغ کھپاتے اور مجھے کچھ سکھاتے،،
کوئی ایسا سبق تو نہیں تھا جس کا رشتہ پریشاں جز کی یکجائی اور درستگی سے تھا جس کے درس کی ضرورت تھی۔پڑھانا اس کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے کہ انہوں نے کوئی کتاب پڑھی ہوگی کچھ زبان سیکھی ہوگی پھر اسی کے ساتھ دماغ کھپانا اور پھر سکھانا یہ سارے الفاظ اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ میر کا میر جعفر سے استادی اور شاگردی کا رشتہ کتاب کے جز میں پریشان اور اس کی یکجائی کی وجہ سے نہیں تھا۔حیرت ہوتی ہے کہ نیر مسعود نے ان دونوں کے رشتوں کے تعلق سے اتنی تفصیل سے لکھنے کے باوجود میر کے بعض الفاظ کو اتنی اہمیت نہیں دی جو یہ بتاتے ہیں کہ میر کے لیے بکھرے ہوئے اوراق کو ٹھیک کرنا اور انہیں ترتیب سے رکھنا ضروری تو تھا مگر اس کے لیے کسی ایسے استاد کی ضرورت نہیں تھی۔میر ہی کا شعر یاد آتا ہے۔

کچھ میں نہیں اس دل کی پریشانی کا باعث
برہم ہی مرے ہاتھ لگا تھا یہ رسالہ۔

سرور الہدٰی
۰۵ اپریل ۲۰۲۴