دانیال کی چھوٹی اور معصوم انگلیوں میں

یہ تحریر 49 مرتبہ دیکھی گئی

دانیال کی چھوٹی اور معصوم انگلیوں
میں
کتنی کتابوں کے پرزے پوشیدہ ہیں
ہر دن وہ کسی کتاب کا انتخاب کرتا ہے
قرآت کا اتنا بے دردانہ اظہار
یہ پرزے کتابوں کے ہیں مصنف کے تو نہیں
ان معصوم انگلیوں میں کتنے معنی پوشیدہ ہیں
کتابیں بکھرنے سے پہلے اور بکھرنے کے بعد معنی کے سلسلوں کو ایک چھوٹی سی مٹھی میں بند کر دیتی ہیں
معصومیت جمود کے لیے خطرہ بن جاتی ہے
غصہ زیادہ ہے یا سرشاری
سرشاری زیادہ ہے یا غصہ
بس ایک سلسلہ ہے ہر روز کتابوں کے بکھرنے کا
موبائل کو چھپا نےکی اتنی بڑی قیمت
کتابوں کو چھپانے کی کوئی صورت نہیں
آج ہرمن واک کی the winds of war کی باری تھی
یہ ہوائیں دوسری جنگ عظیم کی تھیں
چند دن ہی تو ہوئے تھے
نیند سے بوجھل آنکھوں نے اپنی تھکن کا احساس دلایا
دانیال نے ایک چھوٹے سے کمرے میں
دوسری جنگ عظیم کی ہواؤں کا کچھ ایسا مذاق اڑایا
جنگ کی ہوائیں زمانے کو عبور کرتی ہوئی
کہاں سے کہاں پہنچ جاتی ہیں
انہیں تعبیر کے کن مرحلوں سے گزرنا پڑتا ہے
ایک وہ ہوا بھی تھی
جو ہجرت اور تقسیم کی تھی
کتنی تیز ہوا تھی
کچھ سنائی نہ دیتا تھا
ابوالکلام قاسمی کی اس تعبیر میں تاریخ کا عمل تھا
اس کا ادراک خلیل الرحمن ناظمی کو ہوا تھا
گزشتہ رات بہت تیز چل رہی تھی ہوا
صدا تو دی پہ کہاں تک تمہیں صدا دیتے
یہ شعر پہلے سے موجود تھا
ہوا کی تیزی کا احساس باقی ہے
کتاب کہ پرزوں نے فضا میں اس کی موجودگی کا احساس دلایا
کتاب کے پرزے ہر طرف بکھرے ہوئے ہیں
دانیال آج کتنا خوش ہے
جنگ کی ہواؤں کا سلسلہ شاید کچھ اس طرح تھم جائے
وہ پرزے کچھ اس طرح جمع کر رہا ہے
جیسے انہی سے کوئی نئی کائنات بن جائے گی
چھوٹی چھوٹی انگلیاں کب سے ان پرزوں کو جمع کر رہی ہیں
کبھی وہ پرزوں کو ہتھیلی پر رکھ کر اڑا دیتا ہے
اس کی مٹھی میں پرزے کچھ یوں جمع ہو جاتے ہیں کہ
جیسے معنی تھک ہار کر اب یہیں رہنا چاہتے ہوں
چھوٹی ہتھیلیوں اور مٹھیوں کی بساط کتنی بڑی ہے

سرور الہدی
تین اپریل 2024