گمشدہ شہر

یہ تحریر 2219 مرتبہ دیکھی گئی

بسیں، ٹرینیں، ہوائی اڈے گواہی دیتے ہیں ہم نے دیکھا
وہ جانے والے تمام چہروں میں منفرد تھا
وہ ان میں تھا جن کو دیکھ کر ہم دعائیں کرتے ہیں
ان کے قدموں کے نقش ہم سے جدائی کا راستہ نہ پوچھیں
ہجومِ آوارگاں بتاتا ہے “ہم نے دیکھا”
کہا مسافر ہے پر مسافت کی دھوپ چھاؤں کا اس کے چہرے پہ کوئی بھی دستخط نہیں ہے
یہ جی میں آتی ہے اس سے پوچھیں “تو کس کا پیارا ہے”
یہ بتائیں سفر کے رستے بہت کٹھن ہیں
مسافتوں کی ہوائیں چہرے بگاڑتی ہیں
مگر جو جاتا ہے کس کی سنتا ہے، کب بتاتا ہے، وہ کہاں، کس طرف چلا ہے
کہاں پہ ڈھونڈیں کہ آنے والی سبھی اڑانوں سے
گھر کو آتے مسافروں کی طویل فہرست میں بھی اس کا سراغ گم ہے
کہاں چلیں ریلوے کے سارے کرائے ناموں سے نامِ شہرِ وصال گم ہے