غزل

یہ تحریر 874 مرتبہ دیکھی گئی

لرز لرز تو گیا اک چراغ نیم شبی
مگر سنبھل کے جلا اک چراغ نیم شبی
سبھی دلوں میں عجب خوف تھا اندھیرے کا
مگر ذرا نہ ڈرا اک چراغ نیم شبی
میں سوچتا تھا اکیلا ہی جل رہا ہوں یہاں
مرا رفیق ہوا اک چراغ نیم شبی
نجانے کہنا تھا کیا اس نے سونے والوں سے
پکارتا ہی رہا اک چراغ نیم شبی
تپش حروف کی شاید اسی کی لو سے ملی
مری غزل میں جلا اک چراغ نیم شبی