گر ہمیں مکتب و ہمیں مُلاّ

یہ تحریر 2662 مرتبہ دیکھی گئی

ایک کرم فرما نے، جو ایم اے اُردو کے پرچے دیکھ رہے تھے، یہ گہر ریزے فراہم کیے ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ انھیں پڑھ کر ہنسا جائے یا رویا؟ تعلیم کا انحطاط اس حد تک پہنچ گیا ہے، یقین نہیں آتا۔ سب سے خوف ناک بات یہ ہے کہ طلباء نظم اور نثر میں بھی فرق نہیں کرسکتے۔ ان کی عام معلومات بھی خاصی بھیانک ہیں۔ ذہن میں مختلف ادوار اور شخصیات بُری طرح گڈ مڈ ہیں۔ مستزاد یہ کہ اپنا مفہوم بیان کرنے پر بھی قادر نہیں۔

سمجھ میں نہیں آتا زوال کی یہ َرو کہاں جا کر رُکے گی یا کہیں یا کبھی رُکے گی بھی۔ تعلیم کو خالصتاً کاروبار کی صورت دے دی گئی ہے۔ ملک میں فروخت ہونے والی بیشتر چیزیں جعلی ہیں۔ تعلیم کو بھی اب جعل سازی کا ایک انداز سمجھ لینا چاہیے۔

٭         محمود شیرانی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ بہت سال پہلے جب آریاؤں کا زمانہء خلافت تھا…

٭         حافظ محمود شیرانی نے بھی اپنے مکالمے اور مرثیے میں اُردو کے فروغ کے لیے ہی یہ کام شروع کیا۔ جب ان کا دفتر لاہور سے دلّی منتقل ہوا تو اس کے ساتھ بہت سے پنجابی آئے تھے۔

٭         حافظ محمود شیرانی نے اُردو زبان کی ترقی کے لیے بہت محنت کی۔ انھوں نے اپنی کتاب کا اُردو میں ترجمہ کیا۔ بے شک وہ عربی فارسی کے شاعر جانے جاتے تھے لیکن اپنی کتاب کا اُردو ترجمہ کیا۔

٭         حافظ محمود شیرانی نے لوگوں کو یہ بھی بتایا کہ کس طرح نظم کو نثر میں بدلنا ہے۔

٭         ڈاکٹر گلکرائسٹ کو اس کالج کا پرنسپل بنایا گیا لیکن وہ قومی لباس زیب تن کرکے دور دراز علاقوں کی سیر کے لیے جاتا۔

٭         خواجہ میر درد دہلی میں پیدا ہوے اور ان کے پیدا ہونے سے پہلے ان کے والد شیخ محمد خواجہ پہلے ہی وفات پاچکے تھے… اور ان کے چچا امیر احمد یوسفی نے ان کو پالا اور جوان کیا… اور ان کو اعلیٰ تعلیم کے لیے اچھے کالج میں داخلہ دلا دیا… شاعری کا آغاز سکول کے دور میں ہوا۔ خواجہ میر درد نے شروع ہی سے تہمبند بنانے پسند کرتے تھے اور ہاتھ میں ایک ڈنڈا پکڑے رکھّا ہوتا۔ اس میں سونے کا ایک چھلاّ تھا۔ بہت زیادہ غربت ہونے کے باوجود بھی وہ نہ گم ہونے دیا اور بھنگ بنانا بہت زیادہ پسند کرتے تھے… آخر وہ ایک مدرسے میں مہینہ ۸۰ روپیے میں رکھّے۔

٭         شروع ہی سے میر کو اُردو شاعری میں دل چسپی تھی۔ انھوں نے بہت سی غزلیات اُردو نثر میں لکھّی۔

٭         ہم میر، درد، حیدر علی آتش، محسن الملک کے دور کی مثنویوں کو عادل شاہی دور کی مثنویاں کہہ سکتے ہیں۔

٭         میر درد اور حالی آپس میں بہت اچھے دوست تھے… میر سودا نے بچپن سے ہی خود کو جدید معاشیات کی طرف لے کر آنا چاہا۔

٭         اُردو اور تاریخی زبان میں حافظ صاحب کے جذبات ایسے ابھرنے لگے کہ وہ انگریز اور شاہی دور سے بھی آگے نکل گئے۔ حافظ ایک آزاد خیال کے مالک تھے اور اپنی اُردو زبان کی وجہ سے بہت سی کتابیں بھی لکھّیں اور ان میں ”باغ و بہار“ اور ”آخری آدمی“ جیسے افسانے بھی لکھّے۔

٭         حافظ محمود شیرانی اُردو زبان سے قبل مسیح ایک شاعر اور مصنّف بھی رہ چکے ہے۔ انھوں نے مختلف ادوار میں شاعری کی ہے۔

٭         حافظ محمود کو جو کہ ایران میں پیدا ہوے اور وہی سے اپنی تعلیم مکمّل کی اور ان کو تخلّص حافظ محمود شیرانی ملا۔ حافظ محمود شیرانی نے اپنی شاعری میں اُردو نثر کے تمام پہلوؤں کو دیکھا۔

٭         علمی استعداد کم ہونے کی وجہ سے حافظ محمود شیرانی نے اپنے اُستاد اور ذاتی تجربات سے زبان و بیان کی کمی کو پورا کیا۔

٭         حافظ محمود شیرانی کی حکایات چونکہ دوسرے شعراء سے مختلف ہیں انھوں نے اُردو ادب میں جو واقعات لکھّے وہ دوسروں سے مطابقت نہیں رکھتے۔

٭         حافظ محمود شیرانی نے کھڑے پانی میں یہ کتاب اُردو ادب کے لیے تحریر کی تھی۔

٭         اُردو زبان کے آغاز کے ضمن میں حافظ محمود شیرانی کا نظریہ یہ ہے کہ اُردو زبان کی ابتدا اچھے طریقے سے نہیں ہوپائی تھی… انھوں نے آزادی سے قبل بھی بہت کچھ لکھّا لیکن آزادی کے بعد نام کمایا۔

٭         اُردو کا آغاز حافظ محمود شیرانی کے کتاب میں ”بھاج شاہ“ سے ہوا۔

٭         حافظ محمود شیرانی کو اُردو زبان پر بہت عبور حاصل ہے۔ انھوں نے اُردو زبان میں بہت سے قصائد اور شاعری کی ہے۔

٭         افسانوی نثر: یہ موضوع بھی غزل کا اہم ترین موضوع ہے۔ افسانوی نثر نگاروں کا کام ہے کہ کس طرح وہ اُردو غزل کو افسانوں کی شکل میں لکھتے رہے۔

٭         ہندو اور مسلمانوں کی سوچوں میں فرق ایہام گوئی کی وجہ سے ہے۔

٭         محمود غوری نے سندھ پر ۱۱۷ حملے کر ہندوستان میں انگریزوں کو شکست دے کر اسلامی حکومت قایم ہوئی۔

٭         تحریک علی گڑھ کا اہم اور بنیادی مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کو بیت المقدس تک جانے کی مکمّل آزادی ہو اور ہندوؤں اور انگریزوں کا بیت المقدس پر کوئی حق نہیں۔

٭         غالب سے سیکھنے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہے جن میں ناسخ، درد، آتش، حالی، ظفر اللہ، اشرف تھانوی وغیرہ شامل ہے۔

٭         جب اکبر بادشاہ نے سرسیّد احمد کی ترقی کی راہیں ہموار ہوتیں دیکھیں تو پھر اس کو اپنی غلطی کا احساس ہوا لیکن اس وقت سرسیّد احمد علی خاں ایک شمع کی مانند پورے ہندوستان میں روشنی پھیلا چکے تھے۔

٭         حافظ محمود شیرانی کہتے ہیں کہ اُردو کا آغاز برج بھاشا سے ہوا۔ مگر سیّد احمد خاں کا فرمان ہے کہ اس کا ایک ہیلوا بنایا گیا تھا اور شاہجہاں کے دور میں وہ ہیلوا اُردو زبان میں تبدیل کیا۔

٭         میرو سودا نے اپنی غزل کو قصیدہ میں بدلا اور پھر وہ قصیدہ مثنوی کی صورت میں لکھّا۔

٭         مومن خاں مومن اُردو نثر کے مشہور ترین شاعر ہیں۔

٭         اُردو کی ابتدا ۸ ہجری کو کلکتے سے ہوئی۔

٭         مومن نے بھی اپنی شاعری کے ذریعے اُردو نثر کو ترقی دی۔

٭         سرسیّد احمد خاں نے فورٹ ولیم کالج سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔

٭         مثنوی میں خاص قسم کا اسلوب نثر بیان کی جاتی تھی۔

٭         میر کے والد صاحب میر سے کہا کرتے تھے بیٹا عشق کرو۔ عشق ہی اس ہستی کو چلا رہا ہے۔ میر نے اپنے والد کی نصیحت کے مطابق عشق کیا اور ناکام ہوگئے۔ اس عشق نے میر میں ناکامی و محرومی کا احساس پیدا کردیا۔

٭         انجمن پنجاب کے فروغ میں جن ہستیوں نے کام کیے ان کے نام درج ذیل ہیں:  سرسیّد احمد خاں، مولانا حالی، مولانا انجمن طارق آباد، نظیر اکبر آبادی، میر تقی میر، قطب شاہ الدین…

٭         رومانویت کے زوال کے اسباب: بالآخر اس بات کا زور بڑھ گیا کہ اس سے نوجوان نسل پر جنسی اثرات مرتّب ہورہے ہیں اس لیے اس تحریک کو ختم کیا جائے۔

٭         احسان دانش: اس دور میں میر تقی میر نے احسان اور دانش کو ایک دوسرے کے قریب تر دیکھا ہے۔ آج کل لوگ اس بات کو کم ہی جانتے ہیں کہ کسی پر احسان کرنا تو دور کی بات لوگ اس کی مدد کرنا پسند نہیں کرتے۔ بس احسان فراموش ہیں۔

٭         غالب ۱۹۱۶ میں پیدا ہوے۔ یہ دہلی میں پیدا ہوے اور شروع ہی سے اپنے آپ کو ایک علم کی طرف لے آئے جس سے نہ تو ان کے علم میں اضافہ ہوا۔

٭         سیّد سجاد حسین اور دوسرے شعراء نے ایہام گوئی کی تحریک کو ختم کرنے کی بہت کوشش کی مگر پھر بھی شبلی نعمانی اور میر تقی میر اپنے عہد پر ڈٹے رہے۔

ڈاکٹر انور سدید لکھتے ہیں: کہ جب مجھے میرا من کے حوالے سے صدر منتخب کیا گیا تو میں نے اُردو نثر کو بے پایہ مقام عطا کیا۔

٭         میر کے والدین بچپن میں اس سے رخصت ہوگئے اس لیے خاندانوں والوں نے اس پر بہت سے ظلم و ستم کیے لیکن وہ اپنا سارا کچھ چھوڑ چھاڑ کر دوسرے گاؤں چلا گیا وہاں اسے صرف اور صرف ایک رہنے کے لیے کمرہ ملا پھر ذلیل و خوار ہوکر اپنے گھر آیا اور اپنا حصّہ لینے کے حق میں کھڑا ہوگیا۔

٭         مومن صاحب کو نو برس کی عمر میں مولانا شبلی نعمانی کے پاس مدرسے ڈال دیا تھا۔

٭         بھاج شاہ ہندوستان میں پہلا مسلمان تھا۔ بھاج شاہ کو ہر زبان کا پتا تھا۔ بھاج شاہ کو فارسی عربی ڈونگری وغیرہ سب زبانوں کا اعتراف کرتے تھے۔ بھاج شاہ نے ہی سب سے پہلے اُردو زبان کا بھی آغاز کیا تھا۔

٭         میرا من دہلوی نے اپنی نظم باغ وبہار میں ایہام گوئی کو بہت اچھے طریقے سے استعمال کیا ہے۔

٭         زلزلی، ظفر اللہ افسوس جعفری، ماتم شاتم، شریف الدین مذموم، شنکر ناجی، ملیح اکبر آبادی۔

٭         حالی ایک باعمل شاعر تھے اور مکمّل ایہام گو بھی۔

٭         ترقی پسند افسانہ اپنے دور کے مشہور شاعروں کی وجہ سے خاصا نام کما چکا ہے۔

٭         کسی مُردے کے غمِ ہجر میں جو الفاظ لکھّے جائیں اسے مثنوی کہا جاتا ہے۔

٭         جیسا کہ شبلی نعمانی کا کفن، دوسری عورت، حج اکبر۔

٭         حالی کی شاعری میں اُردو نثر کو فروغ حاصل ہوا۔

٭         غالب کی تصانیف: عود الہنود۔

٭         ۷۱۱ میں محمد قاسم کے دور میں جب انھوں دو تین سال یہاں قیام کیا تب یہ وہاں انگریز فوجوں نے مقامی لوگوں سے شادیاں کیں اور سکونت اختیار کی۔ تب بھی یہ زبان جو ہے وجود میں آتی ہے مگر حافظ محمود شیرانی کے کیا یہ جو ڈینٹل کالج کے میگزین میں انھوں نے بھید کو پوری طرح کھول دیا۔

٭         فورٹ ولیم کالج آف کامرس دلّی میں آباد ہوا۔

٭         رومانوی تحریک کی وجہ سے فحش گوئی عام ہونے لگی تھی جس کی وجہ سے عورتوں کے اندر بے حیائی آگئی تھی وہ کھلے عام باہر حمام میں نہاتی تھیں۔

٭         سرسیّد احمد خاں نے جب فورٹ ولیم قائم کیا تو اسے دلّی سے لاہور کی طرف منتقل کیا۔

٭         تحریک علی گڑھ کے نثر نگاروں میں ملاوجہی نے اہم کردار ادا کیا۔

٭         اُردو نثر پر حالی کا یہ بہت بڑا احسان ہے کہ انھوں نے مسدسِ حالی لکھ کر نثر کو زندہ جاوید کردیا۔

٭         قحت ثالی۔