نظم

یہ تحریر 179 مرتبہ دیکھی گئی

دلِ بے آسماں، تاریک ہے یہ تشنگی کتنی!
در و دیوار پر اُگتا ہوا یہ درد کا سبزہ۔
بچھا لے، اَوڑھ لے، باقی ہے اب تیری زمیں جتنی۔

دلِ نامہرباں، تیرے لہو میں رات ہے باقی،
رگ و پَے میں کسی دیوانگی کی آخریں تلچھٹ۔
یہ دیواروں سے سر کو پھوڑتی بے رحم ناچاقی۔

دلِ ناآشنا، دنیائے دُوں سے کیا تجھے حاصل؟
ترا سکّہ کہاں چلتا ہے اس بازارِ وحشت میں۔
کھرا گر ہو تو کیا، کھوٹا سہی، دونوں طرح مشکل۔

دلِ بے حوصلہ، تیری تو سب کاوش زبانی ہے۔
قفس ہو، آشیاں ہو، سب خیالی ہے پروبالی۔
ترے بُرجوں پہ طاری ہر طرف رنگِ خزانی ہے۔
۲۰۱۵ء