کچھ اِدھر اُدھر سے (1)

یہ تحریر 183 مرتبہ دیکھی گئی

کسی کا قول ہے:

ہر حکومت عوام کے خلاف ساز ہے۔ یہ کہہ کر کہ مستقل بحران درپیش ہے، جو واہمے کے سوا کچھ نہیں ہوتا، اس سازش کو دوام بخشا جاتا ہے۔ یہ بحران انہی واقعات اور تجزیوں کے ذریعے برقرار رہتا ہے جن کا میڈیا پر دن رات چرچا رہے۔

(یہ قول ہے تو کلبیت زدہ لیکن کبھی ٹھنڈے دل سے اس پر غور کر لیجیے۔)

٭

برنرڈ شاکسی صحافی سے: جنابِ من، آپ کے پیشے نے، حسبِ دستور، آپ کے دماغ کا ستیاناس کر دیا ہے۔

٭

زندگی میں اصل مصائب اس وقت شروع ہوتے ہیں جب آپ کو وہ مل جاے جس کی طلب تھی۔

٭

پہلے کہا جاتا تھا کہ جب کولمبس امریکہ (یا جزائر غرب الہند) پہنچا تو شمالی امریکہ میں صرف دس لاکھ مقامی باشندے (ریڈ انڈین) موجود تھے۔ یہ بات اب بالکل غلط ثابت ہو چکی ہے۔ اندازہ ہے کہ ان کی تعداد ایک کروڑ کے قریب تھی۔ لیکن ہر طرف یورپی اقوام کی قربت کے سبب بیماریاں  بہت پھیلیں اور کثرت سے اموات ہوئیں۔ ہسپانیوں کے ورود نامسعود کے تقریباً سو سال بعد میکسکو کے بعض علاقوں میں نوے فی صد آبادیاں نیست و نابود ہو گئیں۔

٭

ابتدائی برسوں میں کتنے ہی انگریز آباد کار انڈین قبائل میں گھل مل گئے۔ خاص طور پر اغوا کی گئی انگریز عورتیں، انڈین قبائل سے چھڑائے جانے کے بعد بھی، انگریز بستیوں میں لوٹ آنے پر بالکل رضامند نہ تھیں۔ اس سے صدیوں پرانے اس مفروضے کو زک پہنچتی ہے کہ یورپی متمدن زندگی امریکی وحشیوں کی عائلی زندگی سے بہتر تھی۔

٭

سچائی کبھی سچ معلوم نہیں ہوتی۔ یہ بات صرف ادب یا مصوری ہی پر صادق نہیں آتی۔ کسی کو کہانی، کوئی سی بھی کہانی سنائیے۔ اگر آپ اسے بناسنوار کر پیش نہیں کریں گے تو وہ ناقابل یقین اور پُرتصنع معلوم ہوگی۔ اسے آراستہ پیراستہ کرکے بیان کریں گے تو زندگی سے بھی زیادہ حقیقی معلوم ہونے لگے گی۔

٭

کلاسیکی لاطینی میں “ہاں” کے لیے کوئی لفظ موجود نہ تھا۔ جب کوئی سوال کیا جاتا تو سوال ہی کے الفاظ کو اثبات میں بدل کر دہرا دیتے۔ مثلاً اگر یہ پوچھا جاتا کہ “کیا تم سپاہی ہو؟” تو جواب ملتا: “میں سپاہی ہوں۔” یا “ایو” کہ دیاجاتا یعنی “سو ہی ہوں” یا “یہ تم کہو ہو۔”

٭

سر مارٹن رائل نے، جسے فزکس میں نوبیل انعام مل چکا تھا، کہا : “اپنی سائنسی زندگی کے اختتام پر میں یہی محسوس کرتا ہوں کہ اگر 1946ء میں کاشتکار بن جاتا تو کہیں بہتر ہوتا۔”

٭

نیوزی لینڈ کے اصل باشندے ماؤری ہیں۔ فیثاغورث کی طرح ان کا بھی یہی خیال تھا کہ تمام ستاروں پر پہاڑ اور میدان اور آبادیاں ہیں۔

٭

1054ء میں آسمان میں ایک سپرنووا نمودار ہوا۔ اس کی تابانی کا یہ عالم تھا کہ تئیس روز تک دن دہاڑے بھی صاف نظر آتا رہا۔

٭

ہانس ساخس (تحلیلِ نفسی کے ابتدائی ماہروں میں سے ایک) کا قول ہے: مشکل یہ نہیں کہ حسن کو سمجھا کیسے جائے۔ مشکل یہ ہے کہ حسن کی تاب کیسے لائی جائے۔

٭

روس میں افسر شاہانہ نظام ظالمانہ تو تھا لیکن اس کے اوچھے پن اور بے تکی حرکتوں نے زار روس کی مطلق العنانی کا بیڑا غرق کرنے میں زیادہ نمایاں کردار ادا کیا ہے۔

٭

خبطی: جو آدمی اتنا امیر ہو کہ اسے پاگل کہنے کی جرات نہ پڑے۔

٭

اعصابی مریض ہوائی قلعے بتاتا ہے اور نفسیاتی طور پر مریض اپنی دانست میں ان قلعوں میں رہتا ہے اور تحلیل نفسی کا ماہر دونوں سے کرایہ وصول کرتا ہے۔

٭

میرا ڈاکٹر بہت سخی ہے۔ اس نے ایک مریض سے کہا کہ تم صرف چھ مہینے اور زندہ رہو گے۔ جب مریض ڈاکٹر کا بل ادا کرنے سے قاصر نظر آیا تو ڈاکٹر نے اس کی زندگی میں چھ مہینے کا اضافہ کر دیا۔

٭

سیلین (معروف فرانسیسی ناول نگار) کا قول ہے: جو کچھ ہم میں یا زمین پر یا شاید آسمان میں بھی ہوش اڑا دینے والا ہے اسے ابھی بیان نہیں کیا گیا۔ ہم اس وقت چین نہ لیں گے جب تک ہر بات، ہمیشہ ہمیشہ کے لیے، کہہ نہ دی جائے۔ پھر ہم خاموش ہو جائیں گے اور اپنے گونگے پن سے خوف زدہ نہ ہوں گے۔

٭

ابن عربیؒ “فتوحات مکیہ” میں لکھتے ہیں: ایک مرتبہ، رویائی واردات میں، ایک فرد کو میں نے کعبے کا طواف کرتے دیکھا۔ اس نے اپنا نام بتایا اور کہا کہ “میں تمھارے اجداد میں سے ہوں۔” میں نے دریافت کیا کہ آپ کب فوت ہوئے تھے تو جواب ملا کہ چالیس ہزار سال پہلے۔ یہ سن کر مجھے پوچھنا پڑا کہ پھر حضرت آدم کے بارے میں کیا کہتے ہیں جن کا زمانہ، توقیت کے لحاظ سے، اتنا بعید نہیں۔ اس فرد نے کہا:”تم کس آدم کے بارے میں پوچھتے ہو؟ کیا وہ آدم مراد ہے جس کا تعلق زمانہ قریب سے ہے؟”

(اس ضمن میں حسین علی تاسف کا ایک شعر دلچسپ ہے:

اعتقادِ برہمن پر واعظا ناحق ہے طعن

پیشتر آدم کے کیا کیا دورِ آدم ہو گیا)

٭

کمرشل ٹی وی بدترین کارکردگی دکھا کر اس قدر مال کما لیتا ہے کہ بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنا وارا نہیں کھاتا۔

٭

پرانے وقتوں میں خاموشی سے کتاب پڑھنا ایسا عجوبہ تھا کہ سینٹ اوگسٹین نے اس بات کو قابلِ ذکر سمجھا کہ  امبروز چپ چاپ کتاب پڑھتا رہتا۔خواندگی کے دوران اس کی نظر صفحے کا سبک روی سے جائزہ لیتی اور اس کا دل معنی کا سراغ لگا لیتا لیکن اس کی آواز سننے میں نہ آتی اور نہ اس کی زبان حرکت کرتی۔ لوگ اس نابغہ روزگار کو کتاب پڑھتے دیکھنے کے لیے آیا کرتے۔