کچھ اِدھر اُدھر سے ۔ 2

یہ تحریر 148 مرتبہ دیکھی گئی

انیسویں صدی کے آخری تیس چالیس برسوں میں فرانس کی نصف سے کچھ زیادہ آبادی کے لیے معیاری فرانسیسی ایک غیرملکی زبان تھی۔
٭
ڈاکٹر جون فوکس، جس کی حیثیت انیسویں صدی کے اوائل میں دیوانگی کے معالج کے طور پر رائد کی سی تھی، اپنے پاگل خانے کے مریضوں کو، علاج کے طور پر، ہمیشہ کرکٹ تجویز کیا کرتا تھا۔
٭
بابو راجندر پرشاد نے ناگپور میں ہندی ساہتیا سمیلن میں اپنی تقریر میں کہا: اردو والوں میں محمد اقبال، جو سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا، دنیا کی محفلوں سے گھبرا گیا ہوں یارب اور “نیا شوالہ” جیسی نظموں کے مصنف تھے، خیالات کے تغیر کے بعد ایسی مشکل نظم لکھنے لگے جیسے “اس دور میں سے اور ہے جام اور ہے جم اور۔”
٭
خان بہادر عالم علی خان پٹوری اسٹیٹ میں وزیراعظم تھے۔ پاکستان میں محکمہ جیل کے انسپکٹر جنرل بھی رہے۔ ماہر القادری کا کہنا ہے کہ وہ پچیس تیس سال سے ایک منٹ کے لیے بھی نہیں سوئے۔ مگر اس مسلسل بیداری سے ان کی صحت پر کوئی اثر نہ پڑا تھا۔
٭
مصنف کے ہاں احساسِ مقام: حد سے بڑھی ہوئی تجریدیت اور عندیت (Sotipsism) کے سبب بیشتر مابعد جدید فکشن لکھنے والوں اور شاعروں نے، شاید ردِعمل کے طور پر، ازسرِ نو تصدیق کی ہے کہ ادب کو واقعتاً موجود مقامات اور حقیقی زمینی مناظر کے احوالِ واقعی سے جڑا رہنا چاہیے۔ اگر کسی جانی پہچانی جگہ کا ذکر آ جائے تو قاری اس سے حظ حاصل کرتا ہے۔
٭
تمام اچھے قصے خفیہ الیگوری ہوتے ہیں اور ہر قاری کے لیے مختلف معنی رکھتے ہیں۔ اگر یہ بات سچ نہ ہو تو بہت کم لوگ قصوں میں دل چسپی لیں کیونکہ ہم انھیں صرف اسی وقت پڑھتے ہیں جب محسوس کریں کہ قصے کے واقعوں اور کرداروں میں ہماری زندگیوں کی صدائے بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ خود ہمیں بھی پتا نہیں ہوتا کہ کسی خفیہ احساس سے متاثر ہو رہے ہیں۔
٭
پیٹرک پیڑس نے کہا جو 1916ء میں آئرستانی بغاوت کا سربراہ تھا: شاید ابتدا میں ہم سے بُھول چُوک ہو جائے اور ہم غلط آدمیوں کو گولی مار دیں لیکن خونریزی ایک پاک صاف کرنے اور حرمت بخشنے والا عمل ہے؛ اور وہ تو جو اسے دہشت ناکی کی انتہا سمجھتی ہے وہ اپنی مردانگی کھو چکی ہے۔
٭
ابراہم لنکن کا یہ ارشاد ملاحظہ ہو: میں اس کے حق میں نہیں ہوں اور نہ نہ کبھی رہا ہوں کہ سفید فام اور سیاہ فام نسلوں میں، کسی بھی لحاظ سے، سماجی یا سیاسی برابری کو فروغ دیا جائے۔ میں اس کے حق میں نہیں ہوں اور نہ کبھی رہا ہوں کہ کالے ووٹ ڈالیں یا جیوری کا حصہ بنیں یا ان کو کسی عہدے پر فائز ہونے کے لیے مطلوبہ شرائط پوری کرنے کا موقع دیا جائے۔ میں اس کا فائل ہوں کہ گوروں اور کالوں کو آپس میں شادی نہ کرنے دی جائے۔ گوری اور کالی نسلوں میں ایک طبعی فرق موجود ہے جو میری رائے میں ہمیشہ اس امر کا مانع رہے گا کہ دونوں نسلیں برابری کی سطح پر ساتھ ساتھ رہ سکیں۔ (اس کے بعد یہ سوال تو کیا ہی جا سکتا ہے کہ اگر آپ کے خیالاتِ عالیہ یہی تھے تو خانہ جنگی کی کیا ضرورت تھی؟ یا خانہ جنگی کی وجہ کچھ اور تھی۔)
٭
قدیم مصریوں کا خیال تھا کہ پیاز متعدد پرتوں پر مشتمل کائنات کی نمائندگی کرتا ہے۔ اس لیے، جس طرح ہم آسمانی صحائف کی قسم کھاتے ہیں، قدیم مصری پیاز کی قسم کھاتے تھے۔
٭
یہ ناممکن ہے کہ ہر زبان میں تمام رنگوں کے لیے لفظ موجود ہوں۔ مثلاً جاپانی میں پہلے نیلے کے لیے لفظ نہ تھا۔ اس لفظ کا جاپانی میں اضافہ زیادہ پرانی بات نہیں۔ بعض زبانوں میں نیلے اور سبز اور بنفشی رنگوں کے لیے ایک ہی لفظ مستعمل تھا۔ اوائلی زبانوں میں سب سے پہلے سفید اور سیاہ کے لیے لفظ وضع کیے جاتے ہیں۔ اس کے بعد سرخ اور زرد اور سبز کی باری آتی ہے۔ بعض زبانوں میں نیلے اور سبز میں تفریق نہیں کی جاتی اور یہ بتانے کی زحمت کوئی نہیں کرتا کہ دھنک میں نظر آنے والے رنگ کون کون سے ہیں۔ (یہ کہنے سے کہ “سبزہء خط نمودار ہوا” ظاہر ہوتا ہے سیاہ اور سبز میں تمیز نہیں تھی۔)
٭
(سعادت یاد خان رنگین کی تصنیف “اخبار رنگین” سے چند اقتباسات:
1217ھ میں گوالیار میں پہلے ایسا مینھ برسا کہ تمام شہر بہہ گیا اور پھر ایسے اولے پڑے کہ قلعہ اور شہر اور تین تین کوس کے گرد میں بڑے درختوں کے ٹہنے باقی تھے اور جانور لاکھوں جنگل میں مر کر رہ گئے۔ دروازہ قلعہ کا نشیب میں ہے اور قلعہ بہت بلند ہے۔ اولے اس میں ایسے پڑے تھے کہ سیکڑوں بیلداروں اور مزدوروں نے دوپہر میں قلعے کا دروازہ کھولا تھا اور شہر میں تین چار دن تک گڑھوں اور نیچے مکانوں میں سیکڑوں من اولا تھا۔
٭
میوات میں ایک پرگنے کا نام نوح ہے اور قریب اس کے دو گانؤ ہیں کہ جن کو حسن پور کندوری کہتے ہیں۔ ان دونوں گانؤوں کی سرحد میں کہ البتہ بہ قدر دو تین کوس کا عرصہ ہوگا۔ یہ معمول ہے کہ جب کنواں کھودا اور نوبت پانی نکلنے کی پہنچی تب پہلے شاخِ گوزن کی ایک تہ کم و بیش بقدر ایک پاؤ گز کی موٹی نکلتی ہے۔
٭
نوح کے پرگنے میں کوٹلا ایک گانؤ ہے۔ اس کے ڈھر میں یعنی جھیل بارہ کوس کے پھیر میں ہے۔ اتفاقاً ہنگامِ گرمی میں جب وہ جھیل بیشتر جگہ سے سوکھ جاتی تب اس میں اکثر جگہ زراعت کی خاطر کنویں کھود کر بناتے ہیں۔ لیکن جب بقدر دو قد آدمی کے اسے کھود چکتے ہیں تو اس میں سے ایک تہ کوئلے کی بقدر آدھ گز کے موٹی بچی ہوئی پاتے ہیں۔
٭
سردھنے کے متصل ایک گانؤ ہے۔ سنہ ایک ہزار دو سو بیس میں بے موسم برسات کے ایک ابر کا ٹکڑا بقدر ایک چارپائی کے پیدا ہو کر اس شدت سے کڑکا کہ تمام اس گانؤ کے لوگ اسے دیکھنے لگے۔ القصہ یکایک بہت زور سے ایک آواز مہیب ہوئی اور اس میں سے دو پتھر بطور کھنگر کے خاردار اور سیاہ بقدر دو دو سیر کے گر کر زمین میں گڑ گئے۔ لوگوں نے وہ دوڑ کر اٹھائے اور وہاں کے پسلدار کے پاس لائے۔ اس نے ساری حقیقت لکھ کر وہ دونوں پتھر شاہجہاں آباد میں متکانہ صاحب کو ارسال کیے۔ اس نے انھیں ولایت بھیج دیا۔
٭
(اس طرح کا ایک واقعہ سید اصغر علی شادانی نے اپنی تصنیف “حیات شاداں بلگرامی” میں لکھا ہے):
اس دوران یعنی بہ عہد فرخ سیر سرکار بھکر کے قصبے جتوئی میں ایک روز بارش ہوئی اور ساتھ ہی اولے گرے۔ یہ اولے مکانوں کی چھتوں اور درختوں پر جم گئے۔ جب نہ پگھلے تو کچھ لوگوں نے انھیں چکھ کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ یہ برف نہیں، مصرعی کے ٹکڑے ہیں۔ شدہ شدہ یہ خبر عام ہوئی اور جتنا جس کے حصے میں آیا اس نے اس مصری کو جمع کر لیا اور چند معززین اسے لے کر علامہ عبدالجلیل کے پاس بھی آئے کہ جناب، ہرگز جتوئی میں قدرت نے یہ کرشمہ دکھایا ہے کہ بجائے اولوں کے مصری کی ڈلیاں برسی ہیں اور ثبوت میں مصرعی کے وہ چھوٹے چھوٹے ٹکڑے، جو مثل اولوں کے آسمان سے برسے تھے، پیش کیے۔ علامہ نے ملاحظہ فرمایا۔ یہ بات واقعی حیرت انگیز تھی۔ جب آپ بادشاہ کو اپنے روزمرہ کی رپورٹ بھیجنے لگے تو اس واقعے کا ذکر بھی کر دیا ار اسے فرخ سیر کی ذات بابرکات سے منسوب کیا۔ (یہ خبر چارنر فورٹ (1874۔1932) تک پہنچتی تو وہ اسے ضرور اپنی کسی کتاب میں در ج کر لیتا۔ فورٹ نے دنیا بھر کے اخباروں سے اس طرح کے محیرالعقول واقعات جمع کرکے کئی کتابیں لکھی تھیں۔)
٭
مرزا علی لطف کا ایک مصرع اور دو شعر:
خواب کیا لاوے وہ پنہاں ہو جس افسانے میں آگ

اللہ رے قید خانہء ہستی کہ دم کے ساتھ
ہر اک قدم پہ لاکھوں ہیں زنداں لگے ہوے
قیس کی جا اب ہماری خاطرِ ناشاد ہے
روحِ مجنوں شاد اقلیمِ جنوں آباد ہے
٭
جب عراق کے کویت پر قبضے کے نتیجے میں گولف وار ہوئی تو ان دنوں ایک سابق عراقی سفیر، جو عبدالکریم قاسم کی حکومت میں وزیر تعلیم بھی رہ چکے تھے، یہاں پر ہمبرگ میں تھے۔ ہماری بہت لمبے عرصے سے دوستی تھی۔ وہ ہر دوسرے تیسرے روز میرے پاس انسٹی ٹیوٹ میں آ جاتے تھے۔ ایک بات جو وہ بار بار دہراتے تھے اور جس پر مجھے یقین نہیں آتا تھا یہ تھی کہ یہ سارا قبضہ برطانیہ کا پیدا کردہ ہے۔ ان کے نزدیک صدام حسین ان کا ایجنٹ ہے۔ اس کو اس جنگ کو چھیڑنے پر آمادہ کیا گیا تاکہ عراق کی ملٹری طاقت کو تباہ کرکے دوسرے عرب ممالک اور فلسطینیوں کو یہ پیغام دیا جائے کہ تمھارا حشر بھی یہی ہوگا اور اگر اس سے بچنا چاہتے ہو تو ہماری شرائط پر اسرائیل سے صلح کر لو۔ وہ کہتے تھے کہ تم دیکھ لینا امریکی فوجیں عراق کے درالحکومت بغداد سے پچاس میل پہلے رک جائیں گی اور صدام حسین کو کچھ نقصان نہ پہنچے گا۔ میں روز ان کا مذاق اڑاتا تھا مگر بالآخر وہی ہوا۔
منیر الدین احمد کا خط بنام سید سعید ہمدانی