نظم

یہ تحریر 238 مرتبہ دیکھی گئی

بے سہارا رات میں غم ناک ہونا،
صبح دم اُمّید کی پوشاک ہونا۔
سانس یہ جب تک ہے باقی، سانس میں یہ آگ باقی
راس آئے گا ہمیں کب آب ہونا، خاک ہونا؟

جاگتے رہنا ذرا، دل!
رات دُگنے اور دن کو چوگنے پہروں میں جینا۔
اتنا بھی آساں نہیں ہے جیتے جی خاشاک ہونا،
جو نظر آتے نہیں ہیں اُن گھنے زخموں کو سِینا۔

اِن ہراساں منظروں میں،
اِن ہزیمت خوردگی کے واسطوں میں
نہ کوئی ناموس بَرجا ہے نہ اپنی پردہ داری۔
اک ہجومِ خستگاں ہے مرگ آسا راستوں میں۔

جب ریاکاری سے روز و شب سجانے
ڈھونڈتی ہو زندگی لاکھوں بہانے،
کون، جھوٹوں ہی سہی، بولے گا سچ خود رفتگی میں؟
دل کی بیداری کا کوئی مول اس آشفتگی میں؟
۲۰۱۵ء