کہانی در کہانی

یہ تحریر 286 مرتبہ دیکھی گئی

گیارہویں کہانی ::

دو کتابیں، دو دوست:

میرا ہمیشہ سےمعمول رہا ہے کہ لمبی چھٹیوں میں اپنی سٹڈی سے کچھ وہ کتابیں نکالتا ہوں جن کا بالاستعیاب مطالعہ کر چکا ہوتا ہوں اور قندمکرر کےطور پر چکھتااور لطف لیتا ہوں یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ کتابوں کا ایک بڑا ذخیرہ پہلے ہی میری دسترس سے نکل چکا ہےکہ اپنی ریٹائرمنٹ کےموقع پرمیں کم وبیش تین چوتھائی کتب یونیورسٹی آف ایجوکیشن کی قدیم ترین سابق سنٹرل ٹریننگ کالج کی لائبریری کو عطیہ کر چکاہوں،ان میں ایم فل اور ڈاکٹریٹ کے وہ گرانمایہ مقالات بھی شامل تھے جو وقتا” فوقتا” میرے پاس بطورممتحن جانچنے کے لئے آتے رہے تھے-بعد میں کچھ کتب ایف سی کالج کی مین لائبریری، پھر بہت سی کتب اپنے پرانے دوست ڈاکٹر اسلم غوری سابق وائس چانسلر کی فرمائش پر منہاج یونیورستی لائبریری کو دے چکاہوں اب توبس حوالے کی کتب یا وہ کتب میری سٹڈی میں رہ گئی ہیں جو میرے دل گے قریب ہیں-ان چھٹیوں میں جس قند مکرر سے میں نےاپنےلبوں کو شیریں کیا ہے اُن میں”ستارےمیرےہم سفر”(امجد اسلام امجد) اور”وہ تیرا شاعر، وہ تیرا ناصر”(حسن رضوی) شامل ہیں،ان کتابوں نے میرے اُن قریبی دوستوں کی یادوں کو بھی تازہ کردیاہےجن کےساتھ میں نےزندگی کےقیمتی شب وروزگزارے ہیں اور جو آج ہم میں نہیں ہیں، آئیے میں آپ کوبھی اپنی یادوں کی اس برات میں شریک کروں-

ڈھونڈو گے ہمیں ملکوں ملکوں:

کچھ دوست بھائیوں جیسےہوجاتے ہیں ڈاکٹر حسن

رضوی جنہیں مرحوم کہتے کلیجہ دل کو آتا ہےمیرے ایسے ہی دوست تھے،اوریئنٹل کالج میں مجھ سے ایک سال آگے تھے-کہتے ہیں کہ کسی شخص کی صحیح پہچان کے لئے اس کے ساتھ سفر کرنا چاہئے ، ویسے توہم دونوں نےبے شمار اندرون و بیرون ملک اکٹھےسفر کئےتھے لیکن ایسے کھرےاورسچے دوست کی پہچان تو پہلی ہی ملاقات میں ہو جاتی ہے-میری رضوی سے پہلی ملاقات حیدر روڈ کی جامع مسجد میں نماز جمعہ کے بعد اُن دنوں ہوئی تھی جب اُن کی رہائش کرشن نگر میں تھی- بس پھر کیا تھا، چل سو چل دن رات کاساتھ رہااور ہمارایہ تعلق پھر قریبی تعلق بن گیا، گھروں میں آنا جانامعمول تھامجھے اپنی زندگی میں آگے پیچھےجو دو بڑےصدمے ایک ساتھ ہوئے ہیں اُن میں ایک تو اپنےبہت پیارےچھوٹے بھائی بریگیڈئیر ڈاکٹر غضنفر عباس ( واہ کینٹ یونیورسٹی کےمؤسس/ بانی وائس چانسلر) اور دوسرےبھائیوں جیسے پیارے دوست حسن رضوی کی اچانک وفات ہیں-حسن رضوی میں دوصفات میں نے ایسی پائیں جو عام طور پرلوگوں کی نظروں سے اوجھل ہیں،ایک یہ کہ وہ دوستی میں یہاں تک آگےچلا جاتا تھا کہ ہمیشہ دوست کے مفاد کو اپنے ذاتی مفاد پر ترجیح دینےلگتا،دوسرے یہ کہ بظاہر دنیادارنظر آنےوالا یہ شخص انتہائی دین دار اور پکا نمازی تھاجب کبھی ہمارا لندن یا اوسلو یا اور یاکہیں بھی اکٹھے جانا ہوا تو میں نے دیکھا کہ سارا دن کی مصروفیت اور تھکن کے باوجود رات کو واپس آکر تمام نمازیں پوری کئے بغیراس کونیندنہیں آتی تھی جب کہ میں کبھی نہ کبھی ڈنڈی مار جاتا تھا،حسن رضوی کے لئے شاد عظیم آبادی کا ایک شعر- ڈھونڈوگے اگر ملکوں ملکوں ملنےکے نہیں نایاب ہیں ہم /جو یاد نہ آئے بھول کے پھراےہم نفسو وہ خواب ہیں ہم
-یہ نصف صدی کا قصہ ہے: امجد اسلام امجد کا میرا پچاس سال سے زیادہ کا محبت اور احترام کا رشتہ قائم رہا ہے، میں ان کو ہمیشہ امجد بھائی ہی کہتارہا ہوں،ہمارے درمیان کئی ایک اشتراک بھی ہیں سب سےپہلےتویہ کہ دونوں ہم کالج ہیں کہ وہ اوریئنٹل کالج سے فارغ ہو رہے تھےاورمیں داخل ہوا تھا، پنجاب یونیورسٹی کےمجلے “محور”کے وہ ایڈیٹر رہے،میں بھی رہاہوں اُن کا تعلق ادب کی تدریس سے تھااور میرا بھی،وہ پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کے ڈائرکٹر رہے اور میں نے بھی اس عہدہ پر چار سال تک کام کیا ہےسب سےبڑااشتراک یہ کہ وہ کُھلے ڈُلے لاہوری تھےیعنی کھل کر قہقہےلگانے والے،میں بھی لاہوری ہوں اورکھل کر قہقہہ لگاتا ہوں-امجد بھائی کی بڑی خوبی یہ تھی جب بھی مجھے ملتے تھے اُن کے التفات میں مجھےہمیشہ اضافہ ہی محسوس ہوتا تھا،اُن سے آخری ملاقات سیاٹل (امریکہ) میں اُن کی وفات سے چند ماہ قبل ہوئی تھی اور میں اُن کے معانقہ کی گرمی ابھی تک محسوس کر رہاہوں کہ ان ہی کےالفاظ میں:

محبت ایسا دریا ہے

کہ بارش روٹھ بھی جائے

تو پانی کم نہیں ہوتا

_____