کہانی در کہانی

یہ تحریر 156 مرتبہ دیکھی گئی

اٹھارویں کہانی:

ایسی چنگاری بھی یارب اپنی خاکستر میں تھی؟:

عزیزدوست محترم آصف بھلی نے مجھے ایک تقریب کے بعد چائےپیتے ہوئےاپنی ایک ضخیم کتاب “صدی کی منتخب غزلیں”بڑے اہتمام کے ساتھ دی اور میں نےبھی گھرواپسی پربڑےانصرام سےاسےاپنی سٹڈی کےشیلف میں سجا دیا کہ صوری لحاظ سے یہ قابل نمائش تھی،طائرانہ نظر ڈالنے سے میں یہ تو جان گیاتھا کہ سوسال کی غزلوں کا انتخاب ہے جس کا دیباچہ استادگرامی ڈاکٹرخواجہ محمد زکریا نےلکھا ہےاس ماہ چونکہ دوستوں کی نوازش سے کتابوں کی بارش ہو گئی ہےاور میں اب رفتہ رفتہ ان کتابوں کا مطالعہ کر رہا ہوں چنانچہ آج کل عباس احمدعباسی کی دلچسپ کتاب”چندسال دیارغیرمیں، زیر مطالعہ ہے تو سوچا کہ اسےباری آنے پردیکھوں گاویسےبھی فربہ کتب سے مجھے گھبراہٹ ہوتی ہےمگر آج صبح جب سٹڈی میں آیا تو پہلے جس کتاب پرنظر پڑی وہ یہی تھی جواپنی زبان بے زبانی میں کہہ رہی تھی کہ جااین جاست،

جب کتاب کھولی توسامنے سید عابد علی عابد کی وہ غزل آگئی جو میری پسندیدہ ہےاور مجھے ازبر ہے اس کی پسندیدگی کی بڑی وجہ یہ بھی ہےکہ یہ غزل عابد صاحب کی زبانی کئی بارسن چکاتھا؀۔
چین پڑتا ہے دل کو آج نہ کل
وہی الجھن گھڑی گھڑی پل پل
میرا جینا ہے سیج کانٹوں کی
اُن کے مرنے کا نام تاج محل
کیا سہانی گھٹا ہے ساون کی
سانوری نار مدھ بھری چنچل
نہ ہوا رفع میرے دل کا غبار
کیسے کیسے برس گئے بادل
بن پئے انکھڑیاں نشیلی ہیں
نین کالےہیں تیرےبن کاجل
مجھے دھوکا ہوا کہ جادو ہے
پاؤں بجتےہیں تیرےبن چھاگل
لاکھ آندھی چلے خیاباں میں
مسکراتےہیں طاقچوں میں کنول
لاکھ بجلی گرے گلستاں میں
لہلہاتی ہے شاخ میں کونپل
کھل رہا ہے گلاب ڈالی پر
جل رہی ہے بہار کی مشعل
کوہ کن سے مفر نہیں کوئی
بےستوں ہوکہیں کہ بندھیاچل
ایک دن پتھروں کے بوجھ تلے
خود بخود گر پڑیں گے راج محل
دم رخصت وہ چپ رہے عابدؔ
آنکھ میں پھیلتا گیا کاجل

آگے بڑھتا گیااور ایسی ایسی غزلیں اور شاعر سامنے آتے رہے جوہمیشہ میرےدل گے قریب رہے ہیں،یہ کتاب کیاہے؟ ایک صدی کی اُردو غزل کا انسائیکلو پیڈیاہے، ایک ہزار پندرہ صفحات پرمشتمل اس ضخیم کتاب میں اٹھانوےشعراءکی سات سو اُنہترغزلیں شامل کی گئی ہیں جو خود ایک ریکارڈ ہے،حیرت کی بات یہ ہے کہ انہوں نے ایسے ایسے شاعر ڈھونڈ نکالے ہیں جوایک مدت سے نظروں سے اوجھل ہیں مثلا” شبیر شاہدجس کی اپنی ہی ایک کہانی ہے چلئےآپ بھی سن لیجئے- شبیر شاہد کیا عمدہ اور پُرگوشاعر تھا، اوریئنٹل کالج میں ہم سے پیچھےتھا مگراُس کااُٹھنا بیٹھنا ہمیشہ اساتذہ اور سینئرز کے ساتھ ہوتا تھا،وہ پروفیسر سجاد باقر رضوی صاحب کے بہت قریب اورسہیل احمد خان کا چہیتا تھا،ٹی ہاؤس میں ان اساتذہ کے علاوہ اکثر و بیشترناصر کاظمی کےہمراہ نظر آتاتھا،پڑھائی میں بھی آگے تھا اور پوزیشن لیتا تھا-بہت پختہ شعر کہتاتھااور شاعری میں اُس اس کا طوطی بولتاتھامگراس کا کیا کیا جائے کہ کبھی کبھی ذہانت انسان کو ظاہر و حاضر سے دور معدوم گپھاؤں میں لے جاتی ہے بلکہ لے ڈوبتی ہے،شبیر شاہد کے ساتھ بھی یہی کچھ ہواکہ ایک دن اچانک وہ غائب ہوگیا اور ایسا غائب ہوا کہ آج تک پتہ نہ چل سکا کہ ہرچند کہیں کہ ہے،نہیں ہے اب بس اُس کا نادرروزگارکلام ہی ہمارےہاتھوں میں رہ گیاہے یااُس کےاچانک روپوش ہونے پرملنےکے لئے کف افسوس- شبیر شاہدتو نسیا” منسیا ہوگیاتھا تاہم اُس کا کلام ابھی ذہنوں سےمحو نہیں ہوسکا، معروف نقاد و محقق ڈاکٹر ضیاء الحسن نے “گم شدہ ستارہ”کےنام سے سوا سو صفحات پر مشتمل کتاب مرتب کی ہے جس میں شبیر شاہد کی نظموں اور غزلوں کے علاوہ اُس کے دو تنقیدی مضامین اور اُس کےاپنے والد کے نام چند خطوط بھی شامل کر دئے ہیں،شبیر شاہد کی غزل تو آپ “صدی کی منتخب غزلیں”میں پڑھ ہی لیں گے،یہاں اُس کی یہ بہت عمدہ نظم “رفتگاں”دیکھئے:

دُور ہے وہ نیلگوں پانی کا منظر دور ہے،وہ سمندر دور ہے-

رفتگاں کے دِل سمندر دُور ہیں،

جن کے اُفق کی آنکھ سے اوجھل ہیں وہ نیلاہٹیں-

سرگراں جن کے تمّوج میں کئی

گرداب ہیں-اِک جہانِ ماوراء کی ہمسری کے خواب ہیں-

خواب اےدل دیکھتاہوں میں یہاں –

رفتگاں کی یادکےنیلےسمندرسےپرےدُوریوں پرلب کُشاساحل کے خواب ،اک پرانے شہر کے خواب۔

اک نئی منزل کےخواب!

اپنی ایک غزل میں شبیر شاہد نے اپنا تعارف یوں کرایا ہے:

شعور خاص عطا کر دیا گیا ہے مجھے
تبھی تو سب سے جدا کر دیا گیا ہے مجھے

خدا کی خیر خدا کر دیا گیا ہے مجھے
میں بندگی کے بھی معیار سے گرا ہوا ہوں

میں عشق عین تصوف کی رو سے جائز ہوں
برا نہیں ہوں برا کر دیا گیا ہے مجھے

یہ غفلتیں تو مرے خواب سے بھی ڈرتی ہیں
مرا ضمیر جگا کر دیا گیا ہے مجھے

وہ مجھ سے پوچھ رہے تھے مری کوئی خواہش
مجھے لگا کہ رہا کر دیا گیا ہے مجھے

اسے تو اب بھی طلب سی لگی ہوئی ہے کوئی
میں قرض تھا سو ادا کر دیا گیا ہے مجھے

تڑپ رہی ہے مری روح تک ابھی شاہدؔ
یہ زہر کچھ تو ملا کر دیا گیا ہے مجھے

اس جملۂ معترضہ کے بعد پھر اصل موضوع پرآتے ہیں،پوری صدی کی غزلوں کو یکجا کرنا ہی جان جوکھوں کا کام ہے،پھراس پرمستزاد کہ کوئی اہم شاعر رہ نہ پائے اور سونے پر سہاگہ آصف بھلی کا اعلئ شاعرانہ ذوق،ان سب نے مل کر کتاب میں دوآتشہ کی سی کیفیت پیدا کردی ہے-مرتب نے قارئین کی سہولت کے لئےشعراءکےنام حروف تہجی کےاعتبارسےترتیب دے ہیں،یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہےکہ مرتب نے ہر شاعر کی اہمیت اور کلام کی وقعت و اہمیت کے پیش نظر اپنی کتاب میں صفحات مختص کئے ہیں محض اپنی پسند نا پسند کو پیش نظر نہیں رکھا،اور یہ اُن کی ادبی دیانت کا بین ثبوت ہے-آخری بات یہ کہ اس مجموعے کی بیشتر غزلیں میری بھی پسندیدہ غزلوں میں شامل ہیں ہیں گویا میں اور آصف بھلی محض دوست ہی نہیں ہم ذوق بھی ہیں-بس ایک کسر باقی رہ گئی ہے جس کےلئےمرتب ہرگز ذمہ دارنہیں ہیں کہ انتخاب کا حق ہمیشہ مرتب ہی کا ہوتاہےتاہم میری یہ خواہش ہے کہ اس میں عزیز دوست حسن رضوی کی کم از کم ایک غزل خاص طور پر وہ غزل جو ملکۂ ترنم نور جہاں نے ٹیلیویژن پرگائی تھی اوربہت زیادہ مقبول ہوئی تھی ،اس کتاب میں شامل ہوتی،چلیں وہاں نہ سہی یہاں پڑھ لیجئےاوراسی غزل پر ہماری یہ کہانی بھی اختتام تک پہنچ جائےگی:

کبھی کتابوں میں پھول رکھنا،کبھی درختوں پہ نام لکھنا

ہمیں بھی ہے یاد آج تک وہ نظر سے حرفِ سلام لکھنا

وہ چاند چہرے وہ بہکی باتیں،سلگتے دن تھے،سلگتی راتیں

وہ چھوٹے چھوٹے سے کاغذوں پر محبتوں کے پیام لکھنا

گلاب چہروں سے دل لگانا وہ چپکے چپکے نظر ملانا

وہ آرزؤں کےخواب بننا وہ قصہء ناتمام لکھنا

مرے نگر کی حسیں فضاؤ! کہیں جو ان کا نشان پاؤ

تو پوچھنا یہ کہاں بسے وہ، کہاں ہےان کا قیام لکھنا

گئی رتوں میں‌حَسن ہمارا بس ایک ہی تو یہ مشغلہ تھا

کسی کے چہرے کو صبح لکھنا کسی کی زلفوں کو شام لکھنا۔