کہانی در کہانی

یہ تحریر 76 مرتبہ دیکھی گئی

اُنیسویں کہانی:

“دیارغیر میں اجنبی”:ایام لندن کی داستان:تصویر-

ہارون عباسی صاحب سے میری ملاقات کو زیادہ عرصہ نہیں ہوا مگر مجھےلگتا ہے کہ ہم مدت سے ایک دوسرے کو جانتے ہیں،وجہ اس کی ہارون عباسی کابے پایاں اخلاص ہے،دوسرے یہ کہ ریڈیوپاکستان ہم دونوں کی مشترکہ محبت کا مرکز ہے کہ وہ ریڈیوکےریٹائرڈ ڈائرکٹر نیوز ہیں اورجہاں تک میراتعلق ہے تو کعبے سے ان بتوں کوبھی نسبت ہےدور کی-بہرحال آمدم برسرمطلب،گزشتہ ماہ ایک تقریب میں جب میری ہارون عباسی سے ملاقات ہوئی تو اُنہوں نےعباس احمد عباسی کی کتاب “دیارغیر میں اجنبی” پکڑاتے ہوئےاپنے مخصوص منکسرانہ دھیمے لہجےمیں مجھ سے کہاکہ اس کو پڑھ لیجئےمیرے چچا کی کتاب ہے جو میرے سسر محترم بھی تھے-میں یہ کتاب لےآیا اورجب گھر آکر کھولی اورشروع کی توبس پڑھتاہی چلا گیا، پھرمیری دلچسپی کایہ عالم ہواکہ ایک نشست میں ستر پچھترصفحےپڑھ گیا اور یوں ہی پوری کتاب پڑھ ڈالی، شاید اس کی وجہ یہ ہوکہ۱۹۹۱ میں جب میں خود بھی سرکاری وظیفےپربرسٹل یونیورسٹی سےماسٹرزکرنے انگلستان گیاتھا تو مجھےبھی کچھ اسی طرح کے حالات و واقعات کا سامنا کرنا پڑا تھابلکہ خانگی مشکلات بھی کم و بیش یکساں ہی لگیں،میرا توخیال ہے کہ یہاں کے ہر نو وارد کو انہیں مراحل سے گزرنا پڑتا ہے،تو چلئے پھرلوٹ پیچھے کی طرف اےگردش ایام تُو،

توقصہ کچھ یوں ہے کہ ۱۹۷۱ع میں عباس احمدعباسی کابی بی سی اُردو سروس میں تقرر ہو گیا اور وہ لندن پہنچ گئے، تقرر کیسے ہوا، وہاں کیسے پہنچے،کونسی مشکلات پیش آئیں،کن کٹھنائیوں سے پالا پڑااور پھر وطن واپسی کیوں اور کیسے ہوئی؟یہ کتاب ان ہی موضوعات کے گرد گھومتی ہے اورپھراسی دائرےمیں رہتے ہوئے ہمیں عباس احمد عباسی کی رودادحیات کی آگاہی بھی ہوتی ہے گویا یہ بنیادی طور پر اُن کی سوانحی یادداشتوں کامجموعہ ہےجس کافوری سبب بی بی سی سروس کی ملازمت کےلئےاُن کاسفرلندن اورپھر قیام لندن کے واقعات بنے،عباس احمد عباسی کےآباء و اجداد کا تعلق دہلی سے تھا یعنی یہ دلی کےروڑے تھے مگرانہوں نےرجب علی بیگ سرورکی دلی والےمیرامن کے بارے میں رائے کے بموجب اپنی کتاب میں محاوروں کے ہاتھ پاؤں بالکل نہیں توڑے ہیں بلکہ اُنہوں نے تو ایسی شُستہ،سادہ ،رواں اُردولکھی ہےکہ پڑھنےوالاعش عش کر اُٹھے اور داد دئے بغیر نہ رہ سکے،اس کتاب میں ابن انشاء،اشفاق احمد،اے حمید اور دلاور فگار جیسے عصر حاضر کے جید ادباءاور شعراء کی آراء شامل ہیں، سب عباسی صاحب کے ذاتی اورقریبی احباب بلکہ اُن کے روز کےملنےوالوں میں شامل تھے،جمیل الدین عالی تو دانت کاٹی روٹی تھے اورسب سے بڑی بات یہ کہ عباسی صاحب ان کی محفلوں کی جان اور احباب کی آنکھ کا تاراتھےکتاب میں لندن کےشب و روزکی انتہائی عمدہ اور دلچسپ کہانیاں بھی ہیں،زندگی کےاہم واقعات بھی اورسب سے بڑھ کریہ کہ ہمیں اُس دور کےبڑے ادیبوں اور شاعروں کے حالات و واقعات سےآگاہی ہوتی ہے،فیض احمد فیض،ابن انشاء،جمیل الدین عالی، دلاور فگار،اے حمید،اشفاق احمد، کون ہے جس کی چلتی پھرتی تصویریں اس کتاب میں نظر نہ آتی ہوں، پھر لندن اور انگلستان کے ادبی حلقوں اور بی بی سی کی ادبی محفلوں کی رودادیں،یہ صرف کتاب نہیں ہے،ادبی عجائب خانہ ہےجو نہ صرف معلومات سے دماغ کو روشن کرتا ہےبلکہ دل کو خوشگوار کیفیات سےبھی دوچار کرتا ہے،پڑھتےجائیے سر دُھنتے جائیے-

اب آئیےکتاب کی اہم خصوصیات کی جانب- میرے نزدیک اس کتاب کی سب سےبڑی خوبی اس کی ادبیت ہے کہ ہر صفحہ دلی کی زبان اورمحاورات کی بھرپور چاشنی کا حامل ہے-پھر یہاں بی بی سی اُردو سروس کی دلچسپ اندرونی کہانیاں اورمہمان ادیبوں اورشعرا کی آنکھوں دیکھی داستانیں بھی ملیں گی عباسی صاحب نے کتاب میں مغرب ومشرق کی تہذیبی کشمکش اورمغربی معاشرت کے مثبت اور منفی پہلوؤں کا انتہائی دیانتدارانہ تجزیہ کیا ہے جو ہمارے لئے چشم کشا ہے،عمدہ مواداور اعلئ طباعت کےساتھ ٹائیٹل پرصادقین جیسےلیجنڈ فنکار کی اس تحریرنے کتاب کو چار چاندلگادیے ہیں:عباس احمدصاحب کو جو اپنے گرائیں ہونے کے علاوہ ایک علمی وادبی خانوادےسےتعلق رکھتے ہیں اوراس کتاب کی جملہ غلطیوں کے ذمہ دار بھی ہیں”البتہ ٹائپ اغلاط کی بھرمار ذہن پر بوجھ بنتی ہےعباس احمد عباسی صاحب نےکتاب کے ذریعےاپنےخانوادے کےعلمی وادبی ورثے کو بخوبی آگے بڑھایا ہےاور اب یہ بوجھ برادرم ہارون عباسی کے کاندھوں پر آن پڑاہے:

سب پہ جس بار نے گرانی کی
اُس کو یہ ناتواں اُٹھا لایا