کہانی در کہانی

یہ تحریر 178 مرتبہ دیکھی گئی

سترھویں کہانی ::

مرحوم زندگی کی حراست میں مر گیا:

یادش بخیر، یہ انیس سو ستتر کے اوائل کا زمانہ ہوگا کہ قتیل شفائی سےمیرا بالمشافہ تعارف ہوا-اس کی سبیل یہ ہوئی کہ اُن دنوں میرامسلسل اورمتواترجمیل النبی کے مکتبۂ عالیہ میں آنا جانا لگا رہتا تھا کہ میری پہلی کتاب یہاں چھپ رہی تھی اورقتیل صاحب کاکوئی شعری مجموعہ بھی اُن دنوں یہاں زیر طبع تھا چنانچہ وہ بھی اکثر یہاں آیا کرتے تھے-مکتبۂ عالیہ ایبک روڈ پر قطب الدین ایبک کے مزار سےمتصل انارکلی میں تھا اور ان دنوں ادبی مرکز کی حیثیت رکھتا تھا کہ یہاں شہر کے بڑےشعراء اورادیبوں کی محفلیں جماکرتی تھیں-علاوہ ازیں کئی معروف ادیبوں اور شاعروں کی تصانیف یہاں زیر طبع تھیں مکتبۂ عالیہ کا یہ عروج کا زمانہ تھا جو دو دوست جمیل النبی اور الطاف حسین مل کربخوبی چلا رہے تھے- دونوں دانت کا ٹی روٹی تھے اورملتان روڈ کے ایک ہی محلےمیں دونوں نے گھر بھی ساتھ ساتھ بنوائے ہوئے تھے-جمیل النبی کا تعلق علمی خانوادہ سے تھا،اُن کے بڑے بھائی ڈاکٹراحمدنبی خان بین الاقوامی شہرت کے حامل ماہرین آثار قدیمہ میں شمار کئےجاتے ہیں-جمیل النبی خود صاحب ذوق اورعلم وفضل کے حامل شخص تھے-میں نے مکتبۂ عالیہ کواوج ثریا پردیکھاہے ،پھرجمیل النبی کی وفات کے بعد اس کا بکھرنا اُجڑنا کسی ادبی سانحہ سے کم نہیں بہرحال الللہ بس باقی ہوس—- یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہےکہ یہ مکتبہ مصنفین کو اُس دور کے حساب سے پورا معاوضہ دیا کرتا تھااورمجھ جیسے نو وارد کو بھی پہلی کتاب “اُردو میں قومی شاعری” کا معاوضہ پانچ سو روپیہ سکۂ رائج الوقت ادا کیا گیا تھا جو اُس دور میں ایک معقول رقم تھی یہاں ایک لطیفہ بھی ہوا کہ جب مجھےاپنی اس کتاب پر ۱۹۷۸ء کا داؤد ادبی انعام مبلغ دس ہزار روپیہ ملا تو میں نے جمیل صاحب سے کہا کہ رائلٹی کے آپ کےپانچ سو روپیہ میرے لئے دس ہزار کما لائے ہیں-
بات پھر وہیں سےشروع کرتے ہیں،قتیل شفائی کو شاعر رومان قرار دیا گیا ہےمیرا تو خیال یہ ہےکہ وہ سرتاپا رومانوی تھے اوراُنہوں نےاپنی زندگی رومانوی تجربوں ہی میں گزار دی -قتیل انتہائی پرکشش شخصیت کے مالک تھےجن کی باتوں سےسامعین مبہوت ہوجایا کرتے تھے گویا وہ کہے اورسنا کرے کوئی- قتیل شفائی ہری پور (ہزارہ )میں پیدا ہوئے-پیدائشی نام محمد اورنگ زیب تھا جب کہ قلمی نام قتیل شفائی اورتخلص قتیل شفائی اُنہوں نےاپنے استادحکیم محمد یحییٰ شِفا کانپوری کی نسبت سےاپنے نام کےساتھ لگایا ہوا تھا-وہ خود تو آپ بیتی نہ لکھ سکے، تاہم آڈیوریکارڈنگ کے ذریعے اُن کے دوست نعیم چشتی اور پھراُن کے بیرون ملک چلے جانے کے بعد “تخلیق” کے مدیر اظہر جاوید نے یہ مکمل کی جو بعد میں اُن کے بیٹے نویدقتیل نے “گھنگھرو ٹوٹ گئے” کےنام سےچھپوائی،جس نظم کےعنوان کے پر آپ بیتی کا نام رکھا گیا ہے اُس کاایک بند؀

مجھے آئی نہ جگ سے لاگ میں اتنے زور سے ناچی آج کہ گھنگرو ٹوٹ گئے
کچھ مجھ پہ نیا جوبن بھی تھا
کچھ پیار کا پاگل پن بھی تھا
کبھی پلک پلک مری تیر بنی
کبھی زلف مری زنجیر بنی
لیا دل ساجن کا جیت وہ چھیڑے پایلیا نے گئے
کہ گھنگرو ٹوٹ گئے- اس کتاب کا انتساب بھی منفرد ہے: زندگی کے نام جس سے کوئی شکوہ نہیں، جس پر کوئی پچھتاوا نہیں-

“ہریالی” سے لے کر “گھنگھرو”تک قتیل شفائی نے کم وبیش اٹھارہ شعری مجموعے اپنے پیچھے چھوڑےہیں جن میں ہر ایک اپنی جگہ پر یکتا ہےایک آخری بات یہ کہ قتیل شفائی کو ہمارے کچھ نقادفلمی شاعر قرار دے کر بزعم خویش اُن کا قد گھٹانے کی کوشش کرتے ہیں- میرے خیال میں فلمی شاعرہونا کسی شاعر کےرتبےکو ہرگز کم نہیں کرتا-جوش ملیح آبادی، راجا مہدی علی خاں ، جاں نثار اختر اورشکیل بدایونی کی مثالیں ہمارےسامنے ہیں-قتیل شفائی یقینی طور پر دور حاضر کے اہم شاعر ہیں جو کبھی تاریخ کےدھندلکوں میں گم نہیں ہو پائیں گے-آخر میں قتیل شفائی کی ایک یادگار غزل؀ آخر وہ میرے قد کی بھی حد سے گزر گیا
کل شام میں تواپنے ہی سائے سے ڈر گیا
مٹھی میں بندکیا ہوا بچوں کےکھیل میں
جگنو کے ساتھ اس کا اجالا بھی مر گیا
کچھ ہی برس کے بعدتواس سے ملا تھا میں
دیکھا جو میرا عکس تو آئینہ ڈر گیا
ایسا نہیں کہ غم نے بڑھا لی ہو اپنی عمر
موسم خوشی کا وقت سے پہلے گزر گیا
لکھنا مرے مزار کے کتبے پہ یہ حروف
“مرحوم زندگی کی حراست میں مر گیا” ——————————————