کہانی در کہانی

یہ تحریر 351 مرتبہ دیکھی گئی

-نویں کہانی:

ہر سُکھ کےسُکھ: سائیں اوراماں کی کہانی::

آج کی کہانی کا آغاز بھگت کبیرداس کےاس دوہےسے کرتے ہیں——

دُکھ میں سمرن سب کریں سُکھ میں کرے نہ کوئے

جو سُکھ میں سمرن کرےتودکھ کاہے کو ہوئے

بھگت کبیر داس نہ صرف اپنے دور کےمعروف جوگیوں میں شمارہوتے ہیں بلکہ اعلیٰ پایہ کے شاعر بھی ہیں اور دوہہ اُن کا خاص میدان ہے-اس دوہےکامفہوم یہ ہےکہ دکھ کے وقت توسب رب کو یاد کرتے ہیں اورسکھ میں سب ہی بھول جاتے ہیں، قابل ستائش ہیں وہ لوگ جو نہ صرف سکھ اور دکھ دونوں میں رب کو یاد رکھتے ہیں بلکہ مخلوق خداکوسُکھ کی چھتر چھایا میں پناہ دینے کےلئے بھی ہمہ وقت منصوبے بناتےرہتے ہیں،میرا اشارہ “ادارۂ ہر سُکھ” کی جانب ہے جو پاکستان کے سابق چیف جسٹس محترم جواد خواجہ اور اُن کی بیگم صاحبہ کے ذہن رسا کی تخلیق ہے-ہم آپ کواسی ادارے کی کہانی سناتے ہیں-جج صاحب جو ہرسُکھ میں“سائیں”کے لقب سے پکارےجاتے ہیں اوراُن کی انتہائی متحرک بیگم صاحبہ جو یہاں“اماں”کہلاتی ہیں، دو بے چین روحیں ہیں جوہمہ وقت کچھ نہ کرنےکی لگن میں مگن رہتی ہیں،اپنےلئےنہیں دوسرں کےلئے اور یہ دوسرے لوگ بھی وہ راندۂ درگاہ طبقہ ہے جسے ہمارا معاشرہ کب کا بھلا چکا ہے حالانکہ قرآن حکیم میں واضح حکم ہے:

“اصل نیکی تواس شخص کی ہےجو الللہ پراورقیامت کے دن پر اور فرشتوں پراور (آسمانی)کتابوں پراور پیغمبروں پرایمان لائےاورمال سے محبت کےباوجوداسےقرابت داروں یتیموں، محتاجوں، مسافروں، سوال کرنے والوں،اورغلاموں کی آزادی پر خرچ کرے” (سورۂ بقرہ)-

ادھر ہم ہیں کہ کوئی حال مست، کوئی مال مست-بات کو پھر وہیں سے شروع کرتے ہیں- ہوا یہ کہ سائیں نے بیدیاں روڈ پر ٹھیٹھر نامی گاؤں میں اپنے فارم میں نیا مکان بنایا، مکان بھی بہت خاص انداز کا یعنی قدیم دور کی حویلیوں کی طرز کا کہ جس میں ایتھنز کی یونانی اکیڈمی کی جھلک بھی نظر آتی ہے، یہاں پر اُنہوں“ہرسکھ-ادارۂ علم وفن” قائم کیاجس کی خوشبوحویلی کی فضا میں رچ بس گئی اورجو آج بھی مشام جاں کو معطر کرتی رہتی ہے،کہانی آگے چلتی ہےسائیں اوراماں اب ہرسکھ میں تعلیم و تعلم کاسلسلہ بھی شروع کرتے ہیں اور ابتدائی طور پر گھریلو کارندوں کے بچوں کے لئے سکول قائم کرتے ہیں بلکہ خود اپنے گھرکے بچوں کوبھی شہرکےمعروف بڑےسکولوں سے یہاں لے آتے ہیں جو سکول میں اپنی تعلیم کا آغاز کرتے ہیں،شروع میں صرف ایک ٹیچر شانو آپاہوتی ہیں جوآج بھی کسی نہ کسی طرح ادارےسےمنسلک ہیں آہستہ آہستہ یہ پودا تناور درخت کی صورت اختیار کر گیا ہے،چند سال قبل پرائمری کی سطح سے اب یہ باقاعدہ ہائیرسیکنڈری سکول بن چکا ہےاوراس کا الحاق ملک کےموقر امتحانی بورڈ آغا خان بورڈسےہو چکا ہےہرسُکھ سکول میں طالب علم کو مرکزی حیثیت اورمقام حاصل ہے اورسکول کی تمام ترسرگرمیاں بس طالب علم ہی کے گرد گھومتی ہیں اُسے “سوال”کرنے اوراساتذہ سے تسلی بخش جواب حاصل کرنے کی مکمل آزادی حاصل ہے،یہاں کے اساتذہ کو یہ باور کرایا جاتاہےکہ اُن کی بنیادی ذمہ داری طالب علم کے ذہن میں پیدا ہونے والےسوال کا اس انداز میں جواب دیا جائے کہ اُس کے ذہن میں کوئی اُلجھن باقی نہ رہے،ہر سُکھ صرف ایک سکول ہی نہیں یہ ایک مکمل ادارہ ہےجسے بجا طور پر “سنٹر آف ایکسیلینس” قرار دیا جاسکتاہےاس مرکز فضیلت میں تعلیم و تدریس کے ساتھ ساتھ ادب،ثقافت،موسیقی،کلاسیکی رقص یوگا،تھیئٹرسب کچھ ایک چھت تلے موجود ہےبلکہ علوم وفنون کی کونسی شاخ ہے جس کےمظاہر یہاں نہ ہوں،چنانچہ اب ہرسُکھ ایک ایسے ادارے کا روپ دھار چکاہے کہ جہاں قرب و جوار کےدیہات اور دور و نزدیک کی آبادیوں سےتشنگان علم اپنی علمی پیاس بجھانےکےلئے خراماں خراماں چلے آتے ہیں اور دوسری جانب قابل اور اپنے اپنے میدان میں ماہر اساتذہ ان کو بسر و چشم خوش آمدید کہنے کے لئے ہمہ وقت تیاررہتے ہیں تاکہ ان بچوں کی تعلیم وتربیت کے فرائض بہ طریق احسن انجام دئے جاسکیں، ہرسُکھ میں وقتا” فوقتا”قومی وبین الاقوامی شہرت کےاساتذہ،دانشوروں، ماہر دست کاروں اور فنکاروں کامیلہ سالگا رہتا ہےیہاں میں سیدعلی کاظم صاحب کا ذکر کروں گاجوکافی عرصےسےاس اس ادارےسے منسلک ہیں اورتن من دھن سے ہرسُکھ کی ترقی کےلئے کوشاں رہتے ہیں،وہ بچوں سے پیار کرتے ہیں اورسکول میں” دادا”کے نام سے جانے جاتے ہیں،وہ بڑی توجہ اورمحنت سےبچوں کو پڑھاتے ہیں-کیا خوب آدمی ہیں، ایک مرتبہ بچوں کو ایک کتاب کی کاپیاں دینی تھیں،کاپیاں کرانے کے لئے فوٹو کاپی کی دوکان پرگئےتو بجلی غائب تھی،بجلی کےانتظار میں وہیں بیٹھے رہےاورکام مکمل کروا کر ہی ہرسکھ واپس آئے ،پھر طلبہ میں کتاب کی کاپیاں تقسیم کرکے سُکھ کا سانس لیاشاہ صاحب خود ہی نہیں اُن کا خاندان بھی ہرسُکھ کےلئے خدمات میں پیش پیش رہتا ہےعلی نور اُن کےصاحبزادےجو ملک کے نامور فنکاراور گلوکار ہیں یہاں کےبچوں کوموسیقی کی تعلیم دیتے ہیں، ہر سکھ کا میوزک سٹوڈیوعلی نورکی کاوشوں کا مرہون منت ہے اور یہ کہنا ہر گز غلط نہ ہوگا کہ بچوں میں فنون لطیفہ اورموسیقی کی محبت و تشویق پیدا کرنےمیں علی نور بھی ہمیشہ اماں کے ہم قدم رہے ہیں-
سائیں اوراماں نےتو اپنا سب کچھ ہر سُکھ کے لئے وقف کیا ہوا ہے-دونوں یہاں کی ایک ایک چیز پر نظر رکھتے ہیں،معمولی سے معمولی مسئلے پر اساتذہ اور طلبا و طالبات سے بحث و تمحیص کرتے ہیں اورہرسکھ کی بہتری کے لئے ہر وقت کوشاں رہتے ہیں،سائیں ہرسُکھ میں موجود ہر فرد کواسماعیل میرٹھی کی پن چکی کی طرح ایک لمحہ ضائع کئے بغیر، تواتر کے ساتھ کام میں جُتےرہتے دیکھنا چاہتے ہیں بلکہ خود کوبھی ہمہ وقت یہاں کے کاموں میں مکمل طور پر مصروف رکھتےہیں؀

نہر پر چل رہی ہے پن چکی
دھن کی پوری ہےکام کی پکی

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰