کہانی در کہانی

یہ تحریر 232 مرتبہ دیکھی گئی

ساتویں کہانی :

کشفی ملتانی کا مظفر گڑھ:

کشفی کوکوئی پوچھنے آئے تو دوستو کہنا کہ چند شعر سنا کر چلے گئے۱۹۷۱کےستمبر کی چوبیس تاریخ، مظفر گڑھ کالج کی پہلی یاد-شریف النفس پرنسپل نصیر احمدانصاری کے دفتر میں بیٹھا اپنی پہلی سرکاری نوکری کےکاغذات مکمل کر رہا ہوں-پرنسپل آفس میں الللہ بخش ہیڈ کلرک کے علاوہ پروفیسر املاک احمد نیازی صدرشعبۂ اُردو، پروفیسر زین الدین حسین ، پروفیسر خان محمد دستی پروفیسر خواجہ رئیس احمر اور پروفیسر عابد عمیق بھی موجود ہیں- ہیڈ کلرک کی بتائی ہوئی جگہوں پر چارج رپورٹ پر دستخطوں سے فارغ ہوتا ہوں تو نصیر انصاری اپنی کرسی سے کھڑے ہوکر ہاتھ ملا کر مبارکباد دیتے ہیں اور کہتے ہیں- لوبھائی جان اب آپ سترہ گریڈ کے گزیٹڈ افسرہوگئے(بھائی جان گا طرزتخاطب اُن کا تکیۂ کلام تھا)- جب تک کوئی انتظام نہیں ہوجاتا آپ ہوسٹل ہی میں رہیں گے،میں نےہوسٹل سپرنٹنڈنٹ کو بتادیا ہے پھر چائے کادور چلتا ہے،کیا زمانے تھے، کیا عمدہ لوگ تھے: ڈھونڈاب ان کوچراغ رُخ زیبالے کر-مظفر گڑھ میں میراقیام کم وبیش چارسال تک رہا، بیچ میں کچھ دیر کے لئے لیہ کالج کابھی چکر لگا آیاتھا کسی سیاسی ستم ظریف کی نوازش سےمگر مظفر گڑھ کی کشش پھرواپس لےآئی میرا دل بھی یہیں لگتا تھاجس کی بنیادی وجہ الللہ بخش کشفی ملتانی اورشہر کا ادبی مرکز بشارت کا دفتر تھا-یہ مین چوک پرمسلم کمرشل بنک کے عین متصل تھا، کشفی صاحب کی رہائش بھی اسی عمارت میں تھی اور میں قنوان ہوٹل میں رہتاتھاجو مین روڈ پربشارت کے دفتر کےبالکل سامنے تھا-اس ہوٹل کی بڑی اہمیت تھی کہ قرب وجوارکی اکثراہم شخصیات یہاں قیام کرتی تھیں، پھرشہر کے دانشور یہاں شام کی محفلیں سجایا کرتے تھےمجھےخوب یاد ہے کہ رفیق خاور جسکانی ،محسن نقوی اور پٹھانا خان سےمیری پہلی ملاقات یہیں ہوئی تھی-جب کبھی یہ لوگ آتے تورات کوخاورجسکانی کےکمرےمیں پٹھاناخان کی محفل ضرورسجتی تھی-ہفت روزہ بشارت کے دفتر کاپھیرا میرا روزانہ کا معمول تھا کہ جس دن کشفی صاحب سے ملاقات نہ ہوتی تو لگتا کہ آج کچھ کمی رہ گئی ہے-ُجوں ہی دفترمیں داخل ہوتا کشفی صاحب اپنے کارکن کومخصوص آوازمیں یوں پکارتے “او نقیبابھین ڈےچ۰۰۰۰۰ چھیتی ونج ڈُوھ کپ چاہ دےگھن آ کشفی صاحب کایہ ملازم نما کارکن نقیب جعفری بھی ایک عجوبہ تھا- کشفی صاحب کی صحبت میں رہ رہ کر کرشاعری کا ہنر بھی خوب جان گیا تھا،مشاعروں میں کشفی صاحب سے پہلےکبھی کبھاراسے پڑھنےکا بھی موقع مل جایا کرتاتھاایک مشاعرے میں نقیب نےکشفی صاحب کی وہ نئی غزل اپنے نام سے پڑھ دی جوکشفی صاحب کو آخرمیں پڑھناتھی کشفی صاحب اب بھلا کیا کر سکتے تھے سوائے نقیب کو برا بھلا کہنے کے-اسی طرح کے مزےمزے کےقصے کشفی صاحب اس انداز میں سنایا کرتے تھے کہ محفل پرسحر طاری ہو جایا کرتا اور دل چاہتا تھا کہ وہ کہیں اور سنا کرے کوئی- کشفی صاحب خود تو بلند پایہ شاعر تھے ہی مگر جس طرح اُنہوں نے مظفر گڑھ جیسے دوردراز علاقےمیں شاعری اورادب کی آبیاری کی اس کی مثال ملنا مشکل ہے-خودسناتے تھےکہ ابتداءمیں ملتان ادبی مرکز ہوا کرتا تھااورمشاعرےبھی ملتان میں ہوتےتھے،کوششس کر کےاُنہوں نےمظفر گڑھ میں مشاعرے کاڈول ڈالااورہندوستان سے بڑے بڑے شعراء کو بلوایا- شاید جگر مراد آبادی بھی اُن میں شامل تھے،یہ مشاعرہ بہت کامیاب رہا لیکن لطیفہ یہ ہوا کہ اگلے ہی روز جب کشفی صاحب بازار سے گزر رہےتھے تو پیچھے سے کسی منچلےنے آواز لگائی“سائیں اوہ مشاعرہ ویندا پیا اے”۔

کشفی صاحب انتہائی ہمدرد،نفیس ، خاکسار اور بذلہ سنج شخص تھے-وہ وسیع المطالعہ تھے-سید عابد علی عابد کے بعد مجھےبہت کم لوگ ایسےملے ہیں جن کوشعر کی فنی باریکیوں پر اتناعبورہو-کشفی صاحب اپنے رنگ کے منفرد شاعرتھے،اُن کی یہ غزل کلاسیک کی حیثیت رکھتی ہے
شور ہے ہر طرف سحاب سحاب/
ساقیا ساقیا! شراب شراب
آب حیواں کو مے سے کیا نسبت/
پانی پانی ہے اور شراب شراب
رند بخشے گئے قیامت میں/
شیخ کہتا رہا حساب حساب
اک وہی مست با خبر نکلا/
جس کوکہتے تھےسب خراب خراب
مجھ سے وجۂ گناہ جب پوچھی/
سر جھکا کے کہا شباب شباب
جام گرنے لگا تو بہکا شیخ/
تھامنا تھامنا کتاب کتاب
کب وہ آتاہےسامنے کشفیؔ/
جس کی ہر اک ادا حجاب حجاب
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰