کہانی در کہانی

یہ تحریر 216 مرتبہ دیکھی گئی

سولہویں کہانی:

ہرسُکھ اوراخوت ہم قدم:

ایک دن میں ہر سکھ گیا توسائیں ( جسٹس ریٹائرڈ جواد خواجہ)نے بتایا کہ ڈاکٹرامجدثاقب کی دعوت پراخوت کالج جا رہےہیں تاکہ دونوں اداروں کےاشتراک کےامکانات تلاش کر سکیں،میں نے دل میں کہا نیکی اور پوچھ پوچھ کہ میرا ڈاکٹرامجدصاحب سے بڑا قریبی اورقدیمی تعلق اور باہمی محبت کا رشتہ قائم ہے اور ہے اور اسی لئےاخوت ہمیشہ ہی میرےدل کے بہت قریب رہا ہے اخوت اورہر سُکھ کی کہانی یوں ملتی جلتی ہے کہ دونوں کے مقاصد اور نصب العین ایک ہی جیسےہیں،چلئے پہلے اخوت کی بات ہو جائے-

ڈاکٹر امجدثاقب بنیادی طور پر درد رکھنے والےغریب پرورانسان ہیں جنہوں نے بطور بیوروکریٹ پنجاب رورل سپورٹ پروگرام کوانتہائی کامیابی سےچلایا تھااوراسی دوران میں اُن کوغریب ومفلوک الحال لوگوں کی زبوں حالی کوبہت قریب سے دیکھنے کاموقع ملااوربالآخر۲۰۲۲ میں ڈاکٹر صاحب نےاپنے”اخوت”کے اُس منصوبے کا آغاز کیاجس کے تحت قائم کردہ متعدد ادارے آج پسماندہ و درماندہ طبقات کی تعلیم وترقی میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں ڈاکٹر امجد ثاقب کےاس منفردوموثر منصوبے کی گونج ہارورڈ یونیورسٹی جیسی دنیاکی معروف یونیورسٹی میں بھی سنائی دی تھی،”اخوت”بنیادی طور پرایک مائیکرو فنانس ادارہ ہے جوسود سے اجتناب کی بنیاد پر کام کرتا ہے اور جو دفتری بکھیڑوں کی بجائےمسجد کو دفتر بناتا ہےاورسب سےاہم بات یہ کہ اخوت پسماندہ طبقےکوبھکاری نہیں بناتابلکہ اپنے پیروں پراس انداز سے کھڑا کرتاہے کہ آج کےقرض لینےوالے کل کے دینے والے ہوں،

اخوت اب تک لاکھوں ضرورت مندوں کوبلا تفریق مذہب ونسل اربوں روپوں کے بلا سود قرضے جاری کر چکا ہے،حیرت انگیز بات یہ ہےکہ اخوت کی قرض واپسی کی شرح ننانوےاعشاریہ پچاسی فیصد تک ہے جو ایک ورلڈ ریکارڈ بن چکی ہے- ڈاکٹر امجد ثاقب صاحب کا نظریہ ہے کہ آپ لوگوں پر اعتماد کریں تو وہ آپ کے اعتماد کو کبھی بھی ٹھیس نہیں پہنچائیں گے،قرض حسنہ لینے والوں میں سے بیشتربعد میں ڈونرز بھی بن جاتے ہیں اور اخوت کے معاملات چلانے میں ہاتھ بٹاتے ہیں-

میرا ذاتی خیال ہے کہ اس میں ڈاکٹر صاحب کی نیک نیتی،دیانتداری اخلاص اور تائیدالہئ کو دخل ہے- الللہ تعالئ ان کےجذبۂ صادق کو ہمیشہ قائم و دائم رکھےانسدادغربت کےلئے اُن خدمات کےاعتراف میں ۲۰۲۲ ع میں ڈاکٹر صاحب کو “ نوبل پرائز” کےلئے نامزدکیا گیا تھا مگر اُن کا کہنا تھاکہ یہ سب کچھ وہ فی سبیل الللہ کر ہے ہیں لہذا اُن کو بقول غالب نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پروا،ایسے ہوتے ہیں حقیقی قومی ہیرو-

اب ہم دوسرےہیروکی طرف آتے ہیں، یہ دوسری کہانی سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس جواد خواجہ کے گرد گھومتی ہےجو ہر سُکھ میں سائیں کہلاتے ہیں بلکہ اب تو وہ “جگ سائیں” بن گئے ہیں،اس نیک کام میں ہر لمحہ اُن کی متحرک شریک حیات اُن کے ہم قدم ہوتی ہیں جنہیں ہرسُکھ میں ہر کوئی اماں کہتا ہےکہ وہ سچ مچ ماؤں کی طرح ہرسُکھ کی ہر طرح سے دیکھ بحال کرتی ہیں اور سائیں کے ساتھ ساتھ نظر آتی ہیں- قرآن حکیم میں الللہ تعالئ نے فرمایا ہے: اِنَّ الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَيَجْعَلُ لَـهُـمُ الرَّحْـمٰنُ وُدًّا (سورۂ مریم)
بےشک جوایمان لائےاورنیک کام کئےعنقریب رحمان ان کےلیے (لوگوں کے دلوں میں محبت پیدا کرے گا)میراخیال ہےکہ یہ جولوگ اس صوفی انسان سائیں کی طرف کھنچےچلےآتے ہیں تو یہ الللہ کے اس وعدے کے عین مطابق ہے کہ وہ نیک انسانوں کےلئےلوگوں کےدل میں محبت پیداکر دیتاہے،سائیں خود کہا کرتےہیں کہ “ رب آپ توہن توں پھڑ کےلے آؤندا اے” قصہ مختصر ہم نے پورا دن اخوت میں گزارا اور ہر زبان اس ادارے کےانتظام و انصرام اور کارکردگی پر رطب اللساں تھی،ہرسُکھ و اخوت پہلے بھی ایک ہی سمت میں گامزن ہیں، اب آئندہ یہ اور پُرجوش انداز میں قدم سے قدم ملاکر چلنے پر آمادہ ہوئے ہیں؀ میرا تو جو بھی قدم ہے وہ تیری راہ میں ہے
کہ تُو کہیں بھی رہے تُو میری نگاہ میں ہے ————————————