کہانی در کہانی

یہ تحریر 210 مرتبہ دیکھی گئی

پندرھویں کہانی:

کتابوں کی دنیا یعنی ٹیکسٹ بک بورڈ کی داستان:: یادش بخیر ۱۹۸۷ع کے اواخر کا ذکر ہے، میں کامرس کالج فیصل آباد کا پرنسپل تھا’ابھی ٹی آئی کالج ربوہ سے ٹرانسفر ہوکر یہاں آئے ہوئے چندماہ ہی ہوئےتھے کہ ایک دن میرے ایک بہت پرانےاور مخلص دوست انوار الحق کا فون آیا کہ تم فورا” لاہور پہنچو اور مجھےسیکریٹریٹ آکر ملو-پروفیسر انوار مرحوم میرے باغبان پورہ کے ساتھی تھےاور اُن دنوں محکمۂ تعلیم میں ڈپٹی سیکریٹری تھےاگلے دن میں لاہور پہنچا اور اُن سے ملا توبولےکہ پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ میں ایک ڈائرکٹر کی جگہ خالی ہو گئی ہے( ان دنوں یہ کریکلم اینڈ ٹیکسٹ بک بورڈ نہیں بنا تھا اوراس کایہی نام تھا)موجودہسیکرٹری تعلیم تمہارے دوست ہیں،اُن سےمل کر کوشش کر لو- اُن دنوں ظہورالحق شیخ محکمۂ تعلیم کے سپیشل سیکرٹری تھےاور پنجاب کے تمام بورڈز کے معاملات دیکھتے تھے، ظہور شیخ کا میرا بڑا پرانا تعلق بلکہ یارانہ تھا،وہ اس طرح کہ ہم دونوں اپنےاپنے کالجوں کےمقرر تھےاورانٹرکالجئیٹ مباحثوں میں شرکت کے لئے ملک کےمختلف شہروں میں اکٹھے جایا کر تےتھے،ظہور شیخ گورنمنٹ کالج کی طرف سے اورمیں دیال سنگھ کا لج سے،پھر ہم دونوں شاہ حسین کالج میں لیکچرر رہے تھےاور ہمارا بہت اچھاوقت گزرا تھابلکہ اکثر ہماری شامیں اکٹھی گزرتی تھیں، ٹی ہاؤس میں روزانہ کا آنا جاناتھا،ظہورانتہائی پڑھاکویعنی کتابی کیڑا تھااوراُس کی شخصیت میں انکسار کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا،کبھی کبھی ہم کالج سے واپسی پرریگل کےچکڑچھولے زمیں پر بچھی چوکیوں پر بیٹھ کرکھایا کرتے تھےاُن دنوں شیخ سی ایس ایس کی تیاری کر رہا تھا، میں کہاکرتا تھاکہ مستقبل کا ڈپٹی کمشنر زمین پر بیٹھا چنے کھا رہا ہے تووہ بہت ہنستا تھا، کیساعمدہ انسان بہت جلدی چلا گیا مرزا غالب کے الفاظ میں -حق مغفرت کرےعجب آزاد مرد تھا،خیر بات کو پھروہیں سےشروع کرتے ہیں،میں سیکریٹریٹ میں تو تھا ہی سیدھاشیخ صاحب کے دفتر چلاگیا خوبئ قسمت فارغ تھے اورریٹائرنگ روم میں چائے پی رہے تھے، وہیں بلالیا، علیک سلیک کے بعد میں نے مدعا بیان کیاتو اُسی وقت اپنےڈپٹی سیکرٹری کو بلایااور پوچھا کہ پوسٹ خالی ہے؟اُن صاحب نے خالص کلرکوں کےروایتی انداز میں لندھور بن سعدان جیسی داستان بیان کرنا شروع کی تو روک دیا اور پنجابی میں کہا،یار اے دس پوسٹ خالی اے کہ نئیں،اُس نےہاں کہا تو بولے،جا تےڈاکٹردے آرڈر ٹائپ کرکےلے آ،اج ئی ایشُو کرنےنیں،چنانچہ جب میں لاہور آیا تو پرنسپل کامرس کالج فیصل آباد تھااوراب جب واپس جا رہا تھا تو ڈائرکٹر ٹیکسٹ بُک بورڈ بن چکاتھا کہ نوٹیفیکیشن میرے ہاتھ میں تھاخیر یہ تو جملۂ معترضہ بیچ میں آگیا،اب اصل کہانی شروع کرتے ہیں-

فیصل آباد سےفارغ ہوکر جب پہلے دن بورڈ میں جوائن کرنے کے لئےنکلا توعجیب بات یہ ہوئی کہ بورڈ کی تلاش میں مجھے دوگھنٹے لگے، مجھے یہ تومعلوم تھا کہ دفترگلبرگ میں ہےمگر یہ نہیں کہ گلبرگ میں کس جگہ ہے-بہرحال جیسے تیسے پہنچااور پھر اگلے چارسال تک میں تھااورٹیکسٹ بُک بورڈ-ایک سادہ اورشریف النفس انسان چودھری عبدالوحید اُن دنوں بورڈ گے چئیرمین تھے اور ایسے ہی سادہ اور مرنجاں مرنج انسان ڈاکٹر عزیز الللہ ڈائرکٹر سائنس تھے-بہت اچھاماحول تھاخیراگلےدن جب میں جوائن کرنے گیا تو چیئرمین کے دفتر میں میری ملاقات کُھلےڈُلے،بھاری بھرکم ڈیل ڈول والے،پکے لاہوری اقبال بٹ سےہوئی جواُن دنوں بورڈ کے سیکرٹری تھے، ان سب لوگوں کےساتھ میرا بہت اچھاوقت گزرا اوران سب نےمیرابہت ساتھ دیا رسمی ملاقاتوں اورکاغذات کی تکمیل کےبعداپنےدفتر پہنچا توچاروں طرف فائلوں کےڈھیر پڑےپائے،دیکھ کر پریشانی ہوئی کہ کیسےنبٹاؤں گا یہ کام، میرا تجربہ ہے کہ ان عہدوں پر اگر آپ کو مخلص اورقابل معاون(پی اے) مل جائےتوزندگی آسان ہو جاتی ہےمیں ہمیشہ خوش قسمت رہا ہوں کہ مجھےاچھے ساتھی ملتےرہے ہیں چنانچہ یہاں بھی میرانوجوان پی-اے بہت قابل اورمخلص تھا وہ بھانپ گیاکہ میں فائلوں سے گھبرا گیاہوں،بولا یہ آدھے گھنٹے کا کام ہے سر،آدھی فائلوں پر گھگی مار کر اوپر بھیجنی ہیں ،آدھی نیچے( گھگی دفتری زبان میں انیشیل کو کہتے ہیں)یعنی کچھ فائلیں چئیرمین کوجانا تھیں اور کچھ کی خودمنظوری دے کر برانچوں کو لوٹاناتھی،مجھ سے پہلے یہاں ڈاکٹر معروف ڈائرکٹر تھےجو پندرہ دن پہلے فائلوں کا یہ انبارچھوڑ کر پرنسپل اسلامیہ کالج سول لائینز بن کرٹرانسفر ہوچکے تھے-مرتا کیا نہ کرتا، یہ سب رکے ہوئے کام نبٹاکرایک ڈیڑھ ماہ میں معمولات کا آغاز کیاتو پتہ چلا کہ یہ بورڈ توکتابوں کی دنیا ہےجہاں کا کام بڑا دلچسپ ہےاُن دنوں بورڈ میں ڈائرکٹر کی دواسامیاں تھیں ایک سائنس کی کتب کی نگرانی کے لیے ڈائرکٹر ٹیکنیکل اور دوسری آرٹس کی کتب کےلئے ڈائرکٹر ہیومینیٹیز جس پر میرا تقرر ہواتھا،جس کسی ڈائرکٹر کابورڈمیں پہلے تقررہوتاوہ سینئر ڈائرکٹر کہلاتا اورکتب کی سالانہ ایلوکیشن کا ذمہ دارہوتا،ڈاکٹر عزیز عزیزالللہ پہلے سےموجودتھےاور یہ کٹھن ذمہ داری نبھا رہے تھی مگر چند ماہ بعد ہی اُن کی معیاد ڈیپوٹیشن ختم ہوگئی اور وہ محکمہ میں واپس چلے گئے،چنانچہ پھر سب پہ جس بار نے گرانی کی اُس کو یہ ناتواں اُٹھا لایا کہ رجسٹرڈ پبلشرز کو کتب کی سالانہ تفویض بورڈ کے امور کا سب سے مشکل مرحلہ تھا- مگر بھلا ہو اُس دور کے چندمعروف پبلشرز کا جو میرے لئے خدائی مددگار ثابت ہوئےکتابستان کےحمید خان فرنٹئیر پبلشرزکےحاجی صاحب (ان کی شکل اچھی طرح یاد ہے مگر نام ذہن سے نکل گیا، بہت دھیمے مزاج کے بھلے مانس انسان ) اور سب سے بڑھ کر کوہ نور پرنٹرز کےشیخ صفدر علی صاحب کہ یہ لوگ اُن دنوں اُردو بازارکےکرتادھرتاتھے اور پبلشرز کی انجمنوں کےایسے عہدیدار کہ جن کی آواز پرسب آمناو صدقنا کہا کرتےتھے،سالانہ تفویض بورڈ کا مرحلہ بھی ان مہربان لوگوں کی ذاتی مشاورت سے مکمل ہوا اورمیرے بورڈکےقیام کےپورےدورمیں ہمیشہ انتہائی خوش اسلوبی سےطےہوتا رہا یہاں میں دوایسےلوگوں کا ذکر کروں گا جواپنےاپنےمیدان میں بےمثال تھے،راجا رشید محمودمعروف نعت گوتھے اور ماہنامہ“نعت نکالتے تھے تھےدوسرےسیدسجاد رضوی جوعالم بے مثل و خطیب بے مثال تھے، سیدصاحب ایڈیٹر ان چیف اور راجا رشید ماہر مضمون تھے، دونوں میرے لئے نعمت غیرمترقبہ تھےاور فرائض منصبی نبھانے میں میرے ممد و معاون،دونوں ہی اب الللہ کو پیارے ہوچکےہیں،باری تعالئ ان کواعلئ علیین میں مقام عطافرمائے- سجاد رضوی صاحب کے دفتر میں ہر وقت رونق لگی رہتی تھی،ہمہ وقت علما،فضلا،ادبااورشعرا کا آناجاناتھا ، علامہ طالب جوہری، شہرت بخاری تواتر سےآیا کرتے تھے،علامہ طالب جوہری سےمیرا تعارف سجاد رضوی ہی نے کروایا تھاجو بعد میں میرے اُن سے تعلق کا سبب بنا-یہاں پر مجھےشیخ صفدرعلی صاحب کاخصوصی ذکر کرنا ہے کہ اُن کی شخصیت سے میں بہت متاثر ہوا تھا-نورانی چہرہ دھیما مزاج،اورصلح کُن شخصیت، نرم دم گفتگو گرم دم جستجو-مرحوم کی کیاکیا خوبیاں گنواؤں بس سمجھ لیجئے فرشتہ صفت انسان تھے-مخیر ایسے کہ دائیں ہاتھ سے دیں تو بائیں کو خبر نہ ہو،گنپت روڈ کی عالی شان مسجداُن کےباقیات الصالحات میں شامل کی جا سکتی ہے،کوہ نور ڈائری اورمجلہ خیر العمل،یقینا”شیخ صاحب کاایساورثہ ہےجوماضی کےدھندلکوں میں فروزاں ہےلیکن عمل صالح کا ورثہ آج اُن کے ہونہار فرزند شیخ رضا بخوبی سنبھالے ہوئے ہیں-بورڈ کی ملازمت میرے لئے بہت مفید ثابت ہوئی کہ اس نے میرے لئے پہلی مرتبہ غیر ملکی سفر کا در وا کیااور پھر در کھلتے ہی چلے گئےاس کا قصہ یوں ہوا کہ ٹیکسٹ بک بورڈ کو برٹش کونسل سےایک سال کاوظیفہ ملاجس پر بورڈ کےڈائرکٹر کوبرسٹل یونیورسٹی سےنصاب سازی کے مضمون میں ماسٹرزکرنا تھا،میں سینئر ڈائرکٹر تھاسو قرعۂ فال میرے نام نکلااورسارے ضروری مراحل مکمل کرکے میں نے خراماں خراماں برسٹل کی راہ لی اور یہیں سےمیرا کتابوں کی دنیا کا ساتھ ختم ہوااور یوں یہ کہانی بھی اپنےانجام کو پہنچی،یہاں ایک لطیفہ یاد آگیا-بورڈ میں میرا آخری دن تھا اور میں تمام عملےسے فردا”فردا”ملنے کےُلئے دفتر کا چکرلگارہاتھاراجا رشید اُنہی دنوں عمرہ کے لئے عازم سفر تھے اور کاغذات مکمل کر رہے تھے میں جب اُن کے کمرے میں گیا تو وہ اسی سلسلے میں دفتر سے باہر گئے ہوئے تھے،میں نےوہیں سے ایک چٹ نکالی اوراس پر اکبر الہ آبادی کا یہ شعر لکھ کر اُن کی میز پر رکھ کر آگیا بعد میں پتہ چلا کہ راجا صاحب اور دیگراحباب نےاس کابڑالطف لیا:

سدھاریں شیخ کعبہ کوہم انگلستان دیکھیں گے۔ وہ دیکھیں گھرخدا کا ہم خدا کی شان دیکھیں گے۔ ————————————