کہانی در کہانی

یہ تحریر 197 مرتبہ دیکھی گئی

: چودھویں کہانی:

تین دوست تین کہانیاں:

کوئی تصویر گاتی رہی رات بھر:: فیض کا شعر ہے؀۔ کوئی خوشبو بدلتی رہی پیرہن
کوئی تصویر گاتی رہی رات بھر خوشبو کاپیرہن بدلنا کیا ہوتاہے، یہ بات آج تک میری سمجھ میں نہیں آئی البتہ میں نے تصویروں کو گاتے ضرور سنا ہے-وہ جو کہا جاتا ہے تصویر بولتی ہےتو کچھ غلط نہیں غالب کہتے ہیں؀ شوق ہر رنگ رقیب سر و ساماں نکلا
قیس تصویر کے پردے میں بھی عریاں نکلا- یہ ذکر میں نے اس لئے چھیڑا ہے کہ کل ہرسُکھ میں میری ملاقات اس دور کے فنون لطیفہ کے ایک بڑے نام ڈاکٹراعجاز انور صاحب سےہوئی اور ہم نےدوتین گھنٹےساتھ گزارے جو مجھےہمیشہ یاد رہیں گےاعجازانورجو کسی تعارف کے محتاج نہیں نیشنل کالج آف آرٹس کے سابق پروفیسر اور کالج کی آرٹ گیلری کے ڈائرکٹر ہیں- وہ آج بھی فن مصوری کی ہمہ وقت خدمت میں مصروف ہیں اور ہر اتوار کو اپنی گیلری میں صبح سے شام تک نو آموزآرٹسٹوں کی تربیت اور راہنمائی میں مگن رہتے ہیں-اہم بات یہ کہ وہ نہ صرف خود ایک بڑے فنکارہیں بلکہ ایک بہت بڑے فنکار کے صاحبزادے ہیں-پاکستان ٹائمر کے کارٹونسٹ انور علی اور اُن کے مشہور زمانہ کارٹون”ننھا” کوکون نہیں جانتا لیکن شاید یہ بات کم ہی لوگوں کو معلوم ہو کہ انور صاحب اعجاز انور کے والد تھے اور ننھا خود اعجاز انور ہیں-الللہ تعالئ اعجاز انور کو تادیر سلامت رکھے تاکہ یہ اسی طرح نئی نسل کی تربیت کے عمل کو جاری رکھ سکیں؀

تم سلامت رہو ہزار برس

ہر برس کے ہوں دن پچاس ہزار۔

مسعود منور:علم وفضل کا کوہ گراں/ ابھی چنددن پہلے میں نےاپنی اوائل عمر کی ایک تصویر کہیں لگائی تھی اس تصویر پر برادرم مسعودمنور نے یوں تبصرہ کیا تھا: ہے مظفر جوان جوں کا توں/ وہی مسکان اوروہی چہرا/اب بھی ممکن ہےاس کےسر پہ بندھے/اک نئے عشق کا حسیں سہرا۔اس محبت بھرےتبصرے پر میں نےیہ جواب اُن کی نذر کیاتھا-وقت پیری شباب کی باتیں/ایسی ہیں جیسےخواب کی باتیں، یہ سب تو ہوا گزشت ورفت لیکن میری یہ پوسٹ اورمسعود منور کا یہ تبصرہ مجھےنصف صدی قبل ستر کی دھائی میں لے گیاجب برادرم مسعودمنور لاہور کی گلیوں کی رونق اور میرے روزمرہ کے ساتھی ہوا کرتے تھے-اُس دور کی کہانیوں کی ایک طویل فہرست ہے جن میں سے کچھ کہی کچھ ان کہی رہ کر بھی امر ہیں مگر میں اتنا ضرور کہوں گا کہ ان سب کہانیوں کے ہیرو مسعود منور ہی ہیں-نوے کی دھائی میں میرا دو تین بار ادبی پروگراموں کے سلسلےمیں ناروےجانا ہوا توہرمرتبہ اوسلو میں مسعود منور سے طویل ملاقاتیں ہوئیں اُن کی ترقی خوشحالی اورخوش بختی نےمجھے بہت مسرور کیا-مسعود عالم، فاضل اور جوگی تو تھے ہی اب اُنہوں نےاپنی سب کہانیاں پیچھے چھوڑ کر بن باس لے لیا ہے،تصوف کی جانب مائل ہوکر سمندروں کے اطراف میں جا بسے اور زبان حال سےکہہ رہے ہیں: میں گھر سے دوراطاق بدن میں رہتا ہوں/ سواد ہجر کے باب کہن میں رہتا ہوں/ کہیں تورہناہےجب تک ملاہےاذن قیام/ سوحرف وصوت کےشہرسخن میں رہتاہوں/میں عکس ہوں ترے پیراہن گل و مل کا/میں ایک رنگ ہوں برگ سمن میں رہتا ہوں/کبھی ہوں زلف کی ژولیدگی کی میں وارفتہ/ کبھی میں تیری جبیں کی شکن میں رہتا ہوں/ مثال بوسۂ دوشیزگان شہرجمال/ترےلبوں کے گلابی چمن میں رہتاہوں/میان چشم زدن ڈھونڈھ مجھ ُکو پلکوں میں/کہیں نہیں ہوں طلسم زدن میں رہتاہوں جہاں سےتو نےنکالامرےاب و جد کو/ میں آج بھی اسی باغ عدن میں رہتاہوں/وحی ہوا ہوں غزال صفا کے نافہ میں/میں مشک لا ہوں ہوائےختن میں رہتا ہوں/ ہے پنجند کی گزر گاہ میرا نصف خیال/ میں نصف وادیٔ گنگ وجمن میں رہتا ہوں/ زمین میرے لیے سیرگاہ ہے مسعود میں شمس زاد ہوں نیلے گگن میں رہتا ہوں مگر میں تو اُن کو بسمل صابری کے الفاظ کاسہارا لیتے ہوئے یہی کہوں گا۔

وہ عکس بن کے میری چشم تر میں رہتا ہے عجیب شخص ہے پانی کے گھر میں رہتا ہے

ایسی چنگاری بھی یارب اپنی خاکستر میں تھی/ کم وبیش نصف صدی کی بھرپور پیشہ ورانہ اور فعال سماجی و ثقافتی زندگی گزارنےکےبعد اب میں شہر کے ہنگاموں سے دور رہتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ فراغتی و کتابی وگوشۂ چمنی کی کیفیت رہے مگرجہاں دل کے رشتے ہوں وہاں جانا پڑتا ہے،گزشتہ دنوں اسی طرح کی ایک محفل میں میری ملاقات اپنے ایک ایسے محب سے ہوئی کہ جب اُن سے میرا تعارف کروایا جانے لگا تو اُنہوں نےمیری اولین کتب سےلےکر”عجائبات فرنگ”تک ساری داستان فر فر سنا دی-میں سنتا جا رہاتھا اور شرمندہ ہو رہا تھا کہ ایسے مخلص اورمحبت کرنے والے دوست سے اتنے دن کیوں رابطہ نہ رکھ سکا میرے یہ مہربان دوست سیالکوٹ کےگاؤں رسول پور بھلیاں کے محمد آصف بھلی ہیں جو معروف دانشور،صحافی، کالم نگار،ماہر قانون ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ دنیاوی اعتبار سے ترقی کی اتنی بلندیوں کو چھونے کے باوجود انتہائی خاکسار اور دوسروں کو بڑھ چڑھ کرعزت دینے والےبھی- دھیما لہجہ، عالمانہ گفتگو،بشاش چہرہ اور ہمہ وقت زیرلب مسکراہٹ ان کی پُر وقارشخصیت کو مزید دلآویز بناتےہیں اوربندہ اُن کی طرف کھنچا چلا جاتا ہے،یہاں قند مکرر کے طور پر اُنہوں نے مجھے اپنی دوکتابیں بھی ہدیہ کیں، ویسےآصف بھلی دس سے زیادہ کتب کےمصنف ہیں جن میں جمہوریت سےملاقات سیاستدان، چوتھےستون سے مکالمہ، سیاست کے روبرو،شعر کے سو رنگ، جب میرا انتخاب نکلے گا، اشعار کا دفتر کھلا،انتخاب غزلیات میر ،صدی کی منتخب غزلیں، میں نےشاعری کو دیکھا ہے ، چوتھا ستون اورمیرے قائد کانظریہ شامل ہیں-آصف بھلی کی صحافتی زندگی کاآغاز “چٹان” جیسے موقر جریدے سے ہوا، بعد میں”چوتھا ستون” کے عنوان سے روزنامہ “نوائے وقت” اور “پاکستان” میں باقاعدہ کالم لکھے،
آصف بھلی سےملاقات میرے لئے اس تقریب کاحاصل تھی،غالب کا یہ شعرعزیز دوست کی نذر؀ وداع و وصل جداگانہ لذتے دارد/ہزار بار برو،صد ہزار بار بیا۔