کھرا انسان ،منفرد دانشور

یہ تحریر 304 مرتبہ دیکھی گئی

کھرا انسان منفرد دانشورشاہدمحمود ندیم: شاھدمحمود ندیم سےمیری موانست نصف صدی کاقصہ ہے دوچاربرس کی بات نہیں یہ الگ بات کہ ہم دونوں کےاپنی اپنی دنیاؤں میں میں کھو جانے کے باعث-منزل عشق میں نہ تھی ایک کوایک کی خبر کےمصداق بہت دیر دیر بعد ملتے رہے ہیں مگر جب ملتے ہیں تو لگتا ہے کہ کبھی جدا ہی نہ ہوئے تھے کہ یہی حقیقی دوستی کی پہچان ہے-غالب کے بقول؀

گو میں رہا رہین ستم ہائے روزگار لیکن تیرےخیال سے غافل نہیں رہا گزشتہ دنوں اُنہوں نے مجھےالحمرا میں اپنے ڈرامے “اُڈن ہارے”دیکھنے کی دعوت دی اس کھیل میں انسانی مجبوریوں کے تناظر میں نفسیاتی اُلجھنوں کو نہایت عمدہ پیرایۂ بیان میں کرداروں کی زبان میں نمایاں کیا گیاہے-“اُڈن ہارے” کی کہانی حقیقی ہے جو اورل ہسٹری میوزیم میں ایک ڈاکٹر کی زبانی محفوظ کی گئی ہےڈاکٹر صاحب قیام پاکستان کے بعد مشرقی پنجاب سے ہجرت کرکے اپنے خاندان کے ساتھ لاہور آگئے تھے-اُن کی سچی عشقیہ کہانی پر اس کھیل کی بنیاد ہےجواپنےاندرسچی محبت کی کئی ایک بوقلمونیوں کی حامل ہےمجھےاس کھیل نےجو مزا دیا وہ تو اپنی جگہ مگر ایک لمبے عرصے کے بعدالحمرا میں شاہد کے ساتھ ملاقات اورگزارے ہوئےلمحات نےاس لطف کو دو آتشہ کردیا- شاہدمحمود ندیم اپنے رنگ کےمنفرد افسانہ نگار،ڈرامہ نویس، شاعر، اداکار، ہدایت کار اورتخلیق کار ہیں-اُن کی ایک خوبی جس کا بہت کم لوگوں کوعلم ہے یہ ہے کہ وہ انتہائی نرم خُو اورخلیق انسان ہونے کے ساتھ ساتھ سخت گیرمنتظم بھی ہیں – یہ بات میں اپنے ذاتی مشاہدے کی بنا پر کہہ رہا ہوں -یونیورسٹی کے دور میں وہ بہت متحرک طالب علم رہے ہیں اور کئی اہم سوسائٹیوں کےعہدیدار رہے،اس حیثیت میں انہوں نے اپنی صلاحیتوں کا خوب لوہا منوایا تھا-ترقی پسندی،انسان دوستی، مساوات اور بےتعصبی اُن کےخمیر میں ہے شاہدنے ہر دور میں انٹی اسٹبلشمنٹ کردار ادا کیا ہے- ملک میں جمہوریت اور شخصی آزادیوں کےقیام کےلئےذاتی سطح پر بہت قربانیاں دیں ہیں بہت کچھ گنوایا بھی ہے-شاہدمحمود ندیم ۱۹۴۷میں سوپور ( مقبوضہ کشمیر ) میں پیدا ہوئے-ان کے والدوادئ کشمیر کے ڈاکٹروں کی پہلی نسل سےتعلق رکھتے تھےاورتحریک آزادئ کشمیر کے سرگرم کارکن تھے جس کی پاداش میں اُنہیں اپنےآبائی وطن سےہجرت بھی کرنا پڑی- شاہد نے ایک جگہ کہا ہے کہ وہ ایک سال کی عمر میں مہاجر ہوگئے تھے- شاہد محمود ندیم کا ایک شعبہ طلبہ سیاست بھی ہے-گورنمنٹ کالج لاہور اور پنجاب یونیورسٹی کے اپنے طالب علمی کے دور میں اُنہوں نے ایوبی آمریت کے خلاف مزاحمت اور سٹوڈنٹس یونینز کی بحالی کی تحریک کی قیادت کی لیکن ایثار دیکھئےکہ یونین کی بحالی کےبعدصدارت کے لئے جہانگیر بدرمرحوم کو آگےکردیا- یونینز کی بحالی کے لئےانٹر کالجیئٹ باڈی(IBC) کےنام سے جوتحریک لاہور میں چلی تھی، شاہدمحمود ندیم اس کے روح رواں ،صدر اورترجمان تھے، مجھے اس کاسیکرٹری مقرر کیا گیا تھاآج بھی میرے پرانےالبم میں انڈس ہوٹل کی یادگار پریس کانفرنس کی وہ تصویر ہے جس میں شاہد ندیم، جہانگیر بدر کے ساتھ لاہورکے کالجوں ، یونیورسٹیوں کے تمام طالب علم لیڈر موجود ہیں اور جس میں حکومت کو یونین بحال نہ کرنے پرکھلا چیلنج دیا گیاتھا-

شاہد کےاندر ایک بے چین روح ہے جو اسے نچلابیٹھنےنہیں دیتی چنانچہ ایک عرصہ سے شاہد “اجوکا”کے ذریعے معاشرہ میں مساوات،انسان دوستی، ترقی پسندی کی ترویج کےلئے انتھک جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں-اس کے ساتھ ساتھ تصنیف و تالیف کا سلسلہ بھی چل رہا ہے کہ وہ متنوع سوچ کے حامل صف اوّل کے ترقی پسند ادیب و شاعر ہیں جو بیک وقت اُردو، پنجابی ،انگریزی پر دسترس رکھتے ہیں اپنی جدوجہد کی پاداش میں شاہدکو قید وبند، اوروطن سے دوری کی صعوبتوں سےبھی گزرنا پڑا مگر نہ تو ان کے پائے استقامت میں لغزش آئی نہ جنبش قلم میں رکاوٹ ؀۔ لکھتے رہےجنوں کی حکایاتِ خُوں چکاں
ہرچند اِس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے ——————————————