کربلا۔۔۔۔۔ایک منظر

یہ تحریر 238 مرتبہ دیکھی گئی

سُلگتے صحرا میں بُوند بَرسے تو معجزہ ہے
لُہو برستا ہے اہلِ حُرمت کا

بَخت حیراں کہ کیا کہے وہ
خیام لُٹنا، امان اُٹھنا
یہ سب، زمانوں سے ہو رہا ہے
مگر کِنارِ فُرات پانی کو پیاس نے جو شِکست دی ہے
یقیں کا محور بدل گیا ہے

زمین والوں کا حال دیکھو
اَصیل مٹی میں رُل رہے ہیں
رَذیل ہیروں سے تُل رہا ہے

عدیل و عادل، عزیز و قادر کی چشمِ باصر ہی بس کُھلی ہے
وَگرنہ اَرض و سَمائے ہَستی نے ڈَر کے آنکھیں ہی موند لی ہیں
کسے تھا یارا کہ دیکھتا وہ
جو چشمِ اَفلاک سے نِہاں تھے
جو سر قیامت تلک اَماں تھے
وہ سَر رِداوں سے چھن گئے ہیں
سَروں کی کھیتی کا کیا کیا کہو گے
کہ سَب سعادت میں کَٹ گئی ہے
نگاہِ خاور شکوہ و حَشمت کو دیکھتی کیا کہ پَھٹ گئی ہے
مگر یقین و وفا کے چہرے پہ گَرد جِتنی تھی چَھٹ گئی ہے
عجیب بازی پَلٹ گئی ہے
طناب خیمے کی کیا کٹی کہ زبان ہاتف کی کَٹ گئی ہے

فلک کو یارا نہیں کہ دیکھے
جو سر سے سرور کے ہو رہا ہے
خیام جلنا تو ایک جانب
جو اہلِ خیمہ کی ابتلا ہے

کُھلے سروں سے لُٹے گھروں تک
دَریدہ لاشوں پہ بَین ہیں بَس
لُٹے گھروں سے کُھلے سروں تک
زمیں کے وارث حُسین ہیں بَس