خاموشی اس کا سچ ہے
کتابیں اس کی داشتائیں
عورت اس کا دین
وہ کھڑکی کھولے گا
سمندر اس کے کپڑوں سے لپٹ جاۓ گا
ناز بھری نادیدہ عورت بے حد چُومے گی
بڑھاپا اس پر آیا نہیں
غصے نے مدھر جوانی پی لی
ہجرت کرتے بچپن نے بھی اپنے ہاتھ چھڑاۓ
وہ شاعری کرتا رہتا اگر ایک عورت اُس سے ملتی رہتی
چھت بنا لیتا اگر دیوار اسے باتوں میں لگا سکتی
کچھ پل زندہ رہ لیتا گر زندگی، ایک معمولی آدمی کے
دل کا بوجھ اٹھا سکتی