ڈاکٹراجمل نیازی کی بے نیازیاں

یہ تحریر 297 مرتبہ دیکھی گئی

اجمل نیازی میرے یونیورسٹی دور کے ساتھی تھے-میری یادوں کا ایک طویل سلسلہ ان کےساتھ جڑا ہواہے اوریئنٹل کالج میں وہ مجھ سے ایک سال آگے تھے کئی معاملات میں ہمارا اشتراک تھا-میں اور وہ پنجاب یونیورسٹی کے ادبی مجلے “محور” کی مجلس ادارت میں شامل تھے، وہ بطور مدیر اعلئ اور میں بطور مدیر-میں “یونیورسٹی کرانیکل” کا مدیربھی تھا-اجمل نیازی مجلس اردو کے رکن تھے اور میں اوریئنٹل کالج یونین کا سیکرٹری تھا- بہرحال یہ ایک دورتھاجواپنی حسین یادیں چھوڑ کر گزر گیا- ڈاکٹر اجمل نیازی ۱۶-ستمبر۱۹۴۶کو موسئ خیل (میانوالی )میں پیداہوئےاور ۱۸-اکتوبر۲۰۲۱ کو اُنہوں نے بھرپور زندگی گزار کر داعیئ اجل کو لبیک کہا-وہ ملک کےنامور شاعر ،ادیب، صحافی اور کالم نگار تھے۔


ڈاکٹر اجمل نیازی گارڈن کالج راولپنڈی ، گورنمنٹ کالج میانوالی اور پھر گورنمنٹ کالج لاہوراورایف سی کالج پڑھاتے رہے اُنہوں نے” نوائے وقت” جیسےموقراخبار میں “بے نیازیاں” کے عنوان سے کالم نگاری کی اور اپنی صلاحیتوں کو منوایا-اجمل نیازی کی اہم تصانیف میں “مندر میں محراب “ “جل تھل “ “محمد الدین فوق“ اورکالموں کامجموعہ “بے نیازیاں “شامل ہیں- اب اُن کی چندباتیں ،یادیں نیازی سیدھاسادا کھراسچا پٹھان تھا یعنی دوستوں کادوست دشمنوں کےلئےشمشیر آبدار-کچھ دلچسپ واقعات سنئیے ہماری نیازی کےساتھ دوستانہ بے تکلفیوں کے: اجمل نیازی کو گاجر کاحلوہ بہت پسند تھا تھاوہ دوستوں سے آنکھ بچاکرپرانی انارکلی کے ایک مشہورحلوائی کی دوکان پر روزانہ حلوہ کھایا کرتے تھےمگر وقت بدل بدل کر تا کہ دوستوں کی دستبردار سےبچے رہیں مگر ہم بھی کہاں ٹلنے والے تھے،جوں ہی وہ کالج سے باہر نکلتے ہم پیچھے پیچھے ہو لیتے اور نیازی صاحب کےحلوے کی پلیٹ کاایک بڑا حصہ حسن رضوی ، میری اور دیگر دوستوں کے کام و دہن کی لذت کا سامان بن جاتا تھا-پرانی انارکلی اُس دور میں اور آج بھی کھانے پینے کی سستی دوکانوں کا مرکز ہے-عبدالرحمان ہوٹل تو تب طلبہ کا پسندیدہ ٹھکانہ تھا جہاں صرف سالن کے آٹھ آنے لئے جاتے تھے( یاد رہے یہ آٹھ آنے ستر کی دھائی کےتھے کہ آج کل تو آٹھ آنے کا سکہ نظر بھی نہیں آتا) روٹیاں مفت، جتنی چاہو کھاؤ ساتھ ہی سالن کا سپلیمنٹ بھی مفت-اب تو یہ باتیں ایسی ہیں جیسے خواب کی باتیں-یہاں ایک لطیفہ بھی-عام طور پرلوگ دو ڈھائی روٹیاں کھایا کھایا کرتے تھے جو یہ ہوٹل مفت دیتا تھا مگر ایک مرتبہ ہمارا ایک خوش خوراک دوست کوئی چھ یا سات روٹیاں رگڑ گیا اور ہم نے کاؤنٹر پر روٹیوں کی صحیح تعدادبتا دی ،زائدروٹیوں کے پیسے بھی نکال کر دینے لگے مگر ہوٹل کےمالک نےکسی صورت یقین نہیں کیا پہلے تو قہقہہ لگایا کہ اتنی روٹیاں انسان تو نہیں کھا سکتا پھر بولا چلو یہ میری طرف سے تحفہ سمجھوکسی طرح پیسےلینےپرآمادہ نہ ہوا-واہ کیا بھلے لوگ تھے،کیا بھلے زمانے تھے!
دوبارہ نیازی صاحب کی طرف آتے ہیں اسی طالب علمی کے دور میں اخبارات اور خصوصآ پروگریسوپیپرز کی بندش کے خلاف صحافیوں نے امروزاور پاکستان ٹائمز کے دفاتر کے سامنے بھوک ہڑتالی کیمپ لگایا تھادوستوں نے جن میں آگے آگےحسن رضوی تھےچک چُکاکراجمل نیازی کوبھوک ہڑتال پر بٹھا دیا خیال تھا کہ ہڑتال ایک آدھ دن چلے گی مگر یہ تو لمبی ہوگئی-نیازی صاحب دو دن تک تو بھوک پیاس برداشت کر گئے پھر براحال کہ سنگل پسلی تھے-ہم لوگوں کو اُنہوں نے بتایا کہ اُن کے ساتھ والے بیڈ پر جو صحافی ہے وہ صرف زہر اور عشآ کی نماز پڑھنے مسجد جاتا ہے اس کا پیچھا کرو کچھ گڑ بڑ ہے-جب ہم نے پیچھا کیا تو پتہ چلا کہ نماز تو کیا پڑھنا ہے وہ چھپ کر یہاں گھر سےمنگوائے ہوئے لنچ اور ڈنر پر ہاتھ صاف کرتا ہے-بس پھر کیا تھا ،ہم نے بھی نیازی کو روزانہ دو نمازیں مسجد میں لے جاکر پڑھوانی شروع کردیں-ایک آدھ دفعہ ناغہ ہو جاتا تو اجمل نیازی کسی کے ہاتھ چٹ لکھ کر بھجوا دیتے-“دو وقت سے نماز قضا ہورہی ہے آجاؤ”کیمپ میں روزانہ ایک بنگالی ڈاکٹربھوک ہڑتالیوں کے بلڈ پریشر،وزن کاجائزہ لینے کے لئے آتا تھا-ایک دن نیازی صاحب کو دیکھنے کے بعد حیرت سے بولا-“لوگوں کا وزن کم ہو رہا شالا (سالا) تمہارابڑھ رہا ہے؟؟ بہرحال ایک سنہری دور تھا جوگزر گیا-اجمل نیازی بھی اسی دور کا ایک روشن دماغ تھا؀۔

ایک روشن دماغ تھا نہ رہا

شہر میں اک چراغ تھا نہ رہا