چند خط

یہ تحریر 712 مرتبہ دیکھی گئی

Shethia Sadan,
Matunga,
Bombbay 19
India
30th March, 66

محترمی سلیم الرحمٰن، آداب
آپ کے ریویو کا تراشہ ملا
میں بہت ہی ممنون ہوں، آپ نے نقد و نظر سے میری مدد کی اور مضمون کی اندرون ترین گہرائیوں میں اتر گئے ہیں۔
آپ غالباً شام لال ادیب، ایڈیٹر ٹائمز آف انڈیا کو جانتے ہوں گے۔ برسوں پہلے انھوں نے بھی اسی پائے کا ایک مضمون ٹائمز میں لکھا تھا جس کی نقل آپ کو بھجوا رہا ہوں۔
مخلص
راجندر سنگھ بیدی
(میں نے بیدیؔ صاحب کے ناول “ایک چادر میلی سی” پر “پاکسان ٹائمز” میں تبصرہ کیا تھا۔ اس کا تراشہ بیدیؔ صاحب تک پہنچا تو انھوں نے یہ خط تحریر کیا۔ شام لال ادیب کا مضمون خوب تھا اور اس قابل کہ اردو میں اس کا ترجمہ کیا جاتا۔
16-9-74
محترم و مکرم جناب سلیم الرحمٰن صاحب السلام علیکم۔ مزاج شریف۔ میں نے کل (مورخہ 15/ستمبر 74ء) کے پاکستان ٹائمز کے حصہ مقالات میں آپ کے گراں قدر ادبی رشحات پڑھے۔ اس سلسلے میں آپ نے رقم فرمایا ہے کہ تخلص محض رسمی تسمیہ نہیں ہوتا بلکہ اس کے پیچھے شاعر کی جذباتی و نفسیاتی شخصیت بھی کارفرما ہوتی ہے، آپ کا یہ خیال بالکل درست ہے۔
اس ضمن میں میں آپ کو اپنے ایک مضمون کی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں جو پہلے تقریباً تیس سال قبل اورینٹل کالج میگزین میں شائع ہوا تھا۔ اس کے بعد معمولی رد و بدل کے بعد میری کتاب مباحث (شائع کردہ مجلس ترقی ادبِ لاہور) میں شائع ہوا۔ یہ مضمون تیس چالیس صفحات پر مشتمل ہے۔ میں نے اس میں اس لفظ (تخلص، مخلص) کے معنی کے ارتقا کے علاوہ، اس کے تہذیبی و سیاسی پس منظر پر بھی گفتگو کی ہے۔ اور اس کے ساتھ ہی اس حقیقت کی طرف بھی اشارے کیے ہیں جس کا آپ نے ذکر کیا ہے۔
چونکہ آپ نے لکھا ہے کہ اس موضوع پر کام نہیں ہوا اس لیے نشان دہی کی جسارت کر رہا ہوں۔ البتہ یہ درست ہے کہ اس کے خالص نفسیاتی پہلو پر کوئی ماہرِ نفسیات مزید تحقیق کرے تو اس سے یقیناً فائدہ ہوگا۔ مخلِ اوقات ہوا ہوں۔ معذرت قبول کریں۔ آپ کی خیریت کا طالب
نیاز مند
سید عبداللہ
(مجھے معلوم نہ تھا کہ ڈاکٹر سید عبداللہ بہت پہلے اس موضوع کا سیر حاصل جائزہ لے چکے ہیں۔ بہرکیف، یہ مسئلہ ہے بہت دل چسپ اور مزید توجہ کا مستحق۔ تخلص، شاعر بالعموم خود چنتا ہے۔ لہذا اس چناؤ سے بھی کسی نہ کسی حد تک (“دل کا معاملہ کھلنا” چاہیے)
7 کینال بینک، زمان پارک۔ لاہور
2/فرری 1978ء
محبی، آپ کے لیے کئی دن ہوئے پاکستان ٹائمز کے دفتر میں پیغام چھوڑا کہ جب آپ وہاں تشریف لائیں تو براہِ کرم مجھے 66643 پر فون کرلیں، مگر صدائے برنہ خاست۔ معلوم ہوتا ہے دفتر والے آپ کو بتانا بھول گئے آپ کے گھر کا پتا چونکہ مجھے معلوم نہیں، یہ خط اخبار کے میگزین ایڈیٹر کی معرفت بھیج رہا ہوں امید ہے وہ اسے آپ کے حوالے کر دیں گے یا بھجوا دیں گے۔
یقین تو آپ کو نہیں آئے گا، مگر کچھ لکھا ہے۔ اس کے بارے میں آپ سے ملنے اور باتیں کرنے کو جی چاہتا ہے۔ کبھی فرصت ہو تو اس کی صورت نکالیے۔ پہلے دن فون پر یا خط کے ذریعے بتا دیجیے کہ کب آ رہے ہیں تاکہ میں گھر پر موجود رہوں۔
امید ہے آپ خیریت سے ہوں گے۔
مخلص
خواجہ منظور حسین
(خواجہ صاحب کے چند دو سطری، تین سطری خط اور بھی ہیں جن میں کوئی قابلِ ذکر بات نہیں۔ بات تو اس خط میں کچھ بھی نہیں لیکن ایک جملہ بہت دل چسپ ہے۔ ادبی حلقوں میں مشہور یہ ہو گیا تھا کہ خواجہ صاحب استاد بھی اچھے ہیں، صاحبِ ذوق بھی ہیں سخن فہم بھی۔ لیکن لکھنا لکھانا ان کے بس کی بات نہیں۔ خود خواجہ صاحب کو بھی یہ احساس تھا کہ اہلِ ادب ان سے کسی قسم کی توقعات نہیں رکھتے۔ “یقین تو آپ کو۔۔۔۔” والاجملہ اسی کیفیت کا غماز ہے)
برادرم تسلیم۔ کیا آپ نے اس سے پہلے بھی خط لکھا تھا؟ افسوس کہ مجھ تک نہیں پہنچا ورنہ کم از کم آپ کے لیے جواب میں تاخیر نہ کرتا۔ میرا مضمون، غزل، جو کچھ بھی آپ لینا چاہیں آپ کو مکمل اجازت ہے۔ “اداس نسلیں” ٹی وی پر دکھایا جانے والا تھا۔ کام بھی بہت زور و شور سے شروع ہو گیا تھا مگر ٹی وی والے اب ڈھیلے پڑ گئے ہیں اور شاید ارادہ بدل دیا ہے۔ وجہ اس کے سوا اور کچھ معلوم نہیں ہو سکی کہ عبداللہ حسین صاحب نے ضیا جالندھری صاحب کو کوئی خط لکھا ہے جس کے بعد ٹی وی والے فی الحال پروگرام نہیں کر رہے ہیں۔ کبھی کبھی یاد کر لیا کیجیے تو مہربانی ہوگی۔
آپ کا
سلیم احمد
1977ء میں سال بھر کے اردو ادب کا انتخاب شائع کرنے کا ارادہ کیا تھا۔ سلیم احمد صاحب کا ایک مضمون اور دو تین غزلیں انتخاب میں شامل کرنا چاہتا تھا۔ اجازت کے لیے انھیں جو خط لکھا یہ اس کا جواب ہے۔ ٹی وی کے لیے “اداس نسلیں” کو ڈرامائی شکل سلیم احمد دے رہے تھے۔ لیکن یہ پروگرام ٹیلی کاسٹ ہونے کی نوبت ہی نہ آئی۔ خیال تھا کہ التوا کی صحیح وجہ سلیم احمد کے علم میں ہوگی۔)