چلتے چلتے

یہ تحریر 677 مرتبہ دیکھی گئی

سیرگہِ بہار سے توڑ چکے ثمر نئے۔
ذائقے من چلے ملے اور ہوے اثر نئے۔
اگلے سفر کے شوق میں اب یہی زادِ راہ ہیں۔
چھاؤں کے واسطے ضرور ہوں گے کہیں شجر نئے۔

کون چلے گا ساتھ اب اہلِ فراق کے سِوا۔
چلتی رہے گی رات دن ایک ہی سمت میں ہوا۔
اپنا کوئی نہ گھر نہ گھاٹ، سارا نہوت کا ہے ٹھاٹھ۔
کھویا جو اُس کی فکر کیا، جو نہ ملا وہی جزا۔

لفظوں کے پیرہن میں ہے اب کے مسافرت نئی۔
ایسے سبھاؤ، ایسے گُر، جن سے ملے گی مَت نئی۔
ناچ کے دل لبھائیں گی نظمیں نچنت رُوپ کی۔
بجتی رہے گی ذہن میں چاروں طرف سے گت نئی۔
۲۰۱۶ء