پہلی بار دلی جاتے ہوئے

یہ تحریر 146 مرتبہ دیکھی گئی

پہلی بار دلی جاتے ہوئے
کیا سوچا تھا ،کیسا احساس تھا
آج پھر وہی احساس ہے
یا اس سے ملتا جلتا کوئی خیال اور احساس

سوچا تھا کہ پہلا احساس کب کا ختم ہو چکا
دلی کتنی دور تھی
دوری کا احساس خوشگوار تھا یا حوصلہ شکن
بس اتنا یاد ہے کہ دلی ایک خواب کی طرح تھی
خواب میں خوف بھی شامل تھا
ایک بڑے شہر کی ہما ہمی کا خوف
اس کی تاریخ کا خوف
تاریخ کا کوئی صفحہ ایسا بھی تھا جسے پڑھنا باقی تھا
جس کی تعبیر خواب کے تعبیر کی طرح تھی
کوئی صفحہ ایسا بھی تھا جو مٹا مٹا سا تھا اس میں
کچھ لکھے جانے کی گنجائش تھی
دلی کی فکری وسعت کا خوف اور
اس تنگی کا خوف جو وسعت میں پوشیدہ تھی
زندگی کی تیز رفتاری کا خوف
پہلی بار گھر سے نکلتے ہوئے
کتنے خواب آ نکھوں میں خوابیدہ تھے
خوف کے سائے میں خوابیدہ خواب

دلی کے دل ہونے کا قصہ
دل کے دلی بن جانے کی کہانی
ایک شہر انسانی تاریخ کا کیا اتنا بوجھ اٹھا سکتا ہے
تاریخ کے اس لمبے سفر اور سلسلے میں
کوئی لمحہ ،کوئی وقفہ ، کوئی دھڑکن، کوئی لفظ
کیامیرا بھی ہے
اس کی تلاش میں
تاریخ کے کھانچے سے گزرنے کا خوف
ایک کھانچہ گھر کے راستے میں تھا
اس کھانچے کا کوئی خوف نہیں تھا
تاریخ کے کھانچے سے گلی کے اس کھانچے کا کیا رشتہ ہے
تاریخ کے اس تصور سے خوف آتا ہے

دلی کتنی نزدیک اور کتنی دور ہے
دلی مجھ میں ہے یا میں دلی میں ہوں
دل میں اک عزم آباد ہے
جو پختہ بھی ہے اور روشن بھی
دل وہیں رہ گیا
اسے دلی آنے میں کتنا وقت لگا
امی نے پلٹ کر دیکھا تھا
انہیں رخصت ہونا تھا
میں رویا تھا
آ ج یہ قدموں کی آہٹ آئی کہاں سے
دل کی دھڑکن میں قدموں کی آہٹ کا احساس
انہیں الگ کرنا کتنا مشکل ہے
انہیں الگ الگ سننا کتنا دشوار ہے
دل دلی اور دھڑکن
آ ج آ نکھیں خاموش تھیں
دھڑکن تیز تھی
قدموں کی آہٹ راستے اور تاریخ کے کھاںنچوں سے نکل کر کتنی دور آ گئی ہے

13-1-2024