پاداش

یہ تحریر 138 مرتبہ دیکھی گئی

توفیق کا بانجھ پَن
مجھے جنت کے قیدخانے میں مسرور رکھ سکتا تھا
مگر میں وہاں سے بھاگ آیا
اپنی جسارت کی پاداش کا مشکیزہ اٹھائے
گندم کی کٹائی کے موسم میں

یہاں آ کر میں نے درانتی ایجاد کی
ہتھوڑا درانتی کی کَوس نکالنے کے لئے بنایا
پھر ہتھوڑے اور درانتی سے رزق اور آسائش جمع کی

رزق سے معبود کا حصہ نکالا
معبود کی تلاش مجھے یاس کے صحراوں میں لے گئی
میری پریشاں خیالی نے جس کی طرف ہاتھ بڑھایا میں نے اسے معبود مان لیا

پھر معبود بڑھنے اور رزق گھٹنے لگا
میں نے گھبراہٹ میں تعلیم ایجاد کی
جہاں مخلوق کو معبود سے بدگمان کر کے سارے رزق کو محفوظ بنانے کا ہیچیدہ کام ہوتا ہے
درانتی، ہتھوڑا اب اوزار نہیں آدرش ہیں

مگر میں آدم کی بے توفیقی کا اکیلا وارث
جس کے مشکیزے سے پاداش کا پانی خشک
اور فرار کا راستہ مسدود ہو رہا ہے