وہ اور میں

یہ تحریر 108 مرتبہ دیکھی گئی

وہ: آپ نے جو کچھ کہا اسے خیال کی دنیا کہا جائے یا احساس کی دنیا مجھے محسوس ہوتا ہے کہ یہ دونوں دنیائیں ایک ساتھ ہو گئی ہیں اور انہیں ایک دوسرے سے الگ کر کے دیکھنا مشکل ہے۔ پھر بھی آپ کی نظر میں آپ کا گھر اور علاقہ اور کن باتوں سے آپ کے لیے اہمیت کا حامل ہے۔
میں: اس سلسلے میں تو کئی باتیں میں آپ کے پہلے سوال کے سلسلے میں کہہ چکا ہوں ۔ہو سکتا ہے یہ باتیں بہت منطقی اور مدلل نہ ہوں اس کی وجہ یہ ہے کہ جب کوئی ماضی کی طرف جاتا ہے اور ماضی کو حال میں لکھ رہا ہوتا ہے تو اس کی فکر ی دنیا کچھ نہ کچھ جذباتی ہو جاتی ہے ۔یہ اور بات ہے کہ جذبے کے اظہار کو کچھ غیر جذباتی بنایا جا سکتا ہے مگر یہ سب باتیں کہنے کی ہیں ۔جذبہ اور خیال جس زبان میں ظاہر ہو جاتا ہے اسے اسی شکل میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ گھر کسی کا بھی ایک کائنات کی طرح ہوتا ہے۔ کبھی یہ اتنا پھیل جاتا ہے کہ اس پر وسیع تر دنیا کا گمان ہونے لگتا ہے ۔گھر کا ایک چھوٹا سا کونا کتنا بڑا دکھائی دیتا ہے ۔اس گوشے اور کونے میں زندگی کے جو شب و روز گزرتے ہیں یا گزرے ہیں انہیں ایک طویل عرصے کے بعد دیکھنا اور دوبارہ وہاں بیٹھنے کی خواہش کا اظہار کرنا بھی ہماری تہذیبی ضرورت کا اظہار ہے پچھلے دنوں گھر اور سفر کے تعلق سے کچھ تحریریں مطالعے میں آئیں۔ ان سے اپنے گھر کا بھی خیال آیا اور اپنے محلے اور علاقے کا بھی۔ یہ بات کتنی حیران کرنے والی ہے کہ دنیا کے بارے میں پڑھتے ہوئے کسی کو خیال اپنے گھر اور علاقےکا خیال آۓ۔اس کی وجہ اپنے گھر اور علاقے کے تعلق سے جذباتی ہو جانا نہیں بلکہ یہ تو ایک انسانی اور اخلاقی معاملہ بھی ہے۔جیسے جیسے وقت گزرتا جاتا ہے انسان اپنی مٹی سے گریزاں بھی ہوتا جاتا ہے لیکن یہ کوئی ایسا اصول نہیں یا واقعہ نہیں جس کا اطلاق ہر شخص پر ہوتا ہو۔ پھر بھی اپنے گھر کو ایسی نظر سے دیکھنا جو دنیا کے بڑے گھروں سے چھوٹا اور کمتر معلوم نہ ہو یہ کوئی غرور نہیں ہے ۔ہر شخص کی دنیا اس کے اپنے گھر سے شروع ہوتی ہے اور یہی گھر کبھی چھوٹا اور سمٹا ہوا سا محسوس ہوتا ہے۔پھر آنگن میں چلتے ہوئے قدم کہیں اور پڑتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔یہاں مجھے اس بات کا ذکر بھی کرنا چاہیے کہ ایک مٹی کا مکان بھی تھا جس کا ذکر میری ایک تحریر میں آ چکا ہے جسے ابھی شائع ہونا باقی ہے ۔مٹی کا یہ مکان میری یادداشت میں بلکہ نگاہوں کے سامنے آج بھی موجود ہے۔ کبھی کبھی اس سے کچھ باتیں کرنے کو جی چاہتا ہے۔ کتنی موٹی دیوار تھی اور وہ اپنی گوری مٹی کے ساتھ کس قدر روشن تھی ۔ وہیں پاس میں ایک چولہا بھی تھا جس سے دھواں نکلتا اور آنکھوں میں آ کر کچھ نمی کا احساس دلاتا ۔یہ سوال اس وقت بھی ذہن میں تھا کہ چولہے کا دھواں آنکھوں میں آنسو کیوں کر لاتا ہے۔ وہ آنسو تو نہیں تھا پانی ضرور تھا ۔اور ہر پانی آنسو تو نہیں ہوتا۔ لیکن یہیں کہیں آنکھوں میں آنسو بھی تھا جس کا ادراک ممکن نہیں تھا۔اس وقت مجھے شفیع جاوید صاحب کی ایک تحریر یاد آرہی ہے جس میں انہوں نے اس مٹی کے مکان کا ذکر کیا ہے جس میں ان کی پرورش ہوئی تھی۔ تحریر یہ بھی کہتی ہے کہ بچپن جس مٹی کے گھر میں گزرتا ہے وہ تمام عمر اپنے وجود کو مٹی سے الگ نہیں کر پاتا۔ ان سے ایک موقع پر میں نے بھی کہا تھا کہ مٹی کا مکان میرے یہاں بھی تھا ،جو دوسرے پختہ مکانوں کے ساتھ بہت مختلف دکھائی دیتا ۔ مجھے اپنی والدہ کا خیال آتا ہے۔باورچی خانہ سے دھواں کتنا پہلے اٹھا تھا مگر آج بھی وہ اٹھتا ہوا دکھائی دیتا ہے ۔گیس چولہے کی تہذیب دھیرے دھیرے گھر کی زینت بنی اور پھر یوں ہوا کہ کھانے کی تشکیل اور تعمیر تیز رفتاری کا شکار ہو گئی۔ اور ذائقہ بھی دھیرے دھیرے بدلنے لگا۔ امی سوکھی اور کچھ گیلی لکڑی کو ایک ساتھ جلاتی تھیں ۔گیلی لکڑی سے نکلنے والا دھواں آ نکھوں میں زیادہ پانی لاتا ہوگا ۔ پختہ باورچی خانے میں گیس چولہے کے ساتھ ایک مٹی کا چولہا بھی تھا ۔ اس سے اٹھتا دھواں کتنا دلکش تھا اپنی اس خوبی کے باوجود ۔دھواں جب پھیل جاتا تو امی کا چہرہ بھی اس میں کچھ کھویا ہوا سا محسوس ہوتا ۔دھواں بھی کتنا گھنا تھا ۔اس کی سیاہی آنکھوں کا سرمہ تھی یا سرمہ بن سکتی تھی۔ اس دھوئیں میں کتنا آنسو پوشیدہ تھا۔گیلی اور کچی لکڑی کی یکجائی کیا کچھ کہتی تھی۔ایک ساتھ جلنے اور جلانے کی تہذیب۔یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے۔اس سوال کا جواب بہت پہلے مل گیا تھا جس میں ارضیت اور مقامیت شامل تھی۔ندا فاضلی کی ایک نظم کچی دیواریں یاد آتی ہے۔
میری ماں
ادھر ادھر سے مٹی لا کر
گھر کی کچی دیواروں کے زخموں کو بھرتی رہتی ہے
تیز ہواؤں کے جھونکوں سے
بیچاری کتنا ڈرتی ہے
برسوں کی سیلی دیواریں
چھوٹے موٹے پیوندوں سے
آخر کب تک رک پائیں گی
جب کوئی بادل
گرجے گا
ہر ہر کرتی ڈھیے جائیں گی

چار مارچ 2024