وہ اور میں

یہ تحریر 88 مرتبہ دیکھی گئی

وہ: آپ اس وقت اپنے وطن میں ہیں ۔دلی میں رہتے ہوئے وطن کے بارےمیں سوچنا اور وطن آ کر وطن کے بارے سوچنا دونوں میں کتنا فرق ہے ۔
میں: دیکھیے مقام کی تبدیلی کا انسان کی طبیعت پر اثر ہوتا ہے۔کبھی یہ شعوری ہوتا ہے اور کبھی غیر شعوری ۔یعنی ہم محسوس نہیں کر پاتے کہ وطن کے بارے میں وطن میں رہتے ہوئے ہمارے کیا جذبات ہیں اور وطن سے بہت فاصلے پر ہمارے احساسات کیسے اور کیا ہیں؟ یہ سوال کتنا سادہ اور آسان ہے مگر غور کیجئے تو اس کا جواب نہایت مشکل معلوم ہوگا۔وہ بھی اس صورت میں کہ جب لوگ اپنی سہولتوں کے ساتھ پردیس میں رہنا پسند کرتے ہیں اور انہیں اپنے گھر اور علاقے کی گرد سےاٹی ہوئی فضا ڈراتی ہو۔ مجھے یاد ہے کہ پچھلے برس جب چھٹیوں میں یہاں آیا ہوا تھا تو ایک بزرگ نے مجھ سے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ میں مختصر اور لمبی چھٹیوں میں گھر آ جاتا ہوں۔ کہنے لگے کہ لوگ باہر جا کر کچھ اور ہو جاتے ہیں ان کی زبان بدل جاتی ہے ،انداز بدل جاتا ہے۔ کبھی پلٹ کر آتے بھی ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کسی اور دنیا کے باسی ہوں۔ مجھے بزرگ کی ان باتوں نے بڑا حوصلہ دیا ۔لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ہر مرتبہ وطن آ کر ایک جیسا احساس نہیں ہوتا۔ ٹھیک اسی طرح جیسے کہ کسی متن کو کئی بار پڑھتے ہوئے کئی سمتوں کی جانب ذہن منتقل ہو جاتا ہے۔ وطن ایک متن کی طرح مجھے بار بار اپنی جانب بلاتا ہے۔ کبھی یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ اگلے سفر میں وطن کا یہ متن زیادہ تہدار اور گھنیرا تھا ۔اس سے ہمارے رشتے کی نوعیت اب وہ نہیں ہے جو پہلے تھی۔وطن کی مٹی تو وطن کی مٹی ہے کیا اچھا شعر کلیم عاجز نے کہا تھا۔
عزیز کیوں نہ ہو خاک رہ وطن مجھ کو
یہ میرے ساتھ مرے پیرہن میں آئی ہے
تو وطن کی مٹی ایک ہی طرح سے ہر شخص کے پیرہن میں اگر آتی تو ہر شخص کا رویہ اپنے شہر اور بستی کے بارے میں اتنا مختلف نہ ہوتا ۔وطن کی مٹی پیرہن کے ساتھ تمام عمر سفر کرتی رہتی ہے کچھ لوگ دامن سے جھٹک دیتے ہیں اور انہیں لگتا ہے کہ مٹی کہیں چلی گئی ہے ہر شخص دامن کو کچھ یوں تو جھٹک نہیں سکتا۔ دامن سے لگی ہوئی مٹی کبھی دامن کو خود بھی جھٹک دیتی ہے جسے کوئی اچھا متن نا لائق قاری کو رد کر دیتا ہے ۔دامن دھیرے دھیرے اپنے شہر اور علاقے سے نکل کر کبھی اتنا دراز ہو جاتا ہے کہ اسے ہر شئے چھوٹی اور کمتر نظر آتی ہے ۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس دامن کی اس درازی میں ایک دنیا سمٹ آئی ہے۔ لیکن وہ مٹی اور خاک جو کبھی دامن سے لپٹی تھی مسافر کی واپسی کا انتظار کرتی ہے ۔یہ وطن کی محبت ہی تھی جس سے متاثر ہو کر حالی نے مقدمہ شعر و شاعری میں سر والٹر اسکاٹ کا ذکر کیا ہے۔اسے اپنے شہر اسکاٹ لینڈ سے بہت محبت تھی کہا جاتا ہے کہ سروالٹر اسکاٹ نے ایک ایسا علاقہ دریافت کر لیا تھا جو صرف محبت کیے جانے ک لائق ہے۔امداد امام اثر نے اس سے آگے جا کر لکھا کہ سروالٹر اسکاٹ کی طرح ہمارے یہاں ایک شاعر نظیر اکبر آبادی ہے- والٹر اسکاٹ سے ہمارے ندیموں کی دلچسپی کا سبب اسکاٹ کی فطرت میں اپنی دلچسپی ہے۔ فطرت رفتہ رفتہ وطن کا درجہ اختیار کر لیتی ہے فطرت کا ایک ہی مذہب ہے۔ اس کی مقامیت میں ایک ایسی آفاقیت پوشیدہ ہے جس پر سب کا اتفاق ہو جاتا ہے اسکاٹ کو اپنے والد کے ساتھ کچھ وقت ٹویڈ ندی کی گھاٹی میں گزارنے کا موقع ملا اور پھر ان کی طبیعت پر فطرت کا اثر بڑھتا گیا ۔ندی کے کنارے ایک شاندار عمارت کی تعمیر بھی کی۔ساحلی علاقوں کی کہانیوں میں جو بہادری کے معاملات ہیں ان سے بھی اسکاٹ کو تحریک ملی۔آپ نے میرے گھر اور وطن کے بارے میں پوچھا تھا کہ اپ یہاں رہتے ہوئے کیا محسوس کرتے ہیں اور جب دہلی میں ہوتے ہیں تو اپ کے احساسات کی دنیا کیسی ہوتی ہے۔مجھے نہیں معلوم کہ کس طرح سروالٹر اسکاٹ درمیان میں آگئے ۔ کچھ دنوں پہلے سر والٹر اسکاٹ کی نظموں کا ایک انتخاب دیکھا تھا۔ یہ کتاب بک بازار سے مل گئی تھی۔نام تو پہلے سے ذہن میں موجود تھا۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ آپ جس مصنف کو نہ پڑھنا چاہیں کسی خاص صورتحال میں اسے پڑھ لیتے ہیں ۔اس طرح بھی ہماری قرآت کا سفر جاری رہتا ہے ۔سر والٹر اسکاٹ کی نظموں میں تاریخ کا جو عمل ہے اس کا رشتہ ان کے تاریخی ناولوں سے بھی ہے۔ حالی اور امداد امام اثر دونوں کو والٹر اسکاٹ میں دلچسپی اسی وجہ سے پیدا ہوئی ہوگی کہ اس نے فطرت کو تاریخ سے اور تاریخ کو فطرت سے وابستہ کرکے دیکھا۔لیکن فرق یہ ہے کہ اسکاٹ نے جن کتھاؤں اور کہانیوں کے وسیلے سے تاریخ کو دریافت کیا تھا وہ عمل ہمارے یہاں ان بزرگوں کے حوالے سے دکھائی نہیں دیتا۔ حالی نے تو کہانیوں اور کتھاؤں کے سلسلے میں ایسی کوئی سرگرمی بھی نہیں دکھائی البتہ امداد امام اثر کے یہاں “فسانہ ہمت” جو ناول کی ہیئت میں ہے یہ صورت دکھائی دیتی ہے۔ “فسانہ ہمت” کی کہانی بھی فطرت کو مسخر کرنے کی تحریک سے وابستہ ہے۔ بنیادی طور پر فطرت کو امداد امام اثر نے اپنی تنقید اور تخلیق دونوں میں برتنے کی کوشش کی۔ سر والٹر اسکاٹ نے قانون میں بھی ڈگری حاصل کی تھی انہوں نے اس پیشے کو بھی اختیار کیا لیکن ان کا رجحان ادب کی طرف تھا- بالاآخر وہ اسی کے ہو کر رہ گئے ۔امداد امام اثر نے بھی قانون میں ڈگری حاصل کی تھی اور کچھ دنوں تک وکالت بھی کی۔جس مقام کے بارے میں اپ سوچتے ہیں وہاں پہنچ کر سوچنے اور محسوس کرنے کا عمل کچھ نہ کچھ مختلف ہو جاتا ہے۔مٹی کا تصور مٹی کے وجود کا بدل تو نہیں ہو سکتا ۔جس مٹی میں کھیلتے اور لوٹتے ہوئے آپ کا بچپن گزرا ہو وہ کیوں کر اور کس طرح بڑے شہر کے تصور سے مات کھا سکتی ہے وہ اور لوگ ہیں جو گزرے ہوئے وقت کو گزرا ہوا وقت سمجھتے ہیں۔چھٹیوں کے دنوں میں مجھے اپنے شہر اور علاقےکے علاوہ بہت کم کسی کا خیال آتا ہے۔جیسے جیسے چھٹی کی تاریخ نزدیک آتی ہے فکر و خیال کی دنیا میں ایک سرسراہٹ سی محسوس ہوتی ہے۔زندگی کی بڑھتی ہوئی سہولتیں اپنے گھر اور دیار کی راہ کو اگر چھوٹا بنا دیں تو اس سے زیادہ محرومی کی بات کیا ہوگی۔احساس کو زبان دینے کی خواہش کبھی ہوتی ہے اور کبھی نہیں ہوتی۔احساس بھی پردہ پوشی کا متقاضی ہوتا ہے جیسے کہ لکھنے کے بعد اس کی شدت میں کمی آ جائے گی۔اب وہ کچی سڑکیں گئے دنوں کا قصہ معلوم ہوتی ہیں جن پر ہمارے پاؤں پڑتے تھے اور برسات کے موسم میں پھسل جاتے تھے۔ زندگی اور بچپن کی زندگی کا حسن گیلی زمین پر پھسل جانا بھی تو ہے۔اب یادیں بھی کچھ پتھر سے مشابہ معلوم ہوتی ہیں۔ وحید اختر نے ایک غزل کہی تھی جس کی ردیف پتھر یادیں ہے۔وہ یادیں جو اپنے شہر اور دیار سے وابستہ ہیں انہیں تمام عمر دیار غیر میں لیے پھرنا آسان نہیں ہوتا۔یادیں بھی وقت کے ساتھ خالص نہیں رہتی ہیں۔نہ جانے کن کن حوالوں سے یادیں خود کو ثروت مند بنا لیتی ہیں۔ایسا بھی ہوتا ہے کہ گزرتے وقت کے ساتھ یادیں سمٹنے لگتی ہیں۔کسی فرد واحد کی زندگی،اس کا شہر،اس کے لوگ زندگی اور کائنات کے بڑے کینوس میں کتنی اور کیا اہمیت رکھتی ہیں ۔کبھی کوئی شہر ذات کے حوالے سے اتنا بڑا ہو جاتا ہے کہ اسے عالمی پہچان مل جاتی ہے۔لیکن اس کے لیے اس ذات کا بڑا ہونا ضروری ہے جس سے کہ اس کا شہر بھی تخلیقی سطح پر بلند ہو جائے۔ذات کا سفر ایک گھر آنگن اور محلے کی گلی سے شروع ہوتا ہے اور یہ گلی گھر آنگن کے ساتھ لمبی اور کشادہ راستے میں تبدیل ہو جاتی ہے لہذا یہ گھر بھی اتنا چھوٹا نہیں ہوتا جتنا کہ ہم سمجھتے ہیں۔محسوس کرنے کا عمل وقت کے ساتھ اگر کشادہ نہ ہو تو سمجھیے کہ فکر و خیال کی سطح پر ہماری دنیا سمٹ رہی ہے۔جیسا کہ میں کہہ چکا ہوں یادیں پھیلتی جاتی ہیں ۔یادیں جب خواب بن جاتی ہیں تو سمجھیے کہ وجود یادوں سے شرابور ہو گیا ہے۔وزیر آغا نے تمدن اور تہذیب کے درمیان فرق کرتے ہوئے یہ بتایا تھا کہ تمدن ایک عبوری دور ہے جب یہ ختم ہو جاتا ہے تو تہذیب اپنا سفر شروع کرتی ہے تہذیب دراصل تہذیبی زندگی میں شرابور ہو جانے کا نام ہے۔یہ پہلا موقع تھا جب مجھے تمدن اور تہذیب کے درمیان کچھ فرق کا احساس ہوا۔تمدن کا رشتہ کسی معاشرے کی اقتصادی صورت حال سے ہے۔”کلاسیم” کا رشتہ اس مخصوص معاشرے سے تھا جس کی آمدنی زیادہ تھی۔”کلاسیم” کا تصور رفتہ رفتہ رفتہ کلاسک کے ساتھ آگے بڑھنے لگا۔خود میں نے یہاں پیداواری نظام کے ساتھ اور ایک مخصوص اقتصادی صورت حال کے ساتھ تہذیب کو وابستہ دیکھا ہے ۔اس تہذیب کی کچھ خرابیاں بھی ہو سکتی ہیں مگر کچھ خوبیوں کے ساتھ ایک مدت تک یہ معاشرے کی شناخت تھی۔جاگیردارانہ نظام میں پرورش پانے والی نسلیںں کہاں جانتی تھی کہ مفلسی کیا ہوتی ہے۔ مگر آنکھوں نے دیکھا ک نازو نعمت میں پرورش پانے والی نسلیں روزگار کی تلاش میں ادھر ادھر بھٹک رہی ہیں۔ایک قلیل آمدنی، فیوڈل نظام اور ذہن کا لازمی نتیجہ کے طور پر سامنے آئی۔آ پ نے یادوں کے بارے میں پوچھا تھا اور مجھے معاشی اور اقتصادی صورتحال کے خیال نے گھیر لیا ہے۔تہذیب کا یادوں سے کیا رشتہ ہے؟اس سوال پر بہت غور نہیں کیا گیا۔تہذیب کا معاشی اور اقتصادی صورتحال سے کیا رشتہ ہے اس بارے میں ممتاز حسین ،احتشام حسین ،اور محمد حسن نے گہرائی کے ساتھ سوچا اور لکھا ہے۔خیال آیا کہ شمیم حنفی نے تہذیب کو طرز احساس کا نام دیا تھا۔طرز احساس کی تعمیر اور تشکیل میں زندگی کے خارجی حقائق اور مسائل کا اہم کردار ہوتا ہے۔یہ میرا طرز احساس یا کچھ اور ہے کہ ایک دیار اور علاقے سے وابستہ اپنی یادوں کی دنیا کو اپنے انداز میں دیکھ رہا ہوں اور محسوس کر رہا ہوں۔طرز احساس سے شمیم حنفی صاحب کی مراد یہ بھی ہوگی کہ ہر معاشرہ اپنے طور پر زندگی اور زمانے کو دیکھتا اور محسوس کرتا ہے۔جس طرح محمد حسن عسکری نے اس خیال کا اظہار کیا تھا کہ ہر لسانی اور تہذیبی معاشرے کو اپنے معیار متعین کرنے کا حق ہے۔یہ بات گرچہ بہت اہم ہے مگر اس نے ایک خاص طرح کی مشرقیت کو پروان چڑھایا جس میں مغرب سے غیر ضروری بیزاری شامل تھی۔ایک ہی علاقے اور ایک ہی تہذیب میں پرورش پانے والے لوگ ایک ہی طرح سے نہیں سوچتے۔کبھی اختلاف فطری طور پر پیدا ہو جاتا ہے اور کبھی اختلاف کی بنیاد میں سیاست کا کوئی کردار ہوتا ہے۔یادیں اتنی خالص کہاں ہوتی ہیں۔کبھی اس طرح بھی غور کرنا چاہیے کہ یادیں اپنے ساتھ اداسی کیوں کر لاتی ہیں۔کیا یادوں کا رشتہ بنیادی طور پر اداسی سے ہے یا پھر ہم جسے گزرا ہوا وقت کہتے ہیں وہ رفتہ رفتہ اداسی کا کوئی علاقہ بن جاتا ہے اور یہی علاقہ ہمارے وجود میں آ کر لاشعور کا اندھیرا علاقہ۔ یادوں کو تاریخ سے کیا مطلب، تاریخ تو حقائق کا مجموعہ ہے۔ یادیں تاریخ کے ساتھ بلکہ تاریخ کی سنگلاخ زمین کو اپنے طور پر پامال کر دیتی ہیں اور اس کے بعد جو دولت حاصل ہوتی ہے تاریخ اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود وہ دولت حاصل نہیں کر سکتی۔یادیں شہر سے باہر شہر کو کسی اور طرح سے سامنے لاتی ہیں اور جب شہر سے یادیں نزدیک ہونے لگتی ہیں فاصلہ کم ہوتا جاتا ہے تو انہیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کوئی ماندگی کا وقفہ آگیا ہو۔ صرف دو دنوں کے لیے آنا ہوا ہے! لیکن یادیں ان دو دنوں کے ساتھ خود کو کتنا فعال محسوس کر رہی ہیں ۔ یادوں کی کوئی عمر بھی ہوتی ہے ۔ ہمیں اتنا سلیقہ نہیں کہ ہم یادوں کی کوئی تاریخ لکھ سکیں یا ان کی عمر کا تعین کر سکیں۔انفرادی یادداشت جب اجتماعی یادداشت میں تبدیل ہو جاتی ہے تو اس کی تاریخ کا تعین مشکل ہو جاتا ہے۔kenneth Mcneil کی کتاب scotish Romanticism and collective memory in British Atlantic ایک اہم کتاب ہے جس کا مطالعہ اس لحاظ سے ضروری ہے کہ ایک مخصوص شہر سے وابستہ فرد واحد کی یادیں اجتماعی حافظے میں کس طرح تبدیل ہو جاتی ہیں اور یادیں اجتماعی زندگی کے جن مسائل سے داخلی سطح پر وابستہ ہیں انہیں انفرادی اور اجتماعی میں تقسیم کرنا بہت مشکل ہے فطرت بظاہر کتنی سادہ اور معصوم ہے اور فطرت کے ساتھ فروغ پانے والی نرم و نازک یادیں کس طرح وقت کا سامنا کرتی ہیں یہ بھی مطالعہ ایک اہم پہلو ہے۔والٹر اسکاٹ کے ساتھ تاریخی ناول اور تاریخی روحانیت کی اصطلاحیں یونہی تو وابستہ نہیں ہوئیں ۔ثقافتی یادداشت اور مادی ثقافت کے درمیان رشتے کی جستجو اب ہمارا پہلے کی طرح مسئلہ نہیں رہی۔مادی ثقافت سے جو بیزاری پہلے تھی اس میں کمی تو آئی ہے پھر بھی اب بھی کچھ لوگ ایسے موجود ہیں جنہیں لفظ مادہ ہی سے نفرت سی ہے۔صبح سے شام تک جس مادے کے لیے ہماری تہذیبی زندگی میں انتشار و اختلاف اور نہ جانے کیا کچھ ہے اس کے بارے میں ادبی نقطہ نظر سے بیزاری کا اظہار کرنا کتنا مضحکہ خیز ہے۔ یہ بھی حیرانی کی بات ہے کہ حالی کو کون بتا رہا تھا کہ مادہ ادبی اور تہذیبی معاملات میں اتنی اہمیت کا حامل ہے۔مجھے یاد ہے ایک جلسے میں مقرر نے اس بات پر حیرانی کےساتھ حالی سے اپنی ہمدردی کا اظہار کیا تھا۔یعنی حالی کتنے معصوم اور سادہ ہیں کہ کسی سے سن کر یا معلوم کر کے لفظ مادہ کو استعمال کر لیا ۔ مقدمہ شعر و شاعری کا وہ جملہ تو آپ کو یاد ہوگا کہ “قوت متخیلہ کوئی شے بغیر مادہ کے پیدا نہیں کر سکتی”۔ یہ کیسی ذہنی سرگرمی تھی جو حالی کے ذریعے سامنے آئی ۔مجھے آپ کے سوال کا احساس ہے۔چونکہ اس کا تعلق احساس اور حافظے سے ہے لہذا ذہن بار بار اسی طرف کو منتقل ہو جاتا ہے اور اپنے ساتھ مختلف تضادات کو بھی لے آنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ہوش سنبھالا تو گھر میں کچھ کتابیں دیکھیں کچھ مذہبی اور کچھ ادبی کچھ وہ باتیں بھی سماعت میں آئیں جن کا تعلق مذہبیات اور ادبیات سے ہے۔پرندوں کی آوازیں تو اور بھی پہلے سے کانوں میں گونج رہی تھیں ۔کتابوں اور پرندوں کی آوازوں نے مل کر ذہنی تعمیر کا آغاز کیا لیکن اسی کے ساتھ وہ غلے بھی نگاہ کے سامنے تھے جو مختلف فصلوں کے بعد گھر آ جاتے۔بیل گاڑی سے آنے والے گیہوں اور مکئی کے بوریے کئی ماہ تک کوٹھی میں رہتے کبھی انہیں چلچلاتی دھوپ میں رکھ دیا جاتا ۔ تو مادہ اس طرح کتابوں، پرندوں کی آوازوں اور گفتگو کے ساتھ اپنی موجودگی کا احساس دلاتا رہا۔مادے کی شکل وقت کے ساتھ نہ صرف تبدیل ہوئی بلکہ اس کے تصور میں بھی تبدیلی واقع ہوئی۔

۳ مارچ، ۲۰۲۴
دیار عظیم آباد